’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ کر رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش، معاشرت پر نفس پرستی، معیشت پر سرمایہ داری اور قانون پر بے اعتدالی کا دور دورہ نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا، اُن تمام غلط خیالات کو اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اُس وقت دنیا میں رائج تھے، اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دریا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کے چھوڑا۔ پس یہ نہیں ہے کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے، اس سے وہ پھیری ہی نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا ہی اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلوگے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے، نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ… اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا، ہرطاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، ہر قومی اثر سے متاثر ہونا پڑے گا، وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔‘‘