چودہ سو برس پرانا ایک تجربہ

کوئی شخص یا گروہ جب کسی ملک میں برسراقتدار آتا ہے تو وہ اپنے سیاسی حریفوں سے سخت انتقام لیتا ہے۔ روسی انقلاب کے حالات آپ کے سامنے ہیں لیون ٹراٹسکی جو لینن کے زمانہ میں کمیونسٹ پارٹی کا دوسرا اہم ترین لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ اسٹالن نے برسراقتدار آنے کے بعد اس کو غدار قرار دے کر جلاوطن کرا دیا اور پھر میکسیکو میں اس کو قتل کر دیا گیا۔ 1936ء سے لے کر 1938ء تک تطہیر کے نام سے کئی ہزار آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جن میںتقریباً پچاس چوٹی کے لیڈر بھی شامل تھے۔ اور دس ہزار سے زیادہ آدمیوں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں۔ لینن کی موت کے وقت روسی کمیونسٹ پارٹی کے سات اہم ترین ممبر تھے جو اس کے نظام کو چلا رہے تھے۔ مگر 1938ء میں جب تطہیر کا عمل ختم ہواا تو ایک اسٹالن کے سوا سب صفحہ ہستی سے مٹائے جا چکے تھے۔

یہی صورت حال اب مالنکوف کے اقتدار کے بعد پیش آرہی ہے۔ چنانچہ سیکڑوں آدمیوں کو قید یا پھانسی کا حکم سنایا جا چکا ہے جن میں بعض ریاستوں کے وزیراعظم اور دوسری بڑی بڑی شخصیتیں شامل ہیں۔ بیریا جو اسٹٓلن کے زمانہ میں پورے روس کی خفیہ پولیس کا افسر اعلیٰ تھا۔ اس کا انجام کیا ہوا۔ پہلے روز اس کے نائب وزیراعظم ہونے کی خبر آئی۔ تھوڑے دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اور پھر تیسری خبر یہ آئی کہ اسے بیرونی ممالک سے ساز باز کے جرم میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مگر 8 ہجری میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو نہ کوئی ماردھاڑ کی گئی جیسا کہ اشتراکی غلبہ کے بعد عموماً ہوا کرتی ہے اور نہ وہ کارروائی کی گئی جو جمہوری ملکوں میں ہوتی ہے کہ اعلان تو ’’سب کے لیے یکساں حقوق‘‘ کا ہوتا ہے مگر عملاً ایسی پالیسی اختیار کی جاتی ہے کہ مخالف عنصر خود بخود فنا ہو جائے۔ مکہ جب اسلامی فوجیں داخل ہوئیں تو ایک شخص نے جوش میں آکر کہا:

الیوم یوم اللحہ آج گھمسان کا دنہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یوں کہو الیوم یوم المرحمہ آج رحمت کا دن ہے۔ فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سرداروں کو بلایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو چند دن پہلے آپ کی جان کے دشمن رہ چکے تھے، جنہوں نے آپ کو بے آب و دانہ کر کے تین سال تک شہر کے بارہ پہاڑوں اور بیابانوںمیں رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آپ نے مکہ کے لوگوں سے پوچھا ’’تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’آپ ایک شریف انسان ہیں، آپ سے ہم کو شرافت ہی کی امید ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اچھا جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔

خدا کی حکومت میں صدارت کے بجائے خلافت کا طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا صدر بجائے خود حاکم نہیں ہے بلکہ خدا کے قانون کو زمینپر نافذ کرنے والا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی حکومت کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق منتخب ہوئے۔ خلیفہ کی حیثیت سے انہوں نے جو پہلی تقریر کی اس کے چند فقرے یہ ہیں۔

’’اے لوگو! میں تمہارا خلیفہ بنا دیا گیا ہوں۔ خدا کی قسم میں نے اس منصب کو کبھی آرزو نہیں کی۔ نہ رات میں اور نہ دن میں۔ میری دلی خواہش تھی کہ کاش میری جگہ اس بوجھ کو کوئی ایسا شخص اٹھاتا جو ہم میں سب سیز یادہ مضبو ہوتا۔ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں۔ تم میری اطاعت کرو، جب میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تمہارے اوپر میری اطاعت فرض نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد روتے ہوئے فرمایا:

’’اے لوگو! میں اس جگہ اس لیے نہیں مقرر کیا گیا ہوں کہ تم میں سے سے اونچا بن کر رہوں۔ میں تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ جب تم دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں تو میری پیروی کرو۔ اور اگر دیکھو کہ میں کج ہو گیا ہوں تو مجھے سیدھا کر دو‘‘۔
(ماہنامہ زندگی،جون،جولائی،2014ء)

 

مجلس اقبال
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی

علامہ اقبال انسان کی اصل حقیقت عرفان خودی کو بتاتے ہیں کہ جس انسان نے اپنی حقیقت اور اپنی اہمیت یعنی زمین پر اللہ کا نائب ہونے کو جان لیا اس نے کامیابیوں کی شاہ کلید حاصل کرلی۔ اسی چابی سے ہر مشکل سوال کا تالا کھل جائے گا۔ وہ نوجوانوں کو اپنی خودی پہچان کر اس کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان غریبی میں بھی شاہی کرسکتا ہے اگر اس نے اپنی خودی کو پہچان لیا۔ انہوں نے کہاکہ خودی کی حفاظت و نگہبانی کرکے انسان غریب رہ کر بھی بے نیاز زندگی کا لطف حاصل کرسکتا ہے۔ اسی کو غریبی میں شاہی قرار دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے جاوید کے نام سے خطاب میں ایک جگہ فرمایا: ’’میرا طریق امیری نیں فقیری ہے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔ خودی کی پہچان تو انسان کو مزاجاً بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنے آپ کو جھکاتا نہیں۔