شعبان کا مہینہ آدھا گزرچکا ہے اور رمضان کا مہینہ قریب ہے۔ شعبان کے مہینے میں سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو رمضان کے لیے تیار کرتے۔ تو یہ موقع بہت اہم ہے کہ ابھی دو ہفتے باقی ہیں، اس طرف متوجہ ہوا جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے تھے اتنے روزے وہ کسی اور مہینے میں نہیں رکھتے تھے۔اس طرح سمجھایا ہےہم سب کا تجربہ ہے کہ جب ہم رمضان میں روزے شروع کرتے ہیں اس سے پہلے ہماری روزہ رکھنے کی کوئی عادت نہیں ہوتی، اس طرح شروع میں مختلف قسم کی مشقتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہمارا جسم اس کا عادی نہیں ہوتا تو شروع میں کچھ دن تک دل پریشان ہوتا ہے، روزے رکھنے میں اس کو زحمت ہوتی ہے۔ شروع میں پیٹ کی تکلیف ہوتی ہے، اس طرح طبیعت بھاری رہتی ہے اور روزے کی عبادت میں جو لطف آنا چاہیے وہ تھوڑا متاثر ہوتا ہے۔ علامہ ابن رجبؒ کہتے ہیںکہ اگر شعبان میں کچھ روزے رکھ لیے جائیں تو اس کے نتیجے میں جسم روزے رکھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور روزے سے مانوس ہوجاتا ہے، اس کے بعد ہم رمضان کے روزے شروع کرتے ہیں تو شروع ہی سے بڑی نشاط کے ساتھ، بڑی راحت کے ساتھ اور اس کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم روزے رکھ سکتے ہیں۔ تو یہ تو ایک رخ ہوا تیاری کا، جس کی طرف علامہ ابن رجبؒ نے اشارہ کیا۔
اس کو اور بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، اور وہ یہ کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کی تربیت کے لیے، ان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے، ایک بہتر مسلم سماج کی تشکیل کے لیے انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسی تصور کے ساتھ رمضان کو گزارہ جائے۔ تورمضان کی تیاری کا ایک پہلو یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے سے بہت عرصہ پہلے سے یہ سوچنا شروع کردیں، اپنا تصور بنانے لگیں اور ذہن میں اس کو واضح کرنے لگیں کہ اِس دفعہ رمضان کے مہینے سے ہمیں کیا کچھ حاصل کرنا ہے، اور ابھی سے سوچ لیں کہ رمضان کے اس آنے والے مہینے میں ہماری خاص خاص کیا سرگرمیاں ہوں گی۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ پہلے سے تصور بنا ہوا نہ ہو، اور پہلے سے ذہن واضح نہ ہو تو ایسا ہوتا ہے کہ اچانک ہم رمضان میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا کرنا ہے، اس طرح سے بہت سا وقت اسی طرح گزر جاتا ہے، یہاں تک ہوتا ہے کہ جب اعتکاف کا وقت آتا ہے آخری عشرے کا، تو اس سے پہلے ہم اعتکاف کی فضیلت پر تقریر سنتے ہیں اور ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی اعتکاف کریں، لیکن پھر ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور ابھی اس کے لیے وقت نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لیے اِس مرتبہ اعتکاف نہیں کریں گے، اگلے سال کریں گے۔ اور پھر بات آئی گئی ہوجاتی ہے، اور ہم اسے اگلے سال پہ ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اگر رمضان سے ایک مہینہ پہلے سے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھالیںکہ اِس مرتبہ تو ہمیں اعتکاف کرنا ہے، تو پھر اس کے لیے وقت کے ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، اس طرح اعتکاف کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ تو یہ اعتکاف کی واضح سی مثال تھی جس کا میں نے ذکر کیا۔ اصل میں اگر ہم ذہنی طور پر تیار رہیں تو رمضان کی بہت ساری چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی تیاری کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے ابھی تک قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پورا نہیں پڑھا ہے تو وہ یہ فیصلہ ابھی کرسکتا ہے کہ اِس مرتبہ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ مکمل کروں گا۔ ظاہر ہے اِس کے لیے وقت درکار ہوگا جس کے لیے اُسے پلاننگ کرنی ہوگی۔ کسی شخص نے ابھی قرآن ختم ہی نہیں کیا ہے تو وہ اِس دفعہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ میں قرآن ختم کروں گا۔ کسی شخص کی صورتِ حال یہ ہوکہ اسے قرآن ناظرہ پڑھنا نہیں آتا اور اِس دفعہ اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے گا، تو یہ جو ایک مہینے کا موقع ہے اس میں کوشش کرکے وہ قرآن مجید ناظرہ پڑھنا سیکھ لے۔اس طرح رمضان کے مہینے میںوہ اطمینان کے ساتھ ناظرہ قرآن مجید پڑھے گا۔ اگر کسی کی تجوید اچھی نہیں ہے اور وہ تجوید کے ساتھ قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا ، تو اس کے لیے بھی بہترین موقع ہے کہ وہ اس عرصے میں قرآن مجید کی اچھی تلاوت کرنا سیکھ لے۔ سارے انتظامات ہماری مسجدوں میں ہیں اور سارے انتظامات ہمارے موبائل میں ہیں جس سے ہم اچھی طرح تجوید سیکھ سکتے ہیں۔تجوید سیکھ لیں تو قرآن مجید رمضان کی راتوں میں پڑھیں، نمازوں میں پڑھیں، الگ سے تلاوت کریں تو اس میں آپ کو قرآن مجید پڑھنے کا لطف حاصل ہوگا۔ اسی طرح آپ نے طے کیا ہے کہ آپ تہجد پڑھیں گے، اور رمضان میں قیام اللیل اور تہجد کی فضیلت تو سب کو معلوم ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد ہوں۔ جتنی زیادہ سورتیں یاد ہوں گی اتنی ہی اچھی طرح تہجد پڑھ سکیں گے، قیام اللیل کرسکیں گے۔ تو اس کے لیے ابھی ہمارے پاس موقع ہے، اس میں ٹارگٹ بناکے جتنی ہوسکے سورتیں یاد کرلیں۔ رمضان میں ہم نمازوں میں، قیام اللیل کے سجدوں میں دعائیں کرنا چاہیں، قرآنی دعائیں، مسنون دعائیں …اور اگر ہمیں دعائیں یاد نہیں ہیں تو ابھی تھوڑا عرصہ باقی ہے کچھ قرآنی دعائیں یاد کرلیں، کچھ مسنون دعائیں یاد کرلیں۔ وہ دعائیں یاد کرلیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل میں سجدے میں پڑھا کرتے تھے، نمازوں پڑھا کرتے تھے۔
یہ تو رمضان کی علمی تیاری ہوئی۔ ایک دوسری تیاری وقت کی ہے، یعنی آپ نے طے کرلیا کہ اِس مرتبہ رمضان میں ہم کو زیادہ سے زیادہ وقت قرآن مجید کی تلاوت میں، اس کے ترجمے میں، دینی کتابوں کے مطالعے میں، دعائوں میں، اذکار میں، نمازوں میں لگانا ہے، راتوں کو زیادہ سے زیادہ جاگنا ہے، عبادت کرنا ہے، تو اس کے لیے ہمیں وقت چاہیے ہوگا، اور اس وقت کا انتظام بھی آپ ابھی سے کرسکتے ہیں بہت بہتر طریقے سے۔ مثال کے طور پر آپ ابھی سے سوچ لیں کہ گھر کے وہ کیا کیا کام ہیں جو رمضان میں کرنا پڑتے ہیں، یہ کام اگر ابھی کرلوں تو رمضان میں نہیں کرنا پڑیں گے۔ تو ان کاموں کی فہرست بنا لیجیے۔ ان کاموں کو ابھی کرلیجیے۔ دفتر کے وہ کون کون سے کام ہیں جو آپ ابھی کرلیں زیادہ محنت کرکے، وقت لگا کے، تو پھر رمضان میں زیادہ موقع مل جائے گا عبادت کرنے کا، اور دفتر کے کاموں کا اتنا بوجھ نہیں رہے گا۔ ایک طالب علم یہ سوچ سکتا ہے کہ ابھی میں بہت ساری چیزوں کی پڑھائی کرلوں تو رمضان میں اپنے مطالعے کے وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی عبادت کے لیے وقف کرسکتا ہوں۔ اس طرح سے یہ ہوگا کہ بہت سے کام جو آپ ٹالتے رہتے ہیں کہ وقت آنے پر کریں گے وہ آپ ابھی کرلیں تو پھر رمضان میں زیادہ وقت ملے گا کام کرنے کا، یعنی رمضان کے کام کرنے کا۔ ایک خاتون نے اپنا تجربہ لکھا کہ رمضان میں جو ہم کو مصالحے پیسنا ہوتے ہیں اور مختلف قسم کے پیسٹ تیار کرنے ہوتے ہیں کھانے وغیرہ بنانے کے لیے، تو ہم یہ کرتے ہیں کہ وہ سب رمضان سے پہلے ہی زیادہ بناکر اپنے فریج میں رکھ لیتے ہیں اور پھر انہیں رمضان بھر استعمال کرتے ہیں، اس طرح رمضان میں بہت سارا وقت بچ جاتا ہے۔ تو ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے کہ میں کیا کیا کام ابھی کرلوں اور تیاری کرلوں جس سے رمضان میں میرا وقت بچ جائے۔
ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہے عید کی تیاری کا۔ عید کی شاپنگ خاص طور سے لوگ ٹال کے رکھتے ہیں رمضان کے لیے، اور رمضان میں بھی آخری عشرے کے لیے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو پورا رمضان بازار بھرے ہوتے ہیں لوگوں سے۔ اور پھر جو آخری عشرہ ہوتا ہے اس میں عورتیں، مرد پوری پوری رات یعنی رات گئے تک بازاروں میں ہوتے ہیں۔ تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ عید کی منصوبہ بندی یعنی بچوں کے لیے عید کے جو کپڑے لانے ہیں، چیزیں خریدنی ہیں ان کی خریداری شعبان میں کرلیں۔ اسی طرح آپ کو جن لوگوں کی مدد کرنی ہے، خاندان کے لیے کپڑے سلوانے ہیں، افطار کے لیے لوگوں کی مدد کرنی ہے اس کے سلسلے میں ابھی سے کچھ کریں۔ کچھ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عام طور سے رمضان میں جب ہمارے اندر نیکی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کے باہر مانگنے والے کھڑے ہیں آپ اُن کو کچھ رقم دے کر گھر چلے جاتے ہیں، خود آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا یعنی آپ یہ سروے نہیں کرتے کہ آپ کے اپنے محلے میں، آپ کے پڑوس میں، آپ کے خاندان میں کتنے لوگ ہیں جو واقعی مدد کے محتاج ہیں اور خاص طور پر رمضان اور عید کے تعلق سے ان کی خصوصی مدد ہونی چاہیے۔ تو آپ ابھی سے یہ سروے کرلیں اپنے پورے خاندان کا، اپنے پورے محلے کا، اپنی پوری بستی کا… اور یہ دیکھیں کہ کون کون ہیں جن کی مجھے مدد کرنی ہے اور کتنی زیادہ میں مدد کرسکتا ہوں اور اس کے لیے میں کتنی زیادہ کوشش کرسکتا ہوں، کتنا انتظام کرسکتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رمضان میں جو آپ کے صدقات ہیں، جو آپ کی نیکیاں ہیں لوگوں کے ساتھ، وہ صحیح جگہ پر لگیں گی، اور اس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے میں واقعتاً لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوجائیں گی، بہت سارے لوگوں کی زندگیاں بدلیں گی، بہت سارے لوگوں کی زندگی کی صورت بدلے گی۔ تو اس کے اور زیادہ پہلو ہیں سوچنے کے۔ میں نے آپ کی توجہ کے لیے چند باتیں پیش کی ہیں، آپ کو متوجہ کیا ہے اس پر۔ لیکن یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اِس مرتبہ جو رمضان آئے گا وہ میری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی والا رمضان ہوگا، میری شخصیت کی تعمیر کرنے والا رمضان ہوگا… اور اس رمضان میں مجھے بہت کچھ اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ اور پھر ہمیں اس کے لیے بہت ساری ذہن سازی کرنا ہوگی۔ اور اپنا وقت، توانائی، اپنی ساری محنت اس طرح سے رمضان کی تیاری کے لیے مرکوز کردیں، تو پھر جب رمضان آئے تو اس کے لیے آپ تیار ہوں پہلے ہی لمحے سے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے اور آنے والا رمضان ہمیں حاصل ہو۔ اور یہ رمضان ہماری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لائے، بہت بڑی ترقی لائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔