خادم الدین والناس فضل الرحمن بن محمد کی زندگی کے مشاہدات و تجربات

مولانا فضل الرحمن بن محمد کا شمار لاہور کے جید علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ دینی علوم میں رسوخ حاصل کرنے اور اطاعتِ الٰہی کا معمول اختیار کرنے سے پہلے آپ کرکٹ کھیلنے کا شوق پالتے رہے، یہاں تک کہ 1950ء کی دہائی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل رہے۔ بیرونِ ملک متعدد میچ کھیلے۔ اُس وقت ایس ایف رحمن کے نام سے معروف تھے۔ کاروباری گھرانے سے تعلق تھا، وسائل کی کمی نہ تھی، لہٰذا ایسا شوق رکھنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صحت و صلاحیت کی دولت سے بھی نواز رکھا تھا۔ ہم نے انہیں سفید چمکتے کڑکتے لباس میں سفید ریش کے ساتھ منبر پر محوِ خطابت دیکھا۔ وہ اپنی داستانِ زندگی زبانی سناتے رہے مگر اسے تحریر کرنے کی طرف ان کا خیال نہیں گیا، یا وہ اسے بے فائدہ خیال کرتے تھے۔ آخرکار انہیں اس طرف متوجہ ہونا پڑا تو انہوں نے ساڑھے چھ سو صفحات پر محیط ایک بھرپور علمی کتاب پیش کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کرکٹ کے کھیل میں قدم رکھا تو اس میں اس قدر محنت کی اور زور لگایا کہ قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ پھر اس دائرۂ لہو و لعب کو چھوڑا تو کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اپنے آبائی کاروبار میں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ شریک رہے۔ پھر کاروبار کو بھی اونچا اٹھایا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے ذہن کی کایا پلٹ دی اور ایس ایف رحمن جنہوں نے دنیا گھوم پھرلی تھی اور زمانے کے سرد و گرم سے بخوبی آگاہ ہوچکے تھے، دین کے دامن سے وابستہ ہوگئے۔ اب کاروبار اور حصولِ علمِ دین دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ علم حدیث میں شناخت رکھنے والے معروف عالم دین مولانا عطا اللہ حنیف کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر اس بارگاہِ علم میں زانوئے تلمذ تہہ ہوکر نہیں رہ گیا، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان دیا تو گولڈ میڈل کے مستحق ٹھیرے۔ ایم اے اسلامیات بھی کیا۔ پھر وقت کی مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر پہنچ گئے اور وہاں سے شریعہ کورس کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ پھر حاصل شدہ علم کو معاشرے میں تقسیم کرنے پر لگ گئے اور حصولِ علم کی حالتِ تشہد سے اٹھ کر خطابت کی حالتِ قیام میں آگئے۔ مولانا محمد حنیف ندوی اور مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی کی مسندِ خطابت کے جانشین ٹھیرے۔ چھتیس برس جامع مسجد البارک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں خطابت کا طوطی بولتا رہا۔ کاروباری اور علمی حلقوں میں یکساں مقبولیت حاصل رہی۔
ان تمام مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ جنازے کے مسائل، عورت کی سربراہی، سفرِ مدینہ کی صحیح نیت، تفسیر فضل الرحمن (آٹھ مجلات)، امام ابن تیمیہؒ، مولانا ثنا اللہ امرتسری، انکم ٹیکس کی شرعی حیثیت جیسی منفرد کتب تصنیف کیں۔ ریڈیو پاکستان کے ’’قرآنِ حکیم اور ہماری زندگی‘‘ پروگرام میں سترہ سال تک تقاریر کرتے رہے۔ یہ مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اس سلسلے میں خوبی اور خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی ہر تقریر اور خطبے کو پہلے لکھتے، پھر اسے فی البدیہ مجمع کے سامنے پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جس طرح کی بے مثال جسمانی، ذہنی، قلمی اور لسانی نعمتوں سے نواز رکھا تھا ان کو بہترین طریقے سے انہوں نے خدمتِ دین میں صرف کیا۔ اس پر مالی نعمت کا اضافہ بھی کرلیا جائے کہ انہوں نے اپنے تمام تصنیفی منصوبوں کو اپنے خرچ پر طبع کیا اور ان کتابوں کا بیشتر حصہ مفت تقسیم ہوا۔ وہ جس طرح ستھرا لکھتے رہے اسی طرح عمدہ چھاپتے رہے۔ اس کے ساتھ خدمت ِخلق کے دیگر منصوبوں میں خطیر رقوم خرچ کرچکے ہیں۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔
زیر نظر کتاب اُن کی اسی بھرپور زندگی کی ایک معمولی سی جھلک پیش کرتی ہے۔ انہوں نے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک کی تمام کہانی کے کچھ منتخب پہلو ہی بیان کیے ہیں۔ اس کتاب میں بھی ان کی علمی حس بار بار اجاگر ہوتی رہی ہے۔ وہ جونہی اپنے سوانحی پہلو پر بات شروع کرتے ہیں ساتھ ہی اس سے متعلق کسی نکتے پر تحقیق شروع ہوجاتی ہے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ انہوں نے امرتسر کی تاریخ لکھ دی۔ امرتسر کے ساتھ سکھوں کا تعلق تھا، انہوں نے سکھوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ وہ کرکٹ ٹیم میں شامل رہے، انہوں نے اپنے عہد کے تمام دوروں کی روداد قلم بند کردی۔ وہ بیرونِ ملک دورے کرتے رہے تو انہوں نے ان تمام دوروں کی تفصیلات جزئیات سمیت یہاں درج کردی۔ وہ بھٹو کے ڈوبتے اور ضیا الحق کے چمکتے سورج کے عینی شاہد ہیں لہٰذا اس بارے میں بھی متعلقہ پہلو سپردِ قرطاس کردیے۔ تیسری دنیا میں امریکی مفادات کے حصول میں کون سے طریقے اختیار کیے جاتے اور لوگوں کو کس طرح زیر دام لایا جاتا ہے، اس کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بہت اعلیٰ قوتِ حافظہ سے نوازا ہے۔ ان کی یادداشتوں میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ وہ ہر موقع و محل اور ہر فرد و شخصیت کے ساتھ گزرے لمحات اور ملاقات کی تفصیل کو اسّی سال بعد بھی اسی تیقن کے ساتھ بیان کرتے ہیں جس طرح انہوں نے بچشم ِخود ملاحظہ کیا تھا۔
یہ کتاب سوانحی بھی ہے اور علمی بھی۔ مصنف اپنے حاصلِ زندگی کو کتاب کے شروع ہی میں بیان کرتے ہوئے دل گرفتہ دکھائی دیتے ہیں اور چشمِ بینا رکھنے والے ایک اہلِ علم و فضل کی درد و سوز میں ڈوب کر لکھی ہوئی یہ کتاب قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ اسے مسحور نہیں کرتی، بیدار کرتی ہے۔ اپنی تاریخ اور ذمہ داری سے آشنا اور آگاہ کرتی ہے۔ دنیاوی زندگی کی چمک کو دھوکا اور اخروی زندگی کے اخفا کو حقیقت قرار دیتی ہے۔
کتاب 22 ابواب پر مشتمل ہے، کچھ نہایت مختصر اور کچھ مفصل ہیں۔