انسان پوری عمر مسرت اور خوشی کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ انسان کو مسرت کی گھڑیاں نصیب نہیں ہوتیں۔ ہر انسان کو خوشیاں ملتی ہیں، مگر وہ دائمی نہیں ہوتیں۔ ہماری چنی ہوئی نشاط کی کلیاں بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں کیوںکہ وہ کھِلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہیں، اور یوں یاس ایک بار پھر ہمارے اعصاب پر ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ لوگ مدتوں اپنے محبوب کے آنے کا انتظار کرتے ہیں، پھر کسی دن یوں ہوتا ہے کہ سرِ شام چلنے والی ہوا دور رہنے والے محبوب کی آمد کا استعارہ بن جاتی ہے۔ محبوب کی چاپ سے دیوار و در کھنک اٹھتے ہیں، ملاقات بھی ہوتی ہے، مگر اس ملاقات سے اک اور ملاقات کی صورت نہیں نکل پاتی۔ بقول مصطفیٰ زیدی:
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
رات ڈھل جاتی ہے، تاروں کا غبار بکھر جاتا ہے اور اپنے بے خواب دروازے مقفل کردیے جاتے ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ عرصہ بیت گیا، جب ساحر لدھیانوی نے دو خوب صورت شعر کہے تھے جو آج بھی زندہ ہیں اور ہماری خوشیوں کی بے ثباتی کا بڑے دل کش انداز میں تذکرہ کرتے ہیں:
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
اہم سوال یہ ہے کہ انسان کی مسرت دیرپا کیوں نہیں ہوتی؟ انسان مسرت کے چند لمحے گزار کر یاس کی چادر کیوں اوڑھ لیتا ہے؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم طویل مدت تک آسودہ اور مطمئن زندگی بسر کرسکیں؟ دنیا بھر کے انسان صدیوں سے ان سوالوں کے جواب میں سرگرداں ہیں اور آج اکیسویں صدی میں بھی دائمی مسرت کی تلاش کا سفر جاری ہے۔ اکیسویں صدی وہ صدی ہے جب سائنس کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور بلاشبہ عروجِ آدم خاکی سے آج انجم سہمے جاتے ہیں۔ ایک طرف انسان ستاروں اور سیاروں کی گزرگاہیں تلاش کررہا ہے اور دوسری طرف دنیا بھر کی آسائشیں آج ایک عام آدمی کے لیے بھی میسر ہیں۔ وہ آسائشیں جن کا تصور ماضی کے بڑے بڑے شہنشاہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ان آسائشوں کے حصول کے باوجود انسان دائمی مسرت اور آسودگی سے بہت دور ہے۔ کیا آسائشوں اور دولت کا تعلق انسانی مسرت و شادمانی سے نہیں ہوتا؟ کیا طاقت اور شہرت کے ذریعے انسان کو پائیدار خوشی نہیں مل سکتی؟ ان سوالوں نے پورے عالم کو پریشان کررکھا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ پریشانی اقوام متحدہ تک جا پہنچی ہے۔ 22 جولائی 2012ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ 2013ء سے 20 مارچ کا دن ”عالمی یوم مسرت“ کے طور پر منایا جائے گا۔ پچھلے دس برسوں سے 20 مارچ کو یوم مسرت منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ خوش رہنے کی کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرئہ ارض کے ہر مکین کی دسترس میں خوشی ہونی چاہیے۔ ہر ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ہر ممکن خوشی فراہم کرے۔
اقوامِ متحدہ نے کچھ اشاریے مرتب کیے ہیں جن کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں خوشیوں کا تناسب کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال ایک رپورٹ شائع کی جاتی ہے، جس میں دنیا کے خوش حال ممالک کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مرتب کیے ہوئے اشاریے تعداد میں چھے ہیں:
٭فی کس اوسط آمدنی
٭ صحت کے لیے سہولیات کی فراہمی
٭اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی
٭معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ
٭ سماجی بہبود کا مؤثر و مربوط نظام
٭ فیاضی و سخاوت
2022ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے جو فہرست جاری ہوئی، اس کے مطابق دنیا کے دس سب سے زیادہ خوش حال ممالک یہ ہیں: فن لینڈ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ، ہالینڈ، ناروے، سوئیڈن، لکسمبرگ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا۔
پانچ عالمی طاقتوں میں سے کوئی ایک بھی ان دس ممالک میں شامل نہیں ہے۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ طاقت کا حصول انسان کو مسرت فراہم نہیں کرسکتا۔ تین اسکینڈے نیوین ممالک یعنی ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن اس فہرست میں موجود ہیں اور پہلے نمبر پر ان کا ہمسایہ ملک فن لینڈ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 103 اور بھارت کا 136 ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس رپورٹ کو متنازع و جانب دارانہ قرار دیا گیا ہے اور شدید استعجاب کے ساتھ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان اس فہرست میں واضح طور پر ان سے اوپر کیوں ہے؟ بھارت کے استعجاب پر اپنا ایک پرانا شعر یاد آگیا:
بس اک استعجاب ہمیشہ خوابوں میں تعبیروں میں
میرے غم اور خوشی کے پہلو میں حیرانی ہوتی ہے
خوش حال ممالک کی فہرست سے اختلاف ممکن ہے اور اقوام متحدہ کے فراہم کیے ہوئے اشاریوں کو بھی محلِ نظر قرار دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ مذکورہ فہرست اور اشاریوں سے کسی ملک کی مجموعی صورتِ حال تو سامنے آتی ہے مگر افراد کی خوشی اور اطمینان کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال اس فہرست سے ایک مجموعی تاثر ضرور قائم ہوتا ہے اور اسے حقیقت سے بہت زیادہ بعید قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بات آگے بڑھانے سے پیشتر بہتر ہوگا کہ ہم ایک فرد کی مسرت و شادمانی کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جائے کہ مسرت پائیدار کیوں نہیں ہوتی اور اس کا دورانیہ اتنا مختصر کیوں ہوتا ہے؟
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسرت یا خوشی ہمارے بنیادی جذبات میں شامل ہوتی ہے۔ پال اکمان (Paul Ekman) کا شمار عصرِ حاضر کے عظیم ماہرینِ نفسیات میں ہوتا ہے۔ اُس کے کہنے کے مطابق انسان کے چھے بنیادی جذبات ہوتے ہیں۔ باقی تمام جذبات ان بنیادی جذبات کے باہمی اتصال سے تشکیل پاتے ہیں۔ یہ چھے جذبات درج ذیل ہیں:
٭اداسی ٭مسرت ٭خوف ٭غصہ ٭استعجاب ٭نفرت
مسرت وہ جذبہ ہے جس کے حصول کے لیے انسان پوری عمر جدوجہد کرتا ہے۔ درحقیقت ہماری تمام کوششوں کا بنیادی محرک یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح مسرت و شادمانی حاصل کی جائے۔ کچھ لوگ اسی دنیا میں ہر قسم کی مسرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ایک صاحبِ ایمان شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر مسرت، کامرانی اور اطمینان کی دولت نصیب ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسرت کے ہونے یا نہ ہونے سے ہماری زندگی کی تصویر بنتی ہے اور ہماری شخصیت متشکل ہوتی ہے۔ مختلف ماہرینِ نفسیات نے مسرت کی موجودگی سے زندگی پر پڑنے والے مثبت اثرات بیان کیے ہیں، مثلاً:
٭ جب لوگ خوش ہوتے ہیں تو انہیں زندگی بڑی محفوظ نظر آتی ہے۔
٭ خوش رہنے والے لوگ آسانی سے زندگی کے اہم اور بڑے فیصلے کرسکتے ہیں۔
٭ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو لوگوں سے ہمارے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں۔
٭ اگر ہم خوش ہوں تو اپنی پوری زندگی کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔
٭ خوشی کی کیفیت میں مستقبل کے لیے امید اور رجائیت پیدا ہوجاتی ہے۔
٭ خوش رہنے والے لوگوں میں دوسروں کی مدد کرنے کی خواہش بیدار ہوجاتی ہے۔
مسرت کے پیچھے موجود عوامل تلاش کرنے کے لیے ماہرین نفسیات نے دو مختلف نوعیت کی تحقیقات کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے عمومی مزاج میں روزانہ کی بنیاد پر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ دوسرے یہ کہ نسبتاً طویل عرصے کے لیے ہم پر مسرت اور اداسی کی کیفیات کس طرح طاری ہوتی ہیں؟ ہمارے ساتھ روزانہ چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آتے ہیں جن کی وجہ سے ہم وقتی طور پر خوش یا اداس ہوجاتے ہیں، مگر اگلے دن تک ہم سب کچھ بھول کر عام زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کی خوشی یا اداسی کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ساتھ کچھ ایسے واقعات اور حادثات پیش آتے ہیں جو زیادہ لمبی مدت کے لیے ہمیں حزن و ملال اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں (مثلاً کسی عزیز کی وفات، پورے جسم کا فالج، نابینا پن یا کوئی اور معذوری)۔ بالآخر سارے کاری زخم بھر جاتے ہیں اور ہم دوبارہ عمومی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ 1988ء میں ایک امریکی یونی ورسٹی میں بڑا دل چسپ سروے کیا گیا جس میں صحت مند طلبہ کے جذبات و احساسات کا موازنہ نابینا طلبہ سے کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں قسم کے طلبہ کی عمومی خوشی اور اداسی کا دورانیہ ایک سال تھا۔
ایک دوسرے سروے میں اُن لوگوں کا جائزہ لیا گیا جنہیں اچانک غیر معمولی خوشی نصیب ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص کروڑوں روپے مالیت کی لاٹری جیت لیتا ہے۔ ایسے لوگوں پر یقیناً سرخوشی کی شدید کیفیت طاری ہوجاتی ہے، مگر تھوڑے عرصے کے بعد ان کے مزاج کی سرخوشی معدوم ہوجاتی ہے اور وہ دوبارہ عمومی زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں ایک اور زندہ حقیقت آشکار ہوئی ہے، وہ یہ کہ دھن دولت کی بنیاد پر خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں۔ جرمنی کے لوگوں کی مجموعی دولت آئرلینڈ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، مگر آئرش لوگ جرمنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش اور مطمئن ہیں۔ گزشتہ پچاس سال میں انفرادی طور پر امریکیوں کی دولت کئی گنا بڑھ گئی اور انہیں بے تحاشا آسائشیں بھی حاصل ہوگئیں، مگر ان کی خوشیوں کے تناسب میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
دولت اور آسائشوں کے ذریعے ہمیں دائمی مسرت کیوں حاصل نہیں ہوتی؟ ہم وقتی طور پر خوش ہوکر عمومی زندگی کی طرف کیوں لوٹ جاتے ہیں؟ ماہرینِ نفسیات ہمارے سامنے دو قوانین بیان کرتے ہیں، جن میں ان سوالوں کا جواب موجود ہے۔
1۔ اپنے موجودہ معیار کی تشکیلِ جدید کا قانون:
اس قانون کی رُو سے ہر انسان وقت کے ساتھ اپنا معیار بدلتا رہتا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک انسان اپنی موجودہ سماجی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کچھ سہولیات حاصل کرنے کی خواہش اور جستجو کرتا ہے اور بالآخر وہ سہولیات اسے حاصل ہوجاتی ہیں۔ کچھ عرصے ان سہولیات کے ساتھ گزار کر انسان کے اندر مزید بہتری کی آرزو جنم لیتی ہے اور وہ نئی سہولیات کے حصول میں سرگرداں ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سفر دو کمروں کے مکان اور سائیکل سے شروع ہو، مگر اس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔ جدید ترین کار اور وسیع و عریض کوٹھی کا مالک بننے کے بعد بھی انسان کو دائمی اطمینان نصیب نہیں ہوتا، اور وہ کئی کاروں اور کوٹھیوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا ہے۔ مشہور ماہر نفسیات کیمپ بیل نے 1975ءمیں کہا تھا کہ انسان کرئہ ارض پر کبھی سماجی جنت تعمیر نہیں کرسکتا۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اپنی خیالی جنت یا یوٹوپیا میں ایک رات گزار کر جب وہ بیدار ہوگا تو اپنی زندگی کے معیار کو نئے سرے سے تشکیل دینے کا آغاز کردے گا۔
2۔ دوسروں کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا قانون:
اس قانون کے تحت انسان زندگی بھر اپنا موازنہ دیگر لوگوں سے کرتا رہتا ہے اور اس کا احساسِ کمتری ہمیشہ بیدار رہتا ہے۔ انسان بہت کچھ حاصل کرتا ہے اور کچھ دیر کے لیے خوشی اور اطمینان بھی اسے میسر آتا ہے، مگر اس کی ساری خوشی اُس وقت رخصت ہوجاتی ہے جب کچھ لوگ اسے اپنے سے بہتر مقام پر نظر آتے ہیں۔ مشہور فلسفی برٹرینڈرسل کہتا ہے کہ نپولین کے سامنے جولیس سیزر کی مثال تھی اور وہ اُس جیسا فاتح بننا چاہتا تھا۔ خود سیزر کے نزدیک سکندراعظم بہت بڑا فاتح تھا۔ سکندراعظم کا خیال تھا کہ اسے ہرکولیس کی طرح ہونا چاہیے، جبکہ ہرکولیس ایک خیالی کردار ہے، جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں تھا۔ دنیاوی اعتبار سے ہم جو مقام اور مرتبہ بھی حاصل کرلیں، ہمیں دیرپا مسرت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ کوئی نہ کوئی شخص ہمیں اپنے سے بہتر مقام پر نظر آجائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مذکورہ بالا دونوں قوانین معروضی حقائق بیان کرتے ہیں اور انسانی نفسیات کے دل چسپ و عجیب گوشے ہمارے سامنے بے نقاب کرتے ہیں، مگر عظیم تر سچائی یہ ہے کہ انسانوں کی مذکورہ کمزوریاں قرآن و حدیث کے ذریعے بہت پہلے دنیا کے سامنے لائی جا چکی ہیں۔ سورہ التکاثر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ انسان زندگی بھر کثرت کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ کثرت کی یہ خواہش کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے مثلاً زیادہ سے زیادہ دولت، طاقت اور شہرت کا حصول۔ انسان کو زندگی بھر اطمینان نصیب نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم کی اس عظیم سورہ کا ترجمہ ہماری رہنمائی اور ہدایت کے لیے بے حد اہم ہے: ”تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دُنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ اس فکر میں تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ پھر سن لو ہرگز نہیں۔ عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے اس روش کے انجام کو جانتے ہوتے تو تمہارا یہ طرزعمل نہیں ہوتا۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔ پھر سن لو کہ تم بالکل یقین کے ساتھ اسے دیکھو گے، پھر ضرور تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔“ (التکاثر 102)
لالچ اور ہوس کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ انسان جھوٹی مسرت کی تلاش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ اس صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے: ”اگر ابنِ آدم کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا۔ ابنِ آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا۔“ (سنن ترمذی)
انسان کے بدلتے ہوئے معیار اور خوب سے خوب تر کی تلاش کو اس حدیثِ مبارکہ نے واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ جہاں تک دوسروں کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا معاملہ ہے تو اس بارے میں بھی اللہ کے رسولؐ کی اہم ہدایت موجود ہے۔ اس ہدایت کا مفہوم یہ ہے کہ مادّی آسائشوں کے حوالے سے ہمیشہ خود سے نچلی سطح پر موجود لوگوں کو نظر میں رکھنا چاہیے، جبکہ تقویٰ کے معاملے میں اپنے سے بلند تر مقام پر موجود لوگوں کو دیکھنا چاہیے اور اُن جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سارے قوانین اپنی جگہ، مگر خود ماہرینِ نفسیات یہ محسوس کرتے ہیں کہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو بحیثیتِ مجموعی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اطمینان بخش اور پُرمسرت زندگی گزارتے ہیں۔ آخر یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ان لوگوں کا تعلق کسی خاص عمر، صنف، خاندان، برادری یا قبیلے سے نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کا کوئی مخصوص تعلیمی معیار یا درجہ ذہانت نہیں ہوتا۔ کچھ مخصوص اوصاف ہیں، جو ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں مسرت اور اطمینان عطا کرتے ہیں۔ یہ اوصاف درج ذیل ہیں:
٭ ان لوگوں میں زیادہ خود اعتمادی ہوتی ہے۔
٭ان لوگوں کے اپنے اہلِ خانہ اور دیگر افراد سے خوش گوار تعلقات ہوتے ہیں۔
٭یہ مضبوط مذہبی اعتقاد کے حامل ہوتے ہیں۔
٭یہ لوگ مجموعی طور پر خوش مزاج ہوتے ہیں۔
٭ یہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
٭ ان کے اندر مایوسی کم پائی جاتی ہے، یہ عمومی طور پر پُرامید اور خوش گمان ہوتے ہیں۔
٭ ان کی نیند عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے۔
٭ یہ لوگ سست الوجود نہیں ہوتے، متحرک ہوتے ہیں اور ورزش کے بھی عادی ہوتے ہیں۔
٭ کسی نہ کسی روزگار یا مثبت سرگرمی سے وابستہ ہوتے ہیں۔
یہ ساری خصوصیات وہ ہیں جو بین الاقوامی طور پر معروف ماہرینِ نفسیات نے بیان کی ہیں، اور ان کا تعلق کسی خاص نظریے یا مذہب سے نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں بھی ان ساری خصوصیات کا تذکرہ موجود ہے۔ ہمیں ان خوبیوں کو اپنانا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا پختہ ایمان ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ ہماری زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس دین کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کام کو فریضہ اقامتِ دین کہا جاتا ہے۔ اگر ہم پختہ یقین اور ایمان کے ساتھ اقامتِ دین کا فریضہ سرانجام دیں گے تو اطمینان اور مسرت ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گے، وہ اطمینان جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہ مسرت جو پائیدار ہوتی ہے۔