اسلام کو یہ امتیاز و انفرادیت حاصل ہے کہ رسولِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتب میں واحد محفوظ کتاب ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اقوال و افعال اور دیگر روزانہ و شبانہ مصروفیات کو جزئیات کے ساتھ محفوظ کرلیا گیا۔ یوں سیرت کی ایسی تاریخ مرتب ہوگئی جو دیگر ادیانِ عالم کے پاس موجود نہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بعض اپنوں کی خیر خواہی اور بعض غیروں کی بدخواہی نے اس سرمائے کو خالص نہیں رہنے دیا، اور اس میں کچھ ایسے سکے شامل کردیے ہیں جو جانچ پرکھ اور تحقیق و تفتیش کے بعد کھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت شدہ احادیث کا ذخیرہ محدثین کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ یہ محدثین صحابہ کرامؓ بھی تھے اور تابعین بھی۔ تبع تابعین تھے اور مابعد کے علما بھی۔ علم حدیث کی حفاظت کا دائرہ محض احادیث کی روایت (Reporting) تک محدود نہیں ہے، بلکہ فقہ اور اسماء الرجال بھی اسی علم کی شاخیں ہیں۔
حدیث کو روایت کرنے والوں کے حالات اور صفات کا روایتِ حدیث میں بہت بڑا اثر ہے۔ حدیث کی درجنوں اصطلاحات کا وجود اسی علمِ اسماء الرجال کا نتیجہ ہے۔
قبولِ روایت کے اعتبار سے حدیث کی بہترین قسم ’’صحیح‘‘ ہے، اور ناقابلِ قبول کے لحاظ سے کمزور ترین قسم ’’ضعیف‘‘ ہے۔ پھر اس ضعیف میں بھی قطعی طور پر ناقابلِ قبول روایت وہ ہے جس کو ’’موضوع‘‘ (خود ساختہ) کہا جاتا ہے۔ محدثین کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے تمام تر ذخیرۂ احادیث میں ضعیف و موضوع روایت کو متعین کردیا ہے۔ دین میں حجت کے اعتبار سے ’’صحیح‘‘ سے بڑھ کر کوئی روایت نہیں، لہٰذا صحیح کی موجودگی میں ضعیف کی کوئی اہمیت نہیں، اور پھر ضعیف میں بھی موضوع کا قطعاً کوئی وزن نہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ موضوع روایت کے ذریعے اسلام کی تعلیمات اور اسلام کے بہترین چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس طرح یہ جعلی اور بناوٹی احادیث بنانے والے جعل ساز کوئی مقام نہیں رکھتے، اسی طرح ایسی روایات کو امت کی اصلاح و فلاح کے لیے بیان کرنے والوں کی بھی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں۔
ضعیف و موضوع روایات، احادیثِ نبویؐ کے تمام تر ذخیرے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق وارد احادیث میں ضعیف و موضوع روایات بھی موجود ہیں۔ انہیں مضامین کے اعتبار سے تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن عموماً اہلِ علم نے اس طرف توجہ نہیں فرمائی۔ کتب میں جہاں جہاں یہ روایات درج ہیں وہیں ان کا حکم بھی بیان کیا جاتا ہے۔ شعبۂ علومِ اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور کی ڈائریکٹر اور استاذ سیرت چیئر ضلعی تعلیم ڈاکٹر شاہدہ پروین نے اس طرف توجہ فرمائی ہے۔ وہ موضوع کو نہایت اہم اور دلچسپ رخ اور سمت دینے پر مبارک باد اور تحسین کی حق دار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عمومی سطح پر غالباً صحیح احادیث کو وہ رواج اور قبولیت حاصل نہیں جو موضوع اور ضعیف روایات کو حاصل ہے۔ اس میں غیر محتاط اور کم علم مصنّفین اور واعظین کا کردار زیادہ ہے، اور آج کے ترقی اور تعلیم سے بھرپور عہد میں بھی حکایات و خرافات اور ضعیف و موضوع روایات پر دنیاداروں کا کاروبار چل رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ان خرافات اور روایات کو متعین طور پر بحث و تحقیق کا موضوع بناکر ڈاکٹر شاہدہ پروین نے نہایت اہم علمی خدمت انجام دی ہے۔
ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر مرد و عورت سبھی ان روایات سے متاثر ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے خاص طور پر خواتین سے متعلق اُن مخصوص روایات کو موضوع بنایا جن کا خواتین کی حیثیت اور مقام پر بہت گہرا اثر ہے۔ مقدمہ اور تین ابواب پر مشتمل کتاب میں درجنوں عنوانات کے تحت ان روایات کو ان کے ضعف (کمزوری) اور وضعیت (خود ساختہ) کو قدیم وجدید محدثین کی علمی و تحقیقی آرا کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
مقدمے میں عورت کو اسلام کے عطا کردہ مقام، مرتبے اور حقوق و مراعات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر متصل بعد بتایا گیا ہے کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق عطا کیے وہ عہدِ نبویؐ تک اسے پوری طرح حاصل رہے، لیکن گزرتے ایام کے ساتھ عورت کے حقوق کے بارے میں عوام الناس کا رویہ تبدیل ہوگیا۔ اس کی تین وجوہ بیان کی گئی ہیں: (1) عورت کی تعلیم بہت کمزور رہ گئی، (2) اس کے نتیجے میں اُس کے حقوق کی وضاحت مرد کے ہاتھ میں چلی گئی، لہٰذا یہاں توازن نہ رہا۔ اور (3) عورت کے حقوق تشریحات اور تعبیرات کی دبیز تہوں میں دب کر رہ گئے اور رفتہ رفتہ خواتین کے بارے میں پرانا تعصب ابھر آیا اور موضوع و ضعیف روایات نے عورت کے حقوق کو مزید متاثر کیا۔
اس اجمالی بیان کے بعد ضعیف اور موضوع روایت اور حدیث کا معنی و مفہوم اور مرتبہ بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ موضوع روایت کو حدیث کیوں کر کہا جاسکتا ہے اور ان کو ذخیرۂ احادیث میں کیوں کر شامل رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی موضوع احادیث ازخود گھڑنے (وضع کرنے) کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ مقدمے میں اختصار کے ساتھ وضع حدیث کے بارے میں ضروری معلومات کو یکجا کردیا گیا ہے۔
65 صفحات پر محیط مقدمہ موضوع سے متعلق بہت مفید ضروری معلومات کا بہترین طریقے سے احاطہ کرتا ہے۔ باب اول ’’خواتین سے متعلق موضوع و ضعیف روایات کے تمدنی و معاشرتی اسباب‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ باب 70 صفحات پر مشتمل ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اسلام سے قبل عورت کے سماجی مقام اور اسلام میں خواتین کی تقدیس و حرمت کو قرآن و حدیث اور علما و فقہا اور محدثین و مصلحین کی عبارتوں سے واضح کیا گیا ہے۔ باب کا دوسرا حصہ خواتین سے متعلق ضعیف و موضوع روایات گھڑنے کے تمدنی و معاشرتی اسباب پر بحث کرتا ہے۔
دوسرا باب کتاب کی اصل ہے۔ اس باب میں خواتین سے متعلق ضعیف و موضوع روایات درج کی گئی ہیں، قریباً 175 صفحات پر محیط اس باب میں 30 عنوانات کے تحت سو سے زائد روایات پر بحث ہے۔ ان روایات کے اندراج کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے موضوع یا ضعیف روایات کو حوالے کے ساتھ درج کیا گیا ہے اور اس روایت کے مضمون کی مناسبت سے اس کا عنوان قائم کیا گیا ہے، پھر متن کے اندراج کے بعد استنادی حیثیت کو مختلف ائمہ حدیث کی آرا و اصول کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے ہر حدیث کی استنادی حیثیت (روایت) کو جرح و تعدیل کے اصولوں کے مطابق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ روایت کے مضمون پر بھی تبصرہ کیا ہے اور عموماً بہت سی روایات و احادیث پر درایت کے اصولوں کا انطباق کیا ہے۔ یوں ان روایات کی حیثیت کو روایت و درایت دونوں پہلوئوں سے پرکھا اور جانچا گیا ہے۔ ایسی روایات جن کا مضمون مکمل طور پر قرآن و سنت کی تعلیم کے برعکس ہے ان پر بات کرتے ہوئے بھی درایت سے کام لیا گیا ہے، اور ایسی روایات جن کا مضمون اگرچہ قرآن و سنت سے تائید پاسکتا ہے مگر سند کے اعتبار سے وہ بہت کمزور ہے، اس کی بھی کھلے دل سے وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب قرآن و سنت کی صاف، صریح اور مستند و محقق تعلیم موجود ہے تو ضعیف و موضوع اسناد کی روایات کو کیوں بنیاد بنایا جائے! اس باب میں مذکور روایات کے موضوعات اور مضامین بہت اہم ہیں۔ مثلاً تشکیلِ خاندان کے لیے عمدہ بیوی کا انتخاب۔ کم عقل، معمولی اور بے وقوف عورتوں سے شادی کی ممانعت۔ کسی خاص خاندان، قوم یا قبیلے کی عورت سے شادی کی فضیلت۔ شادی کا معیار کیا ہو؟، خاندانی عظمت، مالی فوقیت والی عورت سے شادی کی ممانعت، فاسق کو رشتہ دینے کی ممانعت، رشتے کے انتخاب میں عورت کے بالوں کی اہمیت، آزاد عورتوں سے شادی کی فضیلت، نکاح میں عورت کی خوب صورتی کو ترجیح دینا، دلہن کا استقبال، نکاح میں قرابت داری کا لحاظ، طلاق سے عرشِ الٰہی کا کانپ جانا، تخلیہ کے وقت ستر کا لحاظ، بیوی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کی اہمیت، خاوند کے حقوق کی اہمیت اور اس میں غلو، غسلِ جنابت کی فضیلت، شب زفات کے تحفہ کی حیثیت، بدکردار بیوی کے ساتھ نباہ، مقام ِنسواں کی تحقیر، بیوی کی بات نہ ماننا، عورتوں کو تعلیم نہ دلانا، عورتوں کو زیادہ کپڑے مہیا نہ کرنا، گناہ گار عورت کی سزا میں اس کے خاندان کو شریک کیا جانا… یہ چند عوانات یا مضامین ہیں، ان کے تحت کہیں ایک، کہیں دو اور کہیں تین تین یا چار چار سے زائد روایات بھی درج ہیں۔ ان روایات کے اخذ و انتخاب کا کام نہایت دقت طلب اور احتیاط کا متقاضی تھا۔ ڈاکٹر شاہدہ پروین نے اسے بہت خوبی سے انجام دیا ہے۔ مصنفہ کے اسلوبِ بیان سے قرآن اور صحیح احادیث کی اہمیت واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔
تیسرا باب ان موضوع اور ضعیف روایات کے منفی اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہاں اعتقادی، عملی، سماجی اور اخلاقی طور پر عورت کے متاثر ہونے کا بیان ہے، اور عورت کے بہت سے حقوق سے محروم ہوجانے کے لحاظ سے ان اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب برصغیر کی معاشرت میں زندگی کی جدوجہد سے نبرد آزما عورت کی صورتِ حال کے لیے آئینہ بھی ہے اور اس اس کے لیے ہمت و حوصلے اور جذبہ و شوق کا درس بھی۔اور اہلِ علم و تحقیق، خطبا اور واعظین کے لیے ایک بہترین رہنما کتاب بھی۔ یہ کتاب مرد و خواتین کے حلقوں میں یکساں اہمیت کی حامل ہے۔