سوشل میڈیا اور آن لائن اظہار پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ہم عام زندگی میں بھی جہاں اپنا اظہار کرتے ہیں وہیں اپنا ردِعمل چھپاتے بھی ہیں۔ عین اسی طرح ایموجیز کے استعمال میں بھی ہم اسی جبلت کو ظاہر کرتے ہیں۔جامعہ ٹوکیو سے وابستہ مویو لوئی اور ان کے ساتھیوں نے فرنٹیئرز ان سائنس نامی جرنل میں اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ آن لائن رابطوں میں ہم اظہار کے لیے بڑے پیمانے پر ایموجیز (جذبات اور احساسات ظاہر کرنے والی علامات) استعمال کرتے ہیں۔ اس سے قبل تحقیق کی گئی تھی کہ لوگ جہاں ایموجی سے اظہار کرتے ہیں وہیں وہ اسے بطور نقاب بھی استعمال کرتے ہیں۔اس ضمن میں 1289 افراد کو شامل کرکے جاپان میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والا ایموجی کی بورڈ ’سیمیجی‘ استعمال کرایا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایموجی چہرے کے تاثرات کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے لیکن ضروری نہیں وہ اصل تجربے اور جذبات کو حقیقی طور پر بھی ظاہر کرے۔ بالخصوص یہ اُس وقت بھی ہوتا ہے جب اظہار کے قواعد سخت یا پریشان کن ہوتے ہیں۔ اس طرح حقیقی تاثرات اور ان تاثرات کے اظہار میں فرق ہو تو انسان ایک طرح کی جذباتی گھٹن کا شکار ہوسکتا ہے۔پھر یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ شرکا پسند اور ناپسند کے ایموجی اُن کے سامنے درست انداز میں بیان کرتے ہیں جو ان کے قریب ترین ہوتے ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ آن لائن بھی ایموجی سے اپنے جذبات کا درست اظہار نہیں کرتے۔شرکا پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ لوگ ایموجی کا درست اظہار قریبی حلقوں میں ہی زیادہ کرتے ہیں۔ پھر بلند رتبے کے لوگوں کے سامنے ایموجی استعمال کرنے کا رجحان کم ہوتا ہے اور وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ نوجوان رضاکاروں نے منفی جذبات آنے پر بھی مسکراتی ہوئی ایموجی استعمال کی جو منفی جذبات چھپانے کی ایک کاوش تھی۔تاہم اس چھوٹے سے مطالعے سے مزید سوالات سامنے آئے ہیں اور مویو اس پرمزید تحقیق کریں گے۔