اعصاب شکن سیاسی ہیجان توشہ خانہ یا پنڈورا بکس

ملک میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری اعصاب شکن سیاسی ہیجان میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے جس کی ہر نکلتے دن کے ساتھ شکلیں بدل رہی ہیں۔ ایک طرف اسکینڈل پر اسکینڈل سامنے آرہا ہے اور دوسری جانب ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔ الزام زدہ لوگ اپنی صفائی میں ایسی ایسی توجیہات لا رہے ہیں کہ عقل حیران ہے اور اخلاقیات کہیں دور کھڑی نوحہ کناں ہے۔ ایک طرف سیاست دان خاص طور پر حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) اپنی حریف تحریک انصاف اور اُس کے قائد پر کرپشن، غداری، اقربا پروری اور سازش کے الزامات لگا رہی ہیں اور اِس کے لیے جو زبان استعمال کی جارہی ہے وہ کم سے کم الفاظ میں بازاری زبان سے بھی گری ہوئی زبان ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف، اس کے قائد عمران خان اور اُن کے سیاسی بھونپو حکمران اتحاد اور اس کی قیادت کے لیے چور، ڈاکو، خائن کے القابات کے علاوہ گھٹیا ترین زبان کا استعمال کررہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان دانستہ یا نادانستہ ملکی سیاست سے اخلاقیات کا عنصر ہی ختم کررہے ہیں۔ دوسری جانب پہلی بار فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسر ایسی ایسی تنقید کی زد میں ہیں کہ جس کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید تو میڈیا میں بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان پہلے سے مختلف سیاست دانوں کی تنقید کی زد میں تھے مگر اب تو حاضر سروس جج بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس صورتِ حال میں لگتا ہے کہ ملک کا کوئی ادارہ محفوظ نہیں رہا۔ سب کے پرت کھل رہے ہیں اور بدقسمتی سے سب کے معاملات قابلِ فخر نہیں بلکہ قابلِ گرفت ہیں۔ اس ماحول میں وفاقی حکومت نے توشہ خانہ سے تحائف لینے والے حکمرانوںکی فہرست جاری کرکے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ اگرچہ یہ 2002ء سے 2023ء تک توشہ خانہ کی بہتی گنگا سے فیض یاب ہونے والوں کی فہرست ہے، مگر خود یہ فہرست بھی تنقید کی زد میں ہے۔

عرصے سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ یہ فہرست جاری کی جائے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے دبائو کے باوجود یہ کام نہیں کیا، اور موجودہ حکومت بھی اسے مسلسل ٹالتی رہی، یہاں تک کہ عدالتوں کو اس بارے میں مداخلت کرنا پڑی۔ اب بھی جو فہرست جاری کی گئی ہے وہ آخر 2002ء سے کیوں شروع کی گئی ہے؟ یہ فہرست 1947ء سے، یا کم از کم 1970ء سے تو جاری ہونی چاہیے۔ اس فہرست میں نوازشریف اور بے نظیر کے دو دو دور شامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ فہرست بھی اس عرصے کی مکمل فہرست نہیں، اس میں سے کچھ چیزیں حذف کرلی گئی ہیں۔ فہرست میں سرکاری افسران کو ملنے والے تحائف کا تذکرہ نہیں۔ عسکری حکام کے تحائف بھی شامل نہیں۔ خود توشہ خانہ کے حکام، اہل کار اور اُن کے منظورِ نظر بیوروکریٹس بھی توشہ خانہ سے سامان خریدتے رہے ہیں، اسے بھی گول کیا گیا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وزرائے اعظم، وزرا اور صدور کی بیگمات اور بچے یہ مراعات کیسے حاصل کرتے رہے ہیں؟ کیا انہیں اس کا استحقاق حاصل ہے؟ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور پارلیمانی وفود کے تحائف کا بھی تذکرہ نہیں۔

بہرحال فہرست ناقص سہی مگر آ تو گئی ہے، جو اصل میں اخلاقیات کا درس دینے والے سیاست دانوں کا حمام ہے۔ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے یہ تحائف لینے سے انکار کیا ہو۔ سیکڑوں تحائف تو مفت ہی میں اٹھا لیے گئے۔ ان تحائف کی مارکیٹ ویلیو کا تعین حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے توشہ خانہ کا عملہ کرتا ہے۔ یہ قیمت مارکیٹ ویلیو سے بے انتہا کم ہوتی ہے۔ جرابیں، صابن، گلدان، تھوک دان تک نہ چھوڑے گئے۔ پابندی کے باوجود گاڑیاں لے گئے۔ کیا یہ گاڑیاں اب بھی نوازشریف، زرداری اور دوسرے لوگوں کے پاس ہیں، یا انہوں نے بھی عمران خان کی طرح بیچ دی ہیں؟ یقیناً اب تک بیچ دی ہوںگی۔ کئی ایسے تحائف بھی ہیں جو گئے تو وزرا یا صدور کو ہیں مگر ان کی ادائیگی کسی اور شخص نے کی اور اکائونٹ سے کی ہے۔ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ مستفید ہونے والی شخصیات نے ان تحائف کو اپنے اثاثوںمیں ظاہر کیا ہے یا نہیں؟ حد یہ ہے کہ عارف علوی اور شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ جن کا عام تاثر بھلے آدمی کا ہے، انہوں نے بھی توشہ خانہ پر خوب خوب ہاتھ مارا ہے۔ یہ ہے ہمارے سیاسی لیڈروں کا کردار اور معیار۔ قانونی رعایت کے ساتھ انہیں اخلاقی طور پر کوئی شرم کرنی چاہیے تھی۔ یہ کوئی بھوکے ننگے لوگ نہیں ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ یہ قوم سے معافی مانگیں اور ان تحائف کی مارکیٹ قیمت (احسن اقبال کی طرح) خزانے میں جمع کرائیں۔ لیکن جہاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی دوست ملک کی خاتونِ اوّل کا عطیے میں دیا گیا ہار لے جائیں، جہاں پارلیمنٹ اس گھٹیا پریکٹس کو نہ روکے، وہاں مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اب حکومت نے توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد کا تحفہ، گاڑیاں، گھڑیاں اور زیورات لینے پر پابندی لگا دی ہے، لیکن لگتا ہے یہ کاغذی کارروائی ہوگی۔ صوابدیدی اختیارات کے تحت سب کچھ چلتا رہے گا۔