یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری

یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔
ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔
یہ ان بہادروں اور شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں، جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں، اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مسلمان جس کا نام ہے وہ تو دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اُس راستے پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہِ راست ہے، صراطِ مستقیم ہے۔
اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے پر پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو۔
حقیقت میں جو سچّا مسلمان ہے، وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا، اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا، کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاََ پروا نہ ہوگی، وہ ہر اُس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو، حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں، تب بھی اس کی روح ہرگر شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رَو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
( ’’اشارات‘‘، سید مودودی، ماہنامہ’’ترجمان القرآن‘‘، اپریل 1936ء)