ملک کی سیاست انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے ملک کا قومی بحران ہی عام انتخابات ہیں۔ رجیم چینج کے بعد سے لے کر اب تک قومی سیاست کا بنیادی نکتہ بھی عام انتخابات کے نعرے کے گرد ہی گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی بحران کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل کسی بھی جادوئی طریقے سے ممکن نہیں، اور نہ ہی یہ مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں۔ ہماری سیاست، معیشت، داخلی و علاقائی یا خارجہ پالیسی، آئین و قانون کی پاس داری سمیت عام آدمی کا مقدمہ ایسا بن گیا ہے جس کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ غور وفکر کے ساتھ غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک منطق یہ پیش کی جارہی ہے کہ فوری انتخابات مسائل کا حل نہیں، اور یہ انتخابی عمل دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سیاسی تقسیم، محاذ آرائی اور ٹکرائو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ انتخابات سے فرار یا اس میں تاخیری حربے اختیار کرنے کے لیے ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی سطح یا میڈیا کے محاذ پر انتخاب مخالف مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ اس مہم میں ملک میں موجود معاشی بدحالی، سیکورٹی یا دہشت گردی، نئی مردم شماری کو بنیاد بناکر انتخابات کو کچھ عرصے کے لیے پیچھے چھوڑنے کی بات کی جارہی ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اسمبلی کی تحلیل سے لے کر 90 دن میں انتخابات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے میں پنجاب میں صدرِ مملکت اور خیبر پختون خوا میں گورنر کو اختیار دیا گیا کہ وہ فوری طور پر فریقو ں سے مشاورت کے بعد انتخابی تاریخ کا اعلان کریں۔ اگر گورنر خیبر پختون خوا انتخابی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے تو صدر انتخابی تاریخ دے سکتے ہیں۔ عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور تمام متعلقہ اداروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتظامی، مالی اور سیکورٹی امور کے ذمہ دار ہیں۔ اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں سے صدرِ مملکت نے پنجاب کے صوبائی انتخاب کے لیے 30اپریل کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے خیبر پختون خوا میں انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں انتخابی تاریخ کا اعلان کریں۔ اس فیصلے کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات کے لیے ایک قانونی راستہ دے دیا ہے جس سے انحراف اب فی الحال کسی کو بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے اس فیصلے پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں خاصی نالاں ہیں۔ مریم نواز مسلسل عدلیہ پر جانب داری کا الزام لگارہی ہیں، اُن کے بقول ہماری عدلیہ عمران خان کی حمایت میں پیش پیش ہے۔ مریم نواز نے ایک قدم آگے بڑھ کر موجودہ سپریم کورٹ کے دو ججوں سمیت چیف جسٹس پر بھی الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ موجودہ عدلیہ کو جس حد تک متنازع بنایا جاسکتا ہے، بنایا جائے۔ اب ان کا ہدف اسٹیبلشمنٹ یا فوج نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتیں ہیں، اور ان ہی عدالتوں یا ججوں کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ میڈیا میں بھی ان کا حمایت یافتہ طبقہ عدلیہ پر تنقید کررہا ہے اور اس کے انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بنیادی بات موجودہ حکومتی اتحادیوں کی انتخابات سے فرار کی کوششیں ہیں، اور انھیں موجودہ حالات میں کسی بھی طور پر انتخابات سودمند نہیں لگتے۔ ان کو لگتا ہے کہ واحد عدلیہ ہے جو انتخابات میں تاخیر کے کھیل میں بڑی رکاوٹ ہے اور اسی پر دبائو ڈال کر وہ انتخابات میں تاخیر کرسکتے ہیں۔
یہ بات تواتر کے ساتھ مجھ سمیت اکثر لوگ لکھتے یا بولتے رہے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں انتخابات سے فرار ممکن نہیں، اور حتمی طور پر حکمران طبقے کو بھی انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا، کیونکہ ایک بار اگر آئینی ٹرین پٹری سے اتر گئی تو اسے دوبارہ پٹری پر چڑھانا آسان کام نہیں ہوگا۔ اسی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی حرکیات میں عام انتخابات سے قبل دو صوبائی اسمبلیوں بالخصوص پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا، کیونکہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ میں ہوتے رہے ہیں۔ ایسے میں عام انتخابات سے قبل ملک میں صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر انتخابی عمل بہت سی پیچیدگیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں صوبوں میں 90دنوں میں انتخابات کا انعقاد آئینی ذمہ داری ہے، لیکن سیاسی پنڈتوں کے بقول ایسا کرنے سے اگلے عام انتخابات کی حرکیات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خود حکمران اتحاد، الیکشن کمیشن اور حکومتی حمایت یافتہ میڈیا اسی نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مسئلے کا حل نہیں بلکہ انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں، اور عام انتخابات کا راستہ ہی قومی بحران کے حل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگرچہ عام انتخابات اکتوبر 2023ء میں ہونے ہیں لیکن اگر اس وقت کا انتظار کیا جاتا ہے تو پھر دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد آئینی ذمہ داری ہے جس سے انحراف آئین سے انحراف ہوگا۔ انتخابات میں تاخیر کے لیے عدالتوں کی رضامندی بھی درکار ہے جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیںآتی۔ حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ آئینی پوزیشن سے ہٹ کر سیاسی اور معاشی بنیادوں پر معاملات کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے ان حالات میں انتخابات کے نتائج اپنے حق میں نظر نہیں آتے۔ اسی لیے اُس کی کوشش ہے کہ انتخابات سے کسی نہ کسی بہانے راہِ فرار اختیار کی جائے۔ لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے یقینی طور پر حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے اور اس کے پاس انتخابات کے سوا کوئی آپشن نظر نہیںآتا، کیونکہ حکمرانوں کو ڈر ہے کہ انتخابات نہ کرانے کی صورت میں توہینِ عدالت ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت کی رٹ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود مولانا فضل الرحمٰن اور وزیراعظم شہبازشریف کھل کر انتخابات کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
حکومتی مؤقف ہے کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں تاکہ سیاسی، قانونی، انتظامی پیچیدگیوں سے خود کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح دو صوبائی اسمبلیوں کے اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہوگی اور انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ اگر صوبائی انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جاتی ہے تو عام انتخابات نگرانوں کے بجائے ان ہی حکومتوں کی نگرانی میں ہوں گے جو آج کے حکومتی اتحاد کو قبول کرنے میں مشکل ہوگی، اور خود علیحدہ علیحدہ انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے انتظامی سطح پر مشکل پیدا کریں گے۔ حکمران اتحاد کے پاس اس وقت یہ آپشن ہیں:
(1) وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرکے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا راستہ اختیار کرے اور عدالتی فیصلے کو من و عن تسلیم کرے، وگرنہ نیا آئینی بحران پیدا ہوگا۔
(2) وہ عدالتی فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردے، اور وہ انتخابات کے خلاف جو بھی آئینی تشریح کرے گا اُس سے اسے توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(3) وہ موجودہ حالات میں دو صوبائی انتخابات کے مقابلے میں عام انتخابات کا راستہ اختیار کرے تاکہ یہ بحران ختم ہو۔
کیونکہ اگرحکومتی سطح سے اداروں کی حمایت کے ساتھ انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا گیا تو اس سے جہاں سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوگا وہیں معاشی سطح پر بھی ہمیں مسلسل غیر یقینی کیفیت سے گزرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف نے مزید تین ماہ تک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی اورمعاشی غیر یقینی ہے، ایسے میںکوئی بھی معاہدے پر تیار نہیں ہوگا۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ فوری طور پر نہیں ہوتا تو برادر اسلامی ممالک بھی امداد یا عطیات نہیں دیں گے، یہ سب کچھ بھی آئی ایم ایف کے معاہدے سے مشروط ہے۔جو لوگ انتخابات کو مسائل کا حل نہیں سمجھ رہے اُن کے پاس ایسا کون سا متبادل نظام ہے جس کی مدد سے ہم اپنی سیاسی و معاشی صورتِ حال میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں؟انتخابات سے فوری طور پر کوئی انقلاب نہیں آئے گا لیکن ملک میں اس وقت جو غیر یقینی سیاسی، معاشی، قانونی یا ادارہ جاتی صورت ِحال ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔اس لیے مسلم لیگ (ن) سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں کو ایک ہی وقت میں ’’ عام انتخابات کا راستہ ‘‘ اختیار کرنا چاہیے۔ کسی بھی سطح پر مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر ملک کے مفاد میں نہیں۔ حکمرانوں کے پاس یہی آپشن ہے کہ اگر وہ دو صوبائی انتخابات سے بچنا چاہتے ہیں تو وقت سے پہلے قومی اسمبلی و دیگر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کریں تاکہ نئی نگران حکومت کی موجودگی میں پورے ملک میں ایک ہی انتخاب ممکن ہوسکے۔کیونکہ حکومتی اتحاد نے اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا راستہ اختیار کیا تو ان کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا ہوگا اوراس کا براہِ راست فائدہ ان صوبائی سطح کے انتخابات میں بھی اور پھر اکتوبر کے عام انتخابات میں بھی ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ہوگا۔اس وقت حکومت اوراس کے اتحادی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اورکوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی وزیراعظم شہبازشریف اورآرمی چیف کی طویل ملاقات، اوراس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات میں بھی یہی نکتہ زیر بحث رہا کہ کیسے اس انتخابی بحران سے نمٹا جائے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کیونکہ انتخابات حکومت کے حق میں نہیں، اس لیے وہ کوئی بھی جواز بنا کر انتخابات سے گریز کرے گی اوراس کے لیے اُسے جس حد تک بھی جانا پڑے وہ جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ محض سیاسی و معاشی بحران ہی نہیں بلکہ ہم قانونی بحران میں بھی بہت آگے تک چلے جائیں گے، اوراس کے نتائج بھی قومی سیاست کے حق میں نہیں ہوں گے۔
اصولی طور پر اب وقت کا تقاضا یہی ہے کہ عام انتخابات کا اعلان ہو، نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں اور انتخابات سے پہلے حکومت و حزبِ اختلاف مل بیٹھ کر انتخابات سے متعلق اصلاحات کو ممکن بناسکیں۔ کیونکہ اصل مسئلہ انتخابات کی شفافیت کا ہے۔ انتخابات اور ان کے نتائج کو کسی بھی سطح پر متنازع نہیں ہونا چاہیے، اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بجائے عام ووٹرز کی رائے کی بنیاد پر حکومتوں کو تشکیل دیا جائے۔ جو لوگ بھی حکومت کو انتخابات سے فرار کا مشورہ دے رہے ہیں وہ حکومت کے دوست کم، دشمن زیادہ ہیں۔
اس وقت عمران خان کے گرد بھی گھیر ا تنگ کیا جارہا ہے اور حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ ان کو گرفتار کیا جائے اور کچھ عرصے کے لیے اڈیالہ جیل میں نظربند کردیا جائے۔ لیکن عمران خان جہاں سیاسی قوتوں کے ساتھ مزاحمت کررہے ہیں وہیں وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کورٹ مارشل اور ان کی باقیات پر جو اَب بھی فوج میں مختلف عہدوں پر ہیں، سخت تنقید کررہے ہیں۔ وہ نئے آرمی چیف سے ملنے کے بھی خواہش مند ہیں مگر ان کے بقول موجودہ قیادت بھی مجھے اپنا دشمن سمجھ رہی ہے۔ ان کے بقول وہ سب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر دولت لوٹنے والوں کے ساتھ سمجھوتا نہیں کریں گے۔عمران خان اگر واقعی گرفتار ہوتے ہیں تو ان کی سیاست میں اور زیادہ مقبولیت پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔اسی طرح جس طریقے سے میڈیا پر ان کی تقریروں اور بیانات پر پابندی عائد کردی گئی ہے اس سے بھی ان کو نقصان کم فائدہ زیادہ ہوگا۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں بشمول میڈیا اورکچھ پسِ پردہ قوتیں بھی ان کی مخالفت میں یکجا نظر آتی ہیں اور عمران خان کی سیاست تیزی سے ٹکرائو کی جانب بڑھ رہی ہے جو ملکی سطح پر نئی محاذ آرائی کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔