یہ اطلاع نہایت اطمینان بخش اور خوش آئندہ ہے، اس پر جس قدر مسرت و طمانیت کا اظہار کیا جائے کم ہے، سابق وزیر اعظم عمران خاں نے بھی 2018ء میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اس نیک کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اور جلد اس جانب ٹھوس پیش رفت کی امید دلائی تھی تو امت کے ہر خیر خواہ نے اس پر یک گونہ اطمینان کا اظہار کیا تھا کیوں کہ رب کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں حکم فرمایا ہے کہ: … ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو۔ امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ ‘‘ (الحجرات: آیات10-9)۔ مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے… جناب عمران خاں کے ساڑھے تین، پونے چار برس کے دور اقتدار میں خواہش اور کوشش کے باوجود اس امر کا سراغ نہیں لگایا جا سکا کہ انہوں نے اس جانب کوئی عملی پیش رفت کی یا نہیں اور اگر ایسی کوئی کاوش ان کی جانب سے فی الواقع کی گئی تو کوئی کامیابی بھی ان کا مقدر بن سکی یا ان کی تمام تر سعی لاحاصل ہی رہی، تاہم مثبت سمت میں کاوش و پیش رفت کا دعویٰ ان کی جانب سے کیا گیا نہ ہی حقائق کی دنیا میں کوئی شیریں ثمرات کسی سطح پر محسوس کئے گئے… اب البتہ اس ضمن میں حوصلہ افزا اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی طاقت عوامی جمہوریہ چین کی کامیاب حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے جس کی کوششوں کے نتیجے میں امت مسلمہ کے دو اہم اور برادر اسلامی ممالک اپنے اختلافات باہم گفت و شنید سے طے کرنے پر راضی ہو گئے ہیں، اس قابل قدر پیش رفت پر امت کا درد دل میں رکھنے والا ہر فرد جذبۂ تشکر سے اپنے خالق و مالک کے حضور سربسجود ہے…!!!
ذرائع ابلا غ کی اطلاع کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ کی کاوشوں سے ایران اور سعودی عرب نے باہم سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، دونوں ملکوں کے مابین حکام کی سطح پر چھ سے دس مارچ 2023ء تک، چین کی وساطت سے مذاکرات ہوئے، جن کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک دو ماہ کے اندر اندر ایک دوسرے کے ملک میں اپنے سفارت خانوں کو از سر نو فعال کریں گے۔ معاہدے میں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور خود مختاری کے احترام کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے، مشترکہ اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ معاہدہ کا مقصد دونوں ممالک کے مابنی اچھے ہمسائیگی تعلقات کو پروان چڑھانا اور دو طرفہ مسائل و اختلافات کو گفت و شنید اور سفارتی ذرائع سے طے کرنا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کی میزبانی کرے گا اور معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کی حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایرانی اور سعودی وزرائے خارجہ کا اجلاس جلد منعقد ہو گا۔ حالیہ مذاکرات کے اعلامیہ میں اس امر کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ماضی میں ہونے والے 2001ء کے معاہدہ سلامتی اور 1998ء کے معیشت، کھیلوں اور سائنس سمیت دیگر مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدہ کو بھی فعال بنایا جائے گا، اس طرح یہ توقع بے جا نہیں کہ چین کی قیادت، جس کا شکریہ دونوں ممالک نے مشترکہ اعلامیہ میں ادا کیا ہے، کے تعاون سے ایران اور سعودی عرب باہمی اختلافات اور دوریوں کی خلیج تیز رفتاری سے پاٹنے میں کامیاب رہیں گے…!!!
سعودی عرب اور ایران، دونوں امت مسلمہ کے اہم اور اپنا اپنا دائرہ اثر رکھنے والے ممالک ہیں مگر بدقسمتی سے دونوں ممالک کے مابین طویل عرصہ سے تعلقات کشیدگی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور اب 2016ء سے دونوں کے مابین سفارتی روابط بھی منقطع ہیں، دونوں ممالک کی کشیدگی کے اثرات پوری امت پر مرتب ہوئے ہیں اور وہ واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے، جو ممالک اس گروہی تقسیم سے قدرے محفوظ ہیں، وہ بھی بدقسمتی سے اس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریقین کے مابین صلح کرانے کی ذمہ داری ادا کر سکیں جب کہ مغربی دنیا کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس تقسیم اور اختلافات کی خلیج کو جس قدر ہو سکے وسیع تر کرنے کے لیے کوشاں رہے چنانچہ امریکہ، اسرائیل اور یورپی دنیا کا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں کردار کسی سے پوشیدہ نہیں انہوں نے اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق مسلمان ملکوں کے مابین اختلافات کو ہوا دینے اور کشیدگی کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ جلتی پر تیل چھڑکا ہے تاکہ مسلمان ممالک کے مابین اتحاد و یکجہتی کی فضا پروان نہ چڑھ سکے اور وہ باہم دست و گریباں ہی رہیں طویل عرصہ قبل ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کی صورت میں امید کی ایک کرن نمودار ہوئی تھی مگر اپنوں اور پرایوں کی سازشوں نے اسے بھی عضو معطل بنا کر رکھ دیا اب مدت ہوا یہ تنظیم ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کی کیفیت سے دو چار ہے، ان حالات میں چین کی قیادت کی کوششوں سے حالیہ پیش رفت یقینا قابل قدر و قابل ستائش ہے، دعا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش میں برکت عطا فرمائے، اسے دشمنوں اور حاسدوں کی نظر بد سے بچائے، دونوں برادر ممالک کو تنازعات خوش گوار ماحول میں طے کرنے اور تیز رفتاری سے تعلقات میں بہتری لانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے مثبت اثرات اور عمدہ ثمرات دونوں ملکوں کے عوام کی تعمیر و ترقی، فلاح و خوش حالی اور پوری امت کے مابین اتحاد و یکجہتی خیر سگالی اور تعاون کی صورت میں سامنے آئیں۔ امت مسلمہ اس ضمن میں چین کے مثبت، روشن اورجان دار کردار کے لیے خاص طور پر شکر گزار ہے۔(حامد ریاض ڈوگر)