سابق کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ

ان تمام واقعات کی خبریں بھارتی میڈیا نے نشر کیںاور اشاروں کنایوں میں ”را“ نے ان کی ذمہ داری قبول کی یہی وہ نکتہ ہے جو کئی خدشات کو جنم دے رہا ہے

گزشتہ چند روز میں پاکستان کے دو مختلف کونوں میںہدفی قتل کی تین اہم وارداتوں کے درمیان تعلق کی ایک ڈور سی بن کر رہ گئی ہے۔ ان میں ایک ٹارگٹ کلنگ اسلام آباد میں ہوئی اور دو وارداتیں کراچی میں ہوئیں۔ طویل فاصلے پر ہونے والی ان وارداتوں میں جو مشترکہ تعلق قائم ہوتا نظر آیا وہ ان تینوں افراد کا ماضی اور ان کا پس منظر تھا۔ یہ تینوں افراد 1990ء کی دہائی میں کشمیر میں چلنے والی عسکری تحریک کا حصہ رہ چکے تھے مگر اب معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔ یوں لگتا ہے تینوں کسی پرانے بدلے کی آگ کا شکار ہوئے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اس سلسلے کی آخری واردات کراچی میں دار ارقم اسکول سسٹم سے وابستہ سید خالد رضا کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔ انہیں کراچی میں اپنے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔ خالد رضا کشمیر میں سرگرم مسلح تنظیم البدر کے اہم سابق کمانڈر تھے اور اب وہ عسکری سرگرمیوں سے الگ ہوکر ایک ماہر تعلیم کے طور پر معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔ خالد رضا کے قتل کی ذمہ داری سندھ کی علیحدگی کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی طرف سے قبول کی گئی مگر اسے کیموفلاج ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کراچی میں ہی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک اور شخص کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جیش محمد نامی تنظیم سے وابستہ رہ چکے تھے مگر اب وہ بھی معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔ اسی دوران اسلام آباد کے برما چوک میں ایک معروف سابق کشمیری کمانڈر پیر بشیر المعروف امتیاز عالم کو ہدف بناکر قتل کردیا گیا۔ امتیاز عالم نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر جارہے تھے کہ راستے میں دوموٹر سائیکل سواروں نے روک کر اُن سے نام پوچھا اور تصدیق ہوتے ہی گولیاں مار کر فرار ہوگئے۔ امتیاز عالم کے قتل کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور ہر حلقے کی طرف سے اس خبر پر تاسف اور مذمت کا اظہار کیا گیا تھا۔

کشمیر میں سرگرم رہنے والے ان سابق کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ نے جہاں کشمیری حریت پسندوں اور ان کی قیادت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے وہیں اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان تمام واقعات کی خبریں بہت اہتمام کے ساتھ بھارتی میڈیا نے نشر کیں اور اشاروں کنایوں میں ’’را‘‘ نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔ ان واقعات کی تحقیقات کسی نہ کسی سطح پر جاری ہوں گی، تاحال قاتلوں کا سراغ ملا ہے نہ کوئی واضح بات سامنے آسکی ہے۔ یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آئی کہ یہ افراد کسی ذاتی دشمنی کا شکار ہوئے، اس لیے مجموعی طور پر تاثر یہی بن رہا ہے کہ انہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہدف بنایا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو کئی خدشات بھرے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

امتیاز عالم کشمیر کی مسلح تحریک کا آغاز ہوتے ہی اس سے وابستہ ہونے والوں میں شامل تھے اور ان کا شمار حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ اس عرصے میں وہ بھارتی فوج کے ساتھ ایک خونیں تصادم میں شدید زخمی ہوکر گرفتار بھی ہوئے تھے اور دوسال قید میں رہنے کے بعد رہائی حاصل ہوئی تھی۔ رہائی ملتے ہی وہ دوبارہ زیرزمین چلے گئے تھے اور اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس عرصے میں وہ معمول کی زندگی میں گم ہونے کے بجائے مزاحمتی تحریک اور سرگرمیوں سے وابستہ رہے۔ بھارتی فوج نے امتیاز عالم کی سرگرمیوں کے ردعمل میں ان کے والد اور بھائی کو مختلف اوقات میں شہید کیا۔ اب اسلام آباد میں ان کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ اول تو یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک معروف حریت پسند کے قاتل اسلام آباد تک کیسے پہنچے؟ اگر باہر سے آئے تو خطرناک بات، اور اگر مقامی لوگوں سے یہ کام لیا گیا تو یہ تباہ کن معاملہ ہے کہ ملک کے اندر لوگ چند روپوں کے لیے بیرونی اہداف کو پورا کرنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ کمانڈر امتیاز عالم کو جس انداز سے نشانہ بنایا گیا یہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا اسٹائل ہے جس کے مطابق وہ فلسطینی حریت پسند کمانڈروں اور سیاسی راہنمائوں کا تعاقب کرکے انہیں لبنان، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات میں نشانہ بناتی رہی ہے۔ شام میں قیام کے دوران حماس کے جلاوطن راہنما خالد مشعل بھی کئی بار موساد کا نشانہ بنتے بنتے رہ گئے ہیں۔ الفتح اور پی ایل او کے لیڈر بھی بیرونی ملکوں میں نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں۔ اسے پیشگی حملے کا نام دیا جاتا ہے کہ آپ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ فلاں شخص آپ پر حملہ کرنے والا تھا یا اس کی منصوبہ بندی کررہا تھا، اس سے پہلے کہ وہ آپ پر وار کرتا آپ نے پہل کرکے اسے جالیا۔ یہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کرنے کا ایک بہانہ ہے اور پرانا طریقہ واردات ہے۔

کمانڈر امتیاز عالم کی نمازِجنازہ سید صلاح الدین نے پڑھائی اور اس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جو مزاحمت کے نعرے لگا رہے تھے۔ تعزیتی بیانات میں اس کو دشمن کی کارروائی کہا گیا جس سے روئے سخن بھارتی ایجنسیوں کی طرف جاتا ہے۔ اگر یہ کارروائی بھارتی ایجنسیوں نے کی ہے تو بہت لمحہ فکریہ ہے۔ نریندر مودی اگلے انتخاب کی تیاریوں میں ہے۔ اسے کانگریس کے سنجیدہ چیلنج کا سامنا ہے۔ نریندرمودی کو اس انتخاب کے لیے نئے نعروں اور نئے امیج کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کشمیر ایک آسان میدان ہے۔ نریندر مودی کشمیریوں میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کو اس انداز سے ہدف بناکر انتخابی ضرورت کی تکمیل کرسکتا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے نریندر مودی گھر میں گھس کر مارنے کا دعویٰ کرکے ووٹر کو اپنی جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈراما رچاکر مودی نے خود کو ٹارزن بناکر پیش کیا تھا، اب کشمیری حریت پسندوں کو نشانہ بناکر مودی اگلے الیکشن میں یہی مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ ان افراد کے قتل کی وارداتوں پر بھارتی میڈیا کا جشن اس خیال کو تقویت فراہم کررہا ہے کہ اس کارروائی کے ڈانڈے کہاں جاکر ملتے ہیں۔