(وضاحتی نوٹ: انگریزی میں imagination کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، جوکئی معانی کی حامل ہے۔ اس لیے تصور، تخلیقی تخیل، قوتِ تخیل، آزاد ارادہ، شعور، اوردیگرموزوں اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، تاکہ قاری کے لیے سیاق و سباق میں سمجھنا ممکن ہو، مترجم)
عبرانی روایت۔ نفس کشی کا رستہ
YESTER کی تلمودی شرح خدائی قانون میں آدمی کے تخیلِ خلاق کی قوت کو ایک خطرے کے طور پر بیان کرتی ہے۔ یہاں آدمی کا تخلیقی تصور ایک گناہ جیسا ہے۔ یہ رویہ مسلسل تنبیہات پر منتج ہوتا ہے: ’وہ جو اپنے نفس کو مارتا ہے اور گناہ کا اعتراف کرتا ہے وہ ایسا ہے کہ جس نے خدا کے حکم کی تعمیل اور تعظیم کی ہو۔۔۔ اُس پر دونوں جہانوں میں خدا کی رحمتیں نازل ہوں۔‘(Sanhedrin, 43b)
تفصیل پرنظر کریں، Solomon Schechter عنوان The Evil Yezer: The Source of Rebellion کے تحت تلمودی شرح کی وضاحت یوں کرتا ہے:’گناہ کی عمومی تعریف حکم خدا سے انحراف کرنا ہے، جب ہم اس انحراف کے محرک کی تحقیق کرتے ہیں، یہ ربیوں کے ادب میں yester haraکی اصطلاح میں سامنے آتا ہے۔ اس کا ترجمہ عموما ’’بُرا خیال‘‘ کیا جاتا ہے۔ اس برے خیال کو آدمی کی جسمانی جبلت اورجنسی خواہش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جسمانی لذت کوyester کی علامت کے طور پردیکھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں گناہ yester hara سے جڑا ہے۔(Gen. Rab. 27,Jalkut Shim. Gen 44)
چیزوں کے اس تناظرمیں، yester میں کوئی اچھائی نہیں پائی جاتی۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ ربیوں کی تدریس میں نفس کشی کی تعلیمات عام ہیں۔ موت کو یاد کرنا، نفس کشی، اور اسی طرح کی دیگر ریاضتیں بُرے خیال کا تزکیہ کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ تجرد کی زندگی اختیار کی جاتی ہے۔ اس کی کئی علامتی صورتیں عبرانی تعلیمات میں تواتر سے ملتی ہیں۔ ایک مقام پر Jochanan b. Nuri لکھتا ہے: یہ yester hara کا طریقہ واردات ہے کہ آج وہ کہتا ہے یہ کرو، کل وہ کہتا ہے وہ کرو، یہاں تک کہ وہ زنا پرآمادہ کرلیتا ہے، اور پھر آدمی یہ کرلیتا ہے۔
ربی جنائی کہتا ہے کہ جو YESTER کی پیروی کرتا ہےٍ زنا کے گناہ میں پڑ کر رہتا ہے۔ (Jer. Nedarim, 41b)
یوں تلمودی تعلیمات میں خواہش نفس ایک منفی رجحان کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس رجحان کی شاید یہی مذمت ہے جو فرائیڈ کے ذہن میں اُس وقت پیدا ہوئی جب اُس نے یہ لکھا: ’’موسوی مذہب کی تعلیمات کا ایک جز یہ بھی رہا اور خدا کی شبیہ بنانے میں مانع رہا جس سے مراد ایک ایسے نظر نہ آنے والے خدا کی پرستش پر مائل کرنا ہے جس کی کوئی مجرد خیال آرائی نہ کی جاسکے؛ یہ روحانیت کی حسیات پر کامل برتری کا اظہار تھا، زیادہ وضاحت سے کہا جائے تو آدمی کی جبلت سے بننے والے تصور کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا، اور اس سے ملنے والی تسکین کا رستہ روک دیا جائے۔ (Triebverzicht)
فرائیڈ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’مذہب نے تصویریں بنانے پرجوپابندی عائد کی، اُس نے صدیوں جبلت پرجبرکا رجحان پروان چڑھایا۔‘‘
تلمودی روایت نے تخلیقی شعور کا معمّا یہ کہہ کر مزید الجھا دیا کہ آدمی اپنی اصل میں اس ’بُرے وصف‘ کے ساتھ ہی پیدا کیا گیا تھا۔ یوں یہ روایت خالق کے اس تاسف سے بوجھل ہوئی کہ ’کاش میں نے آدمی کو خاک سے نہ اٹھایا ہوتا بلکہ جنت کے جوہر سے خلق کیا ہوتا، اور یوں وہ مجھ سے نافرمان نہ ہوتا‘(Gen. R. 27) یہاں ہم پھر تخلیقی تصور کے بارے میں خدا اور آدمی دونوں کے ذرائع سے حاصل ہونے والے متن کی دھندلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فرینک پوٹر اس مقام پر ہمارے سامنے ایک بصیرت افروز نکتہ بیان کرتا ہے، یہ گناہ کے بارے میں یہودی نظریے پر جامع مطالعے کا حاصل ہے: بلاشبہ خدا نے آدمی میں عملِ شر کی قابلیت پیدا کی ہے، اس لیے آدمی اس بات کا ذمہ دار ہے کہ تزکیہ کرے اور اس پر قابو پائے۔
غرض، yester کے تصورکا بنیادی وصف کتاب ِمقدس میں ذومعنی نظر آتا ہے، جو تخلیقی تصور کو نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ یہ خیر کا زاویہ ہمیں دوسری ربانی روایت کی شرح میں ملتا ہے۔ اسے ہم ’راہ عمل‘ کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
راہ عمل
تلمودی متن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جو خیر و شر کی جنگ میں آدمی کے ’شعور‘ کے کردار کی وضاحت ایک ایسی ’راہِ عمل‘ میں ڈھونڈتے ہیں، کہ جو ’بُرے خیال‘ اور ’نیک خیال‘ دونوں کے امکانات سے پُر ہے۔ تلمود کا یہ حصہ yester میں خیر کے امکان کی بنیاد اس منطق کو قرار دیتا ہے کہ خدا نے آدمی کو بطور ’تخلیقی قوت والی مخلوق‘ پیدا کیا ہے۔ اس مثبت مطالعے کے مطابق آدمی کا تخیل اولین ارفع وصف باور کیا گیا، کہ جو اُسے راہِ خدا میں یکسو کردیتا ہے، ایک ایسا وصف کہ جو تخلیق کے مقصد کی تکمیل کرتا ہو، یہ مقصد کائنات میں خدا کے منصوبے یعنی انصاف اور امن کی خدائی بادشاہت کا ابدی قیام ہے۔ یعنی نیک خیال کی قوت yester hatov کی تاریخی افادیت آدمی اور اُس کے خالق کے اس تعمیری تعلق میں نمایاں ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ تلمود اعلان کرتی ہے کہ خدا نے انسان کو دونوں قوتوں (خیر و شر کی قوتوں) yetsers کے ساتھ خلق کیا ہے۔(Berach, 61a)
یہ ربانی تعلیم توریت میں قوتِ تخیل کے نیک استعمال کی تاکید کرتی ہے۔
Torah (Deut. 31.21; I Chr. 28.9; 29:18)
یہ متن کہتا ہے کہ آدمی کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنی پوری روح کے ساتھ Yahweh(خدا) کی بندگی کرے۔ Deut-eronomy 65
اس متن کی شرح میں مارٹن بیوبر لکھتا ہے کہ شر آدمی میں کبھی پوری روح سے اثرانداز نہیں ہوسکتا، جبکہ خیر آدمی میں اپنی پوری روح کے ساتھ موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شر ہدایت سے ہٹا ہوا ہے اور داخلی و خارجی تخریب، ذلت، اور تباہی پر ہی منتج ہوتا ہے۔ جبکہ خیر ہدایت پر ہے اور اچھائی پر ہی اس کا انجام ہے۔ یہی راہِ عمل ہے اور تخلیق کی تکمیل کرتی ہے۔ یہی مقصد تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے۔
لہٰذا یہ واضح ہوا کہ yester اپنے جوہرمیں ’’شر‘‘ نہیں بلکہ آدمی کا بُرا عمل اسے شرکے طورپرظاہرکرتا ہے۔ Yester کی فطرت خیر وشردونوں کے امکانات رکھتی ہے۔ دیگر عبرانی متون بھی yester کے اس دہرے وصف کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ مادی اور روحانی دونوں خاصیتوں کا حامل ہے۔e.g. Gen. R. 226)) یہ سارے متون ظاہرکرتے ہیں کہ yester اپنی اصل میں نہ اچھائی ہے نہ برائی، یہ آدمی ہے جو اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہ ایک مکمل اخلاقی اختیارہے، جواس وصف پرروشنی ڈالتا ہے۔
آدمی کا خیر وشراور تاریخ
عبرانی متن کی تفہیم میں آدمی کے لیے خیر و شر کے اختیارکا اخلاقی خاکہ سامنے آتا ہے، یہ ہمیں اس کے تاریخی کردارکے سوال کی جانب لے جاتا ہے۔ مقدس متن کے پیچھے وہ کیا منطق ہے جوتاریخ کی پیدائش اورآدمی کے ’خلقی شعور‘ میں تعلق کی وضاحت کرتی ہے۔
تلمودی تشریح کہتی ہے: آدمی کی خاک جو اپنے نشان منزل سے خوب واقف ہے، یہ کہ جس بُرے خیال نے اُسے جنت سے تاریخ میں روبہ زوال کیا، اُسے نیک خیال کی مدد سے نیک انجام کی جانب لوٹایا جاسکتا ہے۔ یقیناً یہ ’رجوع‘ خدا اور آدمی میں معاہدے کی رو سے تاریخ کو راہِ راست پر گامزن کرسکتا ہے۔ گو کہ آدمی کی تقدیر شر کے خدشات سے آلودہ ہے، آدم کے گناہِ اول سے آلودہ ہے، اسے شعور آدمیت سے انجام خیر تک لے جایا جاسکتا ہے۔ خدا اور آدمی کے درمیان مکالمے کی یہ شروعات خدائی بادشاہت پر منتج ہوگی۔ ہم یہاں ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں: کہ کیا خدا نے آدمی میں تخلیقی صلاحیت اس لیے پیدا کی کہ وہ اپنے ’’تخلیقی عمل‘‘ کی تکمیل میں اُسے شریک کرے؟ کیا یہ خالقِ آدم کا سوچا سمجھا منصوبہ نہ تھا؟ کیا یہی وجہ تو نہیں کہ Yahweh نے تخلیق کے ساتویں روز آرام کیا؟ تاکہ آدمی کو اس بات کی مہلت اور وقت ملے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک اور استعمال کرسکے؟ اور تاریخ میں تخیل خلاق کی مدد سے پیش رفت کرسکے؟ مزید برآں،یہودی تعلیمات کی رو سے، ’آدمی ایک ایسے کھلے نظام کے طور پر خلق کیا گیا، کہ جس کا مقصد نشوونما پانا، اور کبھی فنا نہ ہونا ہو، جیسا کہ باقی ہر مخلوق کے لیے فنا مقدر ہے‘؟
اس قسم کا نکتہ نظر یقیناً یہودی تصورِ خیر و شر اور آدمی کے تخلیقی وصف کی وضاحت کرسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ رجوع (teshuvah) کی تفہیم بطوراخلاقی عمل ہوسکے، آدمی کا ایک ایسا آزادانہ عمل کہ جس کے ذریعے وہ راہِ راست پرچلتے ہوئے خدا تک پہنچ جائے۔ ایرک فرام اس نکتہ نظر کوتلمودی روایت کے تناظرمیں پیش کرتا ہے: مقدس کتابوں کی تعلیمات اور دینی فکر’خدا کے بارے میں علم‘ پرمبنی نہیں بلکہ ’خدا کی پیروی‘ میں ہیں۔ یہ پیروی صرف راہِ راست پر چلنا ہے، جسے Halakhah پکارا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح “to walk” سے مشتق ہے۔ اس کا مطلب وہ رستہ ہے جس پر کوئی چلتا ہے، یہ رستہ خدا سے قریب کرتا ہے، زیادہ سے زیادہ خدا کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
اس دلیل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی کی خیر و شر کے علم سے موزونیت اُس کے اپنے انتخاب اور اختیار کی بات ہے، کہ اگر چاہے تو رب کی طرف رجوع کرے، اور اس طرح اپنے بُرے آغاز کو اچھے انجام تک لے جائے۔ اب خواہ وہ اپنی قوتِ تخلیق کو خدائی تخلیق کی پیروی میں بروئے کار لائے یا تخیلاتی فریب کاریوں کے صحرا میں بھٹکتا پھرے، آدمی کا اخلاقی اختیار آزادانہ ہے۔
یہودی تعلیمات میں خیر کا ’اخلاقی تصور‘ تاریخ کے ’تصورِ آدمیت‘ سے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ یہ عبرانی تصورِ’خیر‘ آدمی سے آدمی اور پھر تمام آدمیوں سے معاملے پر زور دیتا ہے، تاکہ خدا کی سلطنت کے قیام تک آدمیت کی تکمیل مقرر وقت پر ہوجائے، یعنی تاریخ کے اختتام پر۔
یہاں سے یہودی عیسائی تعلیمی روایت کا تاثر یہ بنتا ہے کہ آدمی ’وجود‘ سے ’آدمی بن جانے‘ کے تاریخی سفر پر ہے، یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پھر آمد ہوجائے، اور آدمی خدا سے مکمل مصالحت میں آجائے، اور یہی تاریخ کا اختتام ہوگا۔
تاریخ کے اس تصور کے مطابق، Hannah Arendt نے کہا کہ یہی وہ مقدس مذہبی روایت تھی جس نے مغرب میں ’آزاد ارادہ‘ متعارف کروایا۔ اس طرح تاریخ کا عبرانی عقیدہ تین اصطلاحوں میں واضح ہوتا ہے: تخلیقِ آدم اور خدائی خلاقیت، رجوع، اور آدمیت کی تکمیل۔ یہ عبرانی بشریات کا کُل نظریہ ہے کہ آدمی میں خیر و شرکا شعورہے، اوراس کا انتخاب ہی اُس کی تاریخی تعمیریا تخریب کرتا ہے۔
ہمارا مذکورہ جائزہ عبرانی میں آدمی کے تخلیقی وصف اور شعورکوچار بنیادی اصطلاحات میں سامنے لاتا ہے:
1۔ نقالی (آدمی کا خدائی تخلیق کی نقل کرنا)
2۔ اخلاقی (خیرو شر کا شعور اور اختیار)
3۔ تاریخی (آدمی کے وجود میں ممکنات کا مستقبل)
4۔ انسان شناسی (ایک ایسا آدمی جسے ارفع آسمانی وجود اورجانورکے پست درجے سے ممیزکیا جاسکے، اور جس میں اپنی تکمیل کی اہلیت پائی جاتی ہو)