رمضان کا چاند

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” جب ماہ رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطان زنجیروں میں کس دےئے جاتے ہیں“۔
(بخاری، جلد اول کتاب الصوم ، حدیث نمبر 1781 )

آسمانی برکتوں کا ایک دور ختم ہوگیا اور اب دوسرے دور کا آغاز ہے۔ شعبان اور رمضان دونوں برکتوں والے مہینے ہیں۔ رمضان کا چاند اللہ کی برکتوں، عنایتوں اور قربِ الٰہی کی نعمتوں کا پیام لے کر نمودار ہورہا ہے۔ ہلالِ صوم 30 دن کے اس تربیتی نظام کا اعلان کرتا ہے جو برس کے برس اللہ کے دین کے علَم برداروں میں ضبطِ نفس کا ملکہ پیدا کردیتا ہے، ان کی خودی کو صیقل کردیتا ہے، ان میں سخت کوشی، تحمل اور برداشت کو بیدار کردیتا ہے، انسان کے باطن کو اس طرح پاک اور صاف کردیتا ہے جیسے بھٹی کی آگ لوہے کے میل کچیل کو صاف کرکے اسے فولاد بنادیتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ رمضان کا چاند اللہ کے ساتھ اس قربت اور وابستگی کا پیام لے کر آتا ہے جو ساری عبادتوں کا اصل منشا اور بنیادی مقصد ہے۔ ہلالِ صوم پیامِ دوست بن کر نمودار ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر اللہ کے حضور مناجات کیجیے اور آنے والے مقدس مہینے کے تربیتی نظام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیجیے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جب تک رویتِ ہلال کی تحقیق نہ ہوجاتی یا کوئی عینی گواہ نہ مل جاتا، آپؐ روزہ شروع نہ کرتے۔ آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ کی شہادت قبول کرکے روزہ رکھ لیا تھا، اور ایک مرتبہ ایک اعرابی کے قول پر روزہ شروع کردیا تھا۔ اگر رویت یا شہادت دونوں نہ ہوتیں تو آپؐ شعبان کے تیس دن پورے کرتے۔ اگر تیسویں کی رات کو بادل چھائے ہوئے رہتے تو آپؐ 30 دن ختم کرنے کے بعد روزہ شروع کرتے۔

ایک مرتبہ رویتِ ہلال میں شک پیدا ہوگیا۔ بعض نے کہا چاند ہوگیا۔ بعض نے کہا نہیں ہوا۔ اسی اثناء میں ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتانے لگا کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ حضورؐ نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تُو لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دیتا ہے؟ اُس نے گواہی دی تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا، انہوں نے لوگوں میں منادی کردی کہ روزے رکھو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک مسلمان کی شہادت پر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے اور دو مسلمانوں کی گواہی پر روزہ افطار کرلینے کا حکم فرماتے۔ (زادالمعاد)

ماہِ رمضان کی فضیلتوں اور برکتوں کا تو کوئی حد و حساب نہیں، مگر ان سب میں رمضان کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ اس مقدس مہینے میں اللہ کا مقدس کلام نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ اس لیے ہمیشہ ماہِ صیام میں قرآن پڑھنے، اس کو سمجھنے اور حفظ کرنے کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ تراویح کی نماز بھی اسی اہتمامِ قرآن کی ایک صورت ہے۔ قرآن کی تلاوت کے بغیر روزہ تو بالکل بے نمک ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، روزہ اللہ اور بندے میں قرب و تعلق اور وابستگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ قرآن اللہ کا اپنا کلام ہے۔ روزے کی حالت میں جب ایک روزہ دار نماز کے علاوہ اللہ کے کلام کی تلاوت کرتا ہے تو یہ تلاوت اللہ کے ساتھ تعلق اور وابستگی کو پیدا کرنے میں موصل بن جاتی ہے۔ اسی لیے اس ماہِ مبارک میں قرآن پڑھنے کا اہتمام خاص طور سے کرنا چاہیے۔ تلاوتِ قرآن سے بھوک کی تلخی کم ہوتی اور روزے کی شیرینی بڑھ جاتی ہے۔

اسلام کی جتنی عبادات ہیں: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ… سب کے ادا کرنے کے طریقے اور خاص خاص مقصد جدا ہیں۔ مگر ان سب عبادتوں کا ایک خاص مشترک مقصد بھی ہے اور وہ مقصدِ اصلی ہے ’’آدمی کو انسان بنانے کا‘‘۔ دراصل ہمارا یہ جسم ایک کیمیائی غلاف ہے جس کے اندر ہمارا ’’انسان‘‘ چھپا ہوا ہے۔ جب تک یہ ’’اوپر والا آدمی‘‘ ہماری زندگی میں مطلق العنان بنا رہتا ہے اور ہم اپنی ساری قوتیں صرف اسی کی خاطر داریوں میں صرف کرتے رہتے ہیں، ہمارا ’’اندر کا انسان‘‘ کمزور، خوابیدہ اور نیم مُردہ رہتا ہے۔ اس طرح ہماری خودی اور ہماری اَنا کمزور ہوجاتی ہے۔ اور جب کسی قوم کے تمام تر افراد کا ’’اندرونی انسان‘‘ کمزور ہو تو وہ قوم ایک جاندار قوم نہیں رہتی۔ اقوام کی اس رزم گاہ میں اس کا کوئی وزن اور کوئی قدروقیمت باقی نہیں رہتی۔ وہ ایک بزدل، خوشامدی طفیلی قوم بن کر رہ جاتی ہے، اور اس کی کارفرما قوتیں کمزور اور مضمحل ہوجاتی ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں دوسروں کا سہارا لیے بغیر ایک قدم بھی چلنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔

اسلام کی عبادتیں، خاص طور سے روزہ، افراد میں عادتوں پر قابو پانے کا ملکہ پیدا کردیتا ہے۔ عادت پر قابو پانا ایک قلعہ فتح کرنے اور ایک میدانِ جنگ کو سر کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔

آج دُنیا کی تمام تر خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔ انسان نے دنیا بھر کی قوتوں کو اپنے ساتھ جھکا لیا مگر خود خواہش کے سامنے جھک گیا۔ آج انسانوں کی گردنوں پر ان کی خواہشیں سوار ہیں۔ ہم سب اپنی عادتوں اور خواہشوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہمارا ’’اوپر کا آدمی‘‘ شاداں و فرحاں ہے۔ اور ہمارے ’’اندر کا آدمی‘‘ ایک بدنصیب قیدی ہے جو مجبور اور بے بس ہمارے جسم کے اندر دبکا پڑا ہے۔ اسے ابھرنے، نمودار ہونے اور اپنے آپ کو منوانے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔ ہماری خواہشیں اور ہماری عادتیں چاروں طرف سے اس کو اپنے نرغے میں گھیر چکی ہیں اور وہ اندر ہی اندر سسکتا جارہا ہے۔

روزہ خواہشوں کے حصار میں سرنگ لگا کر اندر کے انسان تک پہنچتا ہے اسے جگاتا ہے، اس کا حوصلہ بلند کرتا ہے اور اسے اُبھرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ ذہنِ انسانی کے میدان میں خواہشوں کی فوج کے مقابلے میں صلاحیتوں اور قوتوں کو صف آرا کردیتا ہے، اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ اس ’’اوپر کے آدمی‘‘ کے لائو لشکر کو شکست دے کر اندر کے انسان کے تازہ دم لشکر کو جسے ہم ’’اخلاقِ حسنہ‘‘ کہتے ہیں، غالب کردیتا ہے۔ جب ایک ایک فرد کے اخلاقِ حسنہ نکھر کر، سنور کر منظم و مرتب ہوجاتے ہیں تو ہمارا قومی لشکر ان مخالف قوتوں کے مقابلے میں کمربستہ ہوجاتا ہے۔ ہماری اجتماعی خودی جاگ اُٹھتی ہے اور ہم دنیا میں خوابیدہ آدمیوں کا ہجوم نہیں، بلکہ بیدار انسانوں کی تازہ دم فوج بن جاتے ہیں۔ پھر کون ہے جو اس فوج کے مقابلے میں آنے کی ہمت کرے! پس یہ ہلالِ صوم ہماری انفرادی اور اجتماعی قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے نمودار ہوتا ہے۔ اس کی پذیرائی اس کے شایانِ شان ہونی چاہیے۔