انٹرنیٹ، گوگل، فیس بک اور واٹس ایپ کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کے اس زمانے میں حیرت ہے کہ نئی نئی کتابیں بھی پابندی کے ساتھ شائع ہورہی ہیں اور پڑھنے والے انھیں خرید بھی رہے ہیں اور پڑھ بھی رہے ہیں۔ یہ حال مشرق و مغرب کے تقریباً تمام ملکوں میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتابیں زندہ رہیں گی اور ان کے وجود کو مٹانا نئی ٹیکنالوجی کے بس میں نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ نئے نئے پبلشر کتابوں کی اشاعت و طباعت کے میدان میں آرہے ہیں اور شاید ہی کوئی برس ایسا ہو جب سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں نہ چھپتی ہوں۔
پچھلے دنوں مجھے کئی نئی کتابوں کے مطالعے کا موقع ملا۔ ان کتابوں کا تعلق سیاست، ادب، سوانح عمری اور خودنوشت جیسے متنوع موضوعات سے ہے۔ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت کا معیار خاصا بلند ہوا ہے اور یہ کتابیں جہاں معنوی طور پر فکر انگیزی اور گیرائی لیے ہوئے ہیں، وہاں صُوری اور نظری اعتبار سے بھی دیدہ زیب اور متاثر کن ہیں۔
ان کتابوں میں سب سے پہلی کتاب جس کا صحافتی دنیا میں بہت شہرہ ہے، ملک کے ممتاز صحافی، وقائع نگار اور حال کے کالم نگار جناب الطاف حسن قریشی کی ہے جو سابق مشرقی پاکستان اور حال کے بنگلہ دیش کی بابت ہے۔ عنوان بہت معنی خیز ہے: ’’مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ جس میں بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی کے اُن تمام تجزیاتی مضامین کو یکجا کردیا گیا ہے جو 1971ء میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں شائع ہوئے۔ یہ مشقت ایقان حسن قریشی نے اٹھائی جن کا نام نامی کتاب پر بہ طور مرتب کے موجود ہے۔ جناب الطاف حسن قریشی کا ایک صحافتی امتیاز یہ ہے کہ وہ ملک کے پہلے، بلکہ واحد صحافی ہیں جو اُس زمانے میں جب مشرقی پاکستان سیاسی انتشار و خلفشار سے گزر رہا تھا، لاہور سے سفر اختیار کرکے اس خطے میں گئے، وہاں کی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں، مختلف طبقۂ فکر کے اہم لوگوں سے تبادلہ خیال کیا، وہاں کی سیاسی اور لسانی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور پھر ان معلومات کی روشنی میں ایسے فکر انگیز اور معلومات افزا تجزیے تحریر کیے کہ اگر اُس وقت کے اربابِ اقتدار ان تجزیوں میں بیان کی گئی صورتِ حال کو اہمیت دیتے اور اُن تجاویز سے فائدہ اٹھاتے جو قریشی صاحب نے اپنے مضامین میں نہایت دل سوزی کے ساتھ دی تھیں، تو شاید قوم سقوطِ ڈھاکہ کے المیے سے بچ سکتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ اور اب جب کہ سقوط کے سانحے کو بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، ریکارڈ کی درستی اور ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے یہ ضخیم کتاب مرتب کرکے اس امید کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ شاید ہم اپنی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ سکیں۔ یہ کتاب چودہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اسے نہایت دیدہ زیب طباعت کے ساتھ علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہور سے شائع کیا ہے۔ کاغذ کی مہنگائی کے اس دور میں پبلشر نے اس کتاب کو چھاپنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے، اس پہ اسے جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ مرتبِ کتاب بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے نہایت عرق سوزی اور دیدہ ریزی سے پرانے شماروں سے ان قیمتی مضامین کو اکٹھا کیا اور نہایت سلیقے سے مرتب کرکے حال کے پڑھنے والوں اور مستقبل کے مورخوں کی نذر کردیا۔
دوسری کتاب جو ان دنوں میرے زیر مطالعہ آئی وہ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو ’’اردو میں اسلامی ادب کی تحریک… فکری و ارتقائی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے شائع کیا ہے۔ اردو کی ادبی دنیا میں مختلف وقتوں میں مختلف ادبی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک، علامت نگاری کی تحریک، نئے ادب کی تحریک، نثری نظم کی تحریک۔ ان تحریکوں نے اردو ادب کے دامن کو موضوعات کے تنوع، نت نئے اسالیب اور فنی اظہار کے نئے نئے سانچوں سے مالامال کیا ہے۔ اسلامی ادب کی تحریک بھی انھی میں شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے علم کے مطابق اسلامی ادب کی بابت سب سے پہلی آواز محمد حسن عسکری نے اٹھائی۔ اور پھر ادیبوں اور شاعروں کی وہ کھیپ سامنے آئی جو ادب کو اسلامی اقدار سے آشنا کرنے کی خواہاں تھی۔ ہر چند کہ یہ تحریک ترقی پسند تحریک کی طرح مقبولیت سے ہم کنار تو نہ ہوسکی لیکن اس نے اردو ادب کو ایسے ادبا اور شعرا ضرور دیے جو ادب کو اخلاقی اقدار اور روحانی اظہار سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صائمہ ذیشان وہ پہلی محققہ ہیں جنہوں نے اس موضوع پر نہایت دقت نظری اور گہرائی کے ساتھ تحقیق کی اور اس تحریک کی ادبی تاریخ مرتب کرکے ایک اہم خلا کو پُر کیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل جو ان کے مقالے کے نگراں تھے، انھوں نے بھی گواہی دی ہے کہ ڈاکٹر صائمہ ذیشان تحقیق کی ایک نہایت سنجیدہ، باصلاحیت، مطالعے کی شائق اور اپنے علمی کام سے اٹوٹ طریقے سے وابستہ رہنے والی ایسی طالبہ ہیں جنھوں نے بہ حیثیت نگرانِ مقالہ انھیں متاثر کیا۔ کتاب کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ محققہ نے اپنے موضوع سے نہ صرف انصاف کیا ہے بلکہ نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ ایک وسیع موضوع کو اس طرح سے سمیٹا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا محاورہ صادق آتا ہے۔ کتاب کے پانچ ابواب ہیں اور تمام ابواب میں ایک تسلسل اور ربط اس خوش سلیقگی سے قائم کیا گیا ہے کہ موضوع کا حق ادا ہوگیا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ طلبہ اور اساتذہ میں پی ایچ ڈی کرنے کی جو دوڑ شروع ہوئی ہے اس میں دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہمارے طلبہ مقالے کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن سے نہ علمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ سرمایۂ علم میں ہی کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ تحقیقی مقالے میں جو ارتکازِ فکر اور اظہار و ابلاغ میں جو جامعیت اور گہرائی ہونی چاہیے، مقالات بالعموم ان سے عاری ہوتے ہیں۔ اِدھر اُدھر سے جمع کی گئی معلومات سے مقالے کا حجم تو بڑھا دیا جاتا ہے لیکن استفادہ کرنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کا یہ مقالہ ان عیوب سے نہ صرف مبرا ہے بلکہ بعد کے مقالہ نگاروں کے لیے ایک مثال بھی ہے کہ مقالہ لکھا جائے تو کس طرح، اور موضوع کو برتا جائے تو کیسے۔ 478 صفحات کے اس مقالے میں اردو کی ادبی تاریخ سمٹ آئی ہے جس کے لیے محققہ ہماری تحسین و تعریف کی مستحق ہیں۔ امید ہے کہ وہ پی ایچ ڈی کرنے اور اس کتاب کی اشاعت ہی کو اپنی آخری منزل نہ سمجھیں گی بلکہ نت نئے موضوعات کو اپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بناتی رہیں گی۔ ہم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اکثر پی ایچ ڈی کرنے والے سند پانے کو ہی اپنی معراج سمجھتے ہیں، حالانکہ پی ایچ ڈی تحقیق کی پہلی سیڑھی ہے جو محقق کو تحقیق اور مزید تحقیق کی دعوت دیتی ہے۔
اب تذکرہ ایک ایسی کتاب کا جسے ملک کے معروف صحافی اور متعدد کتابوں کے مصنف جناب جلیس سلاسل نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب عالمی شہرت یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں ہے۔
کتاب ڈاکٹر صاحب مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔ نام کتاب کا بہت طویل ہے، مختصراً اس کا عنوان ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور کہوٹہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
جلیس سلاسل کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے نیاز مندانہ مراسم بہت دیرینہ تھے، اور اسی تعلق کا انعام تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے بعد پہلا انٹرویو جلیس سلاسل ہی کو دیا جیسا کہ کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اگر ’’محسنِ پاکستان‘‘ کا خطاب دیا گیا تو یہ عین برحق تھا کہ انھوں نے ملک کو دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بناکر اسے دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ کردیا، لیکن اس عظیم کارنامے کی جو سزا اپنوں اور بیگانوں نے ڈاکٹر صاحب کو دی اس کی پوری داستان حقائق کے ساتھ جلیس سلاسل نے اس کتاب میں بیان کردی ہے۔ ہرچند کہ مصنف کا اسلوب کسی قدر الجھا ہوا ہے لیکن جو معلومات ڈاکٹر صاحب اور ان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کی بابت اس کتاب میں جمع کردی گئی ہیں، وہ سبق آموز بھی ہیں اور چشم کشا بھی۔ جنرل پرویزمشرف نے اپنے دورِ حکومت میں بیرونی دبائو کے بہانے ڈاکٹر صاحب کو جو ٹیلی ویژن پہ آکر اپنے ناکردہ گناہوںکے اعتراف پر مجبور کیا، اس کی بابت بھی تفصیلات اس کتاب میں ملتی ہیں۔ میری رائے میں ہر محب وطن پاکستانی کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ اس قوم کے اربابِ اقتدار اپنے قومی محسنوں کے ساتھ کیسا ناشکر گزاری کا برتائو کرکے خود کو محسن کُش ثابت کرتے رہے ہیں۔ سوا چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز نے شائع کی ہے جو بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ کتاب کا مقدمہ بزرگ صحافی اور استاد ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے تحریر کیا ہے۔
ایک دل چسپ اور لائقِ مطالعہ کتاب جس نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچے رکھا اور ایک ایسی درخشاں انجمن میں جہاں اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت بھی تھے، علمائے کرام اور شعرا و ادبا بھی، کارکن صحافی بھی اور مصنف کے دوست احباب بھی… یہ انجمن سجائی ہے جمیل اطہر قاضی صاحب نے، جو کئی اخبارات و رسائل کے چیف ایڈیٹر ہیں اور پچھلی کئی دہائیوں سے صحافت و سیاست کے قریبی مشاہد رہے ہیں۔ ان کی کتاب ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ ان کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف وقتوں میں کسی شخصیت کی وفات یا برسی کے مواقع پر وہ لکھ کر چھپواتے رہے۔ ان مضامین میں واقعات بھی ہیں اور مشاہدات و تجربات بھی۔ جو کچھ انھوں نے ان شخصیات کی بابت رقم کیا ہے اس میں خلوص و محبت کی چاشنی پائی جاتی ہے اور ایسی نادر معلومات بھی جو کسی اور ذریعے سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ صحافیوں میں مولانا ظفر علی خاں، میر خلیل الرحمٰن، حمید نظامی، مجید نظامی، زیڈ اے سلہری، مصطفیٰ صادق، انقلاب ماتری، فخر ماتری، آغا شورش کاشمیری، عنایت اللہ، ضیا الاسلام انصاری، محمد صلاح الدین، ارشاد احمد حقانی، احمد ندیم قاسمی، سید اسعد گیلانی اور عبدالکریم عابد شامل ہیں۔ علمائے کرام میں مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا کوثر نیازی، مولانا گلزار احمد مظاہری۔ اساتذہ کرام میں پروفیسر سید کرامت حسین جعفری، پروفیسر مرزا محمد منور۔ سیاست دانوں میں خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی اور بشیر احمد بلور۔ روحانی شخصیات میں پیر کرم شاہ الازہری، سید نفیس الحسینی اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ مصنف نے اپنے حرفِ آخر میں لکھا ہے کہ:
’’حقیقت تو یہ ہے کہ اس کہکشاں کا ہر ستارہ ایک مقصد لے کر طلوع ہوتا ہے اور ایک سبق دے کر غروب ہوجاتا ہے۔ بس زندگی کا یہی حاصل ہے۔ طلوع اور غروب اور اس کے درمیان سفر کی یہی داستان اس کتاب میں موجود شخصیتوں کی زندگیوں کا کچھ اس طرح احاطہ کیے ہوئے ہے جو نئی نسل کے لیے چراغِ راہ بھی ہے اور اقدارِ رفتہ کا شجرِ سایہ دار بھی۔‘‘
سوا پانچ سو صفحات کی اس کتاب میں تقریباً ایک سو کے لگ بھگ شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سرورق کتاب کا نہایت جاذب نظر ہے۔ مقدمہ بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی کا تحریر کردہ ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں جمیل اطہر قاضی کی صحافتی خدمات پر بھی مختلف اہلِ قلم نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ ایک دل چسپ اور معلومات افزا کتاب ہے جس کا مطالعہ نئی نسل کے طلبہ و طالبات کو ضرور کرنا چاہیے تاکہ انھیں معلوم ہوسکے کہ کیسی کیسی چنگاریاں اس خاکستر قومی وجود میں موجود رہی ہیں۔