بنگلور (بھارت) سے محترمہ حلیمہ فردوس نے ایک مختصرسا سوال اِس عاجز کو ارسال کیا ہے:
’’آج کل ’فنکارہ‘ لکھنے کا چلن عام ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟‘‘
حلیمہ آپا کا چُنّا مُنّا سا چیدہ و پیچیدہ سوال پڑھ کر ہمیں انورؔ مسعود کا ایک سنجیدہ شعر یاد آگیا:
کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا
کتنا دُشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
اپنی رائے رکھنے کے جو نقصانات ہیں، اُنھیں جاننے والے جانے ہیں۔ ہم تو یہ جانے ہیں کہ تائید کی خو کرلینے کے کثیر جہتی فوائد ہیں۔ ان فوائد میں سے ایک فائدہ تو یہی ہے کہ بندہ بحثابحثی سے بچ نکلتا ہے۔ دوسرافائدہ لُغوی یعنی لغت سے متعلق ہے۔کسی بھی زبان سے کوئی لفظ اُٹھائیے اور اسے اُٹھائے اُٹھائے اپنی زبان میں لے آئیے۔ زبان ہمارے گھر کی لونڈی ہے، سو لفظ کو لونڈی کے حوالے کردیجے۔ کہہ دیجے ’کہ مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر‘۔ اب خون خرابہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے، ذخیرۂ الفاظ میں تو اضافہ ہی ہوگا نا؟ نئے لفظ کو نہ صرف عامۃ الناس کی تائید حاصل ہوجائے گی بلکہ حضرتِ لفظ کی عوامی مقبولیت دیکھتے ہوئے لغات کو بھی اپنی رائے تبدیل کرنی پڑ جائے گی۔ جب صورت ایسی ہو تو بھاڑمیں جائے ہماری انفرادی رائے۔ مگر جائے کیسے؟ اِس دورِ جدید میں اب بھاڑ کہاں؟ وہ تواپنا بھاڑ سا منہ لیے دورِ قدیم ہی میں رہ گیا۔
دورِ قدیم کی ایک دو لفظی ترکیب ہے ’ہم شِیر‘۔ اس کا مطلب ہے دودھ شریک بھائی یا دودھ شریک بہن۔ یعنی وہ بھائی بہن جنھوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو، خواہ وہ سگے بھائی بہن ہوں یا رضاعی۔ فصحا کے ہاں مذکر، مؤنث دونوں کے لیے ’ہم شِیر‘ ہی مستعمل ہے۔ ’حامد میرا ہم شِیر ہے‘ اور ’حامدہ میری ہم شِیر‘۔ مگرشاید اس لفظ کا بے جِنس رہنا ہمارے دورِ جدید کے ہم جنسوں کو پسند نہیں آیا۔ سو، اس سے زبردستی تبدیلیِ جنس کروالی گئی۔’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘ کے تحت ایک نیا لفظ ایجاد کیا گیا ’ہم شیرہ‘۔ اس کا املا ہمیشہ ’ہمشیرہ‘ کیا جاتا ہے۔ ’ہمشیرہ‘ کا لفظی مطلب توشاید ’شیرہ شریک بھائی بہن‘ ہی ہوسکتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ کسی سہانی صبح یہ بھائی بہن لڑے بھڑے بغیر ہی شیرے میں شریک ہوگئے ہوں۔ تو یہ شیرینی بھرا لفظ اب لغات میں بھی آگیا ہے۔ یوں ذخیرۂ الفاظ میں ایک میٹھا میٹھا، مگر ذرا چِپ چِپا سا اضافہ ہوگیا۔
مؤنث کی محبت میں کچھ آشفتہ سروں نے، وہ لفظ تراشے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔ مثلاً ’ناہید‘ سیارہ زہرہ کا دوسرا نام ہے۔ غالباً تخلص ہوگا۔ اسمِ مؤنث ہے۔ حکیم مومن خان مومنؔ نے کسی گانے والی ہی کے متعلق انکشاف کیا ہوگا کہ ’اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک‘۔ مگر بنانے والوں نے اس مؤنث لفظ کا مزید مؤنث بنا ڈالا۔ بنا چکے تو اپنی بچیوں کا نام ’ناہیدہ‘ رکھ لیا۔ اسی طرح اقبالؔ کے شاہین کے منہ سے مونچھیں مُنڈاکر اور سر پر زلفیں اُگاکر اُس کو بھی شاہین سے ’شاہینہ‘ کردیا۔ اسی پر بس نہیں، بس چلانے والوں نے دیکھیے کہاں کہاں یہ جدت بھری ’پِنک بس‘ چلادی ہے۔ وہی گلابی رنگ کی زنانی بس جو حکومتِ سندھ نے چلا رکھی ہے :
دروازے پہ جنت کے، آواز دی رضواں کو
نکلی وہاں رضوانہ، لا حول وَ لا قوۃ
اب آئیے لفظ ’فن کارہ‘ کی طرف۔ فارسی زبان سے اخذ کیا ہوا، اُردو زبان کا ایک قاعدہ ہے کہ ’کار‘ جب بطورِ لاحقہ کسی اسم کے ساتھ لگایا جاتا ہے تو اُسے فاعل بنا دیتا ہے، یعنی’کرنے والا‘۔ جیسے کھیتی باڑی کرنے وال ا’کاشت کار‘ کہلاتا ہے۔ کسی کا کردار ادا کرنے والا ’اداکار‘ کہا جاتا ہے۔ گلے سے کام لینے والا ’گلوکار‘ ہوتا ہے۔ فن کا مظاہرہ کرنے والا یا اپنے فن کا ماہر شخص’فن کار‘ گردانا جاتا ہے۔ ’جفا کار‘ ظلم وستم کرنے والا اور ’تجربہ کار‘ وہ شخص جس نے بہت سے تجربات کیے ہوں اور کامیاب رہا ہو۔ مجازاً اپنے کام میں مہارت رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ تراکیب مذکر، مؤنث دونوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یاد نہیں پڑتا کہ کسی خاتون کے متعلق کبھی کہا گیا ہو کہ ’وہ بڑی تجربہ کارہ ہے‘۔ یا کھیت میں کام کرنے والی کسی بوڑھی امّاں کا تعارف یوں کروایا گیا ہو کہ ’یہ مائی کاشت کارہ ہے‘۔ جفا اگرعورت کرے تب بھی ’جفا کار‘ ہی کہی جائے گی، ’جفا کارہ‘ نہیں۔ لیکن یہ دورِ جدید ہے۔ اب ’اداکارہ، گلوکارہ، صدا کارہ، فن کارہ اور قلم کارہ‘ جیسی تراکیب سننے اور پڑھنے کو خوب ملنے لگی ہیں۔
’کارہ‘ کوئی لاحقہ نہیں ہے، مگر یہ ہر ’اداکارہ، گلوکارہ، صدا کارہ، فن کارہ اور قلم کارہ‘کو لاحق ہے۔ عربی میں ’کارَہ‘ کہتے ہیں کراہت کرنے والے کو۔ اور فارسی میں (’ر‘ پر زیر کے ساتھ) ’کارِہ‘ کا مطلب ہے کوئی خاص کام۔ یا خاص کام کرنے والا۔ فارسی ہی کا ایک اورلفظ ’ناکارا‘ (نکما، جو کسی کام کا نہ رہے) املا بدل کر ہمارے ہاں چلا آیا۔ رہا پھر بھی ناکارہ کا ناکارہ۔ اسی طرح ’ہر کام کرنے والا‘ ملازم جو فارسی میں ’ہرکارا‘ تھا ہمارے ہاں آیا تو بے چارہ کسی کا ’ہرکارہ‘ بن کر نامہ بری کی نوکری کرنے لگا۔ بقول ابن انشا ’’صبح صبح ہرکارہ، ڈاک سے ہوائی کی، نامۂ وفا لایا‘‘۔ ممکن ہے کہ مؤنث بنانے کی خاطر ’کار‘ کو ’کارہ‘ کر ڈالنے کا کام کسی ’’بے کارہ‘‘نے بیٹھے بیٹھے کردیا ہو۔
’کار‘ کے اصل معنی کام کے ہیں۔ اوریہ بہت کام کا لفظ ہے۔ ہر وہ چیز جو مفید اور کام آنے والی ہو’کارآمد‘ ہے۔ جو شے تیزی سے کام کر جائے وہ ’کارگر‘ ہوتی ہے۔ بہادری سے کیے جانے والے تاریخی اور یادگار کام کو ’کارنامہ‘ کہتے ہیں۔ جس جگہ کام کیا جاتا ہو وہ ’کارگاہ‘ اور ’کارخانہ‘ ہے۔ کارگاہ کو ’کرگہ‘ بھی کہتے ہیں اور کپڑا بننے کی کھڈّی بھی اصطلاحاً ’کرگہ‘ کہلاتی ہے۔ کام کرنے والا شخص ’کارکُن‘ اور ’کارپرداز‘ہے۔ اسی کو ’کارندہ‘ بھی کہتے ہیں۔ کام سے واقف یعنی کسی کام کو اچھی طرح جاننے والا ’کارشناس‘ سمجھا جاتا ہے۔ جو کام سونپا گیا ہو، وہ کام اطاعت و فرماں برداری سے عمل میں لانے والا ’کاربند‘ ہوتا ہے۔ کام کا حکم دینے والا اور کام چلانے والا ’کار فرما‘ ہے۔ کام چلانے اور کام آگے بڑھانے کے عمل کو ’کارروائی‘ کہا جاتا ہے۔ مجازاً تدبیر، انتظام اور بندوبست کو بھی ’کارروائی‘ کہتے ہیں۔ جو شخص کام میں ماہر ہو اور اپنے کام کا پختہ تجربہ رکھتا ہو وہ ’کارآزمودہ‘شخص ہے۔ یہی شخص ’آزمودہ کار‘ بھی کہلاتا ہے۔کام پیدا کرنے والا یا کام کا خالق ’کار آفریں‘ ہے۔ کام رُک جائے یا کام کے رستے بند ہوجائیں تو ان رستوں کو کھول دینے والا اور کام کی راہیں کشادہ کردینے والا ’کار کُشا‘ کہلاتا ہے۔ کام سنوارنے والی اور کام بنانے والی ذات ہی ’کارساز‘ ہے۔ آخر ی تینوں صفات اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ اسی وجہ سے اقبالؔ کہتے ہیں:
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کُشا، کارساز
انسانی ہاتھوں سے چلانے کے بجائے برقی قوت کی مدد سے خودبخود کام کرنے والی (Automatic) مشین ’خود کار‘ ہوتی ہے۔کسی کام یا روزگار پر لگا ہوا بندہ ’برسرِکار‘ کہلاتا ہے۔ جوکسی کام کا نہیں، صرف بُرے کام کا ہے وہ ’نا بہ کار‘ (نابکار) ہے۔ نیک کام کرنے والا ’نکوکار‘ اور بُرے کاموں یا کالے کرتوتوں والا شخص ’سیہ کار‘ کہلاتا ہے۔ ان معاملات میں شاید صنفی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ تب ہی تو ہم نے کسی اداکارہ، فن کارہ یا گلو کارہ کے متعلق کسی کو پوچھتے نہیں سنا کہ وہ ’نکوکارہ‘ ہے، ’سیہ کارہ‘ہے یا ’نابکارہ‘؟