حقوق نسواں اور عالمی یوم خواتین

دنیا بھر میں آٹھ مارچ ’’یوم خواتین‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں عورتوں کے حقوق کا شعور بیدار کرنا اور ان کی بازیابی کے لیے جدوجہد کا عزم ہے، پاکستان میں بھی یہ دن اب ایک روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر ہمارے یہاں ایک مخصوص طبقے نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تابع اسے حقوق نسواں کے حصول کی جدوجہد اور اس سے متعلق شعور کے فروغ سے زیادہ معاشرتی خصوصاً دینی اقدار سے بغاوت اور بے راہ روی پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا ہے چنانچہ ان کی تمام سرگرمیوں کا محور یہی ایجنڈا ہوتا ہے، اس مقصد کے لیے نت نئے نعرے ایجاد کر کے مختلف حربوں سے معاشرے میں فکری انتشار کو پروان چڑھایا جاتا ہے، عورت اور مرد جو زندگی کی گاڑی کے دو پہئے اور ایک دوسرے کے شریک حیات ہیں، دونوں کا تعاون ہی کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے اور اسی سے ہی زندگی خوش گوار رخ پر گامزن رہتی ہے مگر یہ طبقہ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے معاون کی بجائے مد مقابل کے طور پر متصادم اور متحارب فریقین کی حیثیت سے نمایاں کرنے پر اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے جس کا لازمی نتیجہ معاشرتی عدم توازن اور بے چینی کی صورت میں سامنے آتا ہے…!!!

اس طبقے کی یک رخی سوچ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران یا افغانستان وغیرہ جیسے مسلمان ممالک میں پردے کے شرعی حکم کی پابندی تو انہیں عورتوں پر ظلم نظر آتا ہے اور اس کے خلاف بہت بلند آہنگ پروپیگنڈہ اور احتجاج اس طبقہ کی طرف سے کیا جاتا ہے مگر فرانس، جرمنی اور کئی ایک دوسرے یورپی ممالک اور سیکولرزم کے دعوے دار بھارت جیسے ممالک میں مسلمان خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی بے حجاب کرنے کے قوانین اور ان پر عملدرآمد میں جبر میں انہیں بنیادی انسانی اور نسوانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی انہیں محسوس نہیں ہوتی، اس ظلم اور نا انصافی پر ان کی زبانیں خاموش ہی نہیں رہتیں بلکہ وہ بے وزن دلائل کے ذریعے ان کے لیے جواز تلاش کرتے اور ان کی وکالت کرتے بھی پائے جاتے ہیں جس سے ان کے مقاصد اور ایجنڈا واضح ہو جاتا ہے۔ اس یک رخے اور کھوکھلے پن کو آخر کیا نام دیا جائے…؟؟

مغربی سوچ و فکر کے پروردہ اس طبقے نے چند برس قبل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نیا نعرہ بلند کیا ہے مسلمان ہونے کا دعویدار یہ گروہ اس حقیقت کو نہ جانے کیوں فراموش کر دیتا ہے کہ جس جسم کے ’’میرا‘‘ ہونے اور اس پر ’’میری مرضی‘‘ چلانے پر انہیں اصرار ہے اس جسم کا ایک انچ ٹکرا بھی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق بنانے پر وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے، یہ خوبصورت ہے یا بد صورت، سالم ہے یا نا مکمل و ادھورا۔ اس میں ان ’’میرا‘‘ کے دعویداروں کی مرضی و رضا مندی کا کہیں کوئی دخل نہیں۔ ان کی پیدائش، کہاں، کب اور کیسے ہوئی اور موت و حیات کے تمام مراحل میں یہ قطعی بے بس ہیں اس کے باوجود خالق و مالک کی رضا پر راضی رہنے کی بجائے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ پر مصر ہیں… ان کا اصل ہدف اسلامی تعلیمات ہیں جو انسان کو زندگی، اللہ کی مرضی کے تابع گزارنے کا درس دیتی ہیں مگر یہ طبقہ ’’حقوق‘‘ کے نام پر اس سے بغاوت کی دعوت دیتا ہے…!!!
خواتین کو اسلام نے جو حقوق، عزت اور وقار عطا فرمایا ہے اس کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے، اسلام نے علم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل فرض قرار دیا اور عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، ہر ہر روپ میں اس وقت عظمت سے روشناس کرایا جب معاشرے میں عورت کی پیدائش ہی کو معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام کی تعلیمات کا بنیادی منبع قرآن حکیم، فرقان حمید ہے جس میں بار بار عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے، ’النسا‘‘ کے نام سے ایک پوری صورت خواتین کے حقوق سے متعلق نازل فرمائی گئی جب کہ اس کے علاوہ بھی بقرہ، النور، احزاب، المائدہ، الممتحنہ، الروم، التغابن، تحریم اور الطلاق سمیت کئی سورتوں میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ عطا فرمایا اور مردوں کو عورتوں کا مہر خوش دلی سے ادا کرنے کا حکم دیا، اس سے زیادہ عورت کی تعظیم اور عظمت کیا ہو گی کہ ’’ماں‘‘ کے روپ میں عورت کے قدموں تلے جنت جیسی بے مثال نعمت رکھ دی گئی اور حکم دیا گیا کہ بڑھاپے میں اس کے سامنے اف تک نہ کرو۔ آج کا ترقی یافتہ مغربی معاشرہ بھی عورتوں کے حقوق کی ایسی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے، ڈیڑھ ہزار برس قبل قرآن حکیم نے جس کا حکم دیا۔ سورۂ نساء کی آیات 19 اور20 میں ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو، جو تم انہیں دے چکے ہو۔ ہاں اگر وہ صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں۔ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خوا تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟‘‘ پھر اسی سورت میں جہاں مرد، کے عورت پر قوام ہونے کی ہدایت دی گئی ہے وہاں نہ صرف مرد کو عورت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ مزید حکم یہ بھی دیا گیا ہے کہ ’’خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘ عورت کی عزت، احترام اور وقار کی حفاظت کی ضامن ایسی ہی عظیم اور بے مثال تعلیمات سے قرآن و حدیث کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ جن پر عمل کر کے نہ صرف خواتین کے حقوق یقینی بنائے جا سکتے ہیں بلکہ معاشرہ بھی اخوت و محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق صاحب ایک عرصہ سے وراثت میں خواتین کا حصہ دلوانے کے لیے صوبائی و قومی اسمبلیوں، سینٹ اور دیگر ہر طرح کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں پر بہنوں، بیٹیوں اور دیگر حصہ دار خواتین میں وراثت تقسیم کرنے کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دینے کی تحریک چلائے ہوئے ہیں، خواتین کے حقوق کے علم برداروں کے لیے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ اس تحریک میں ان کے دست و بازو بنیں…!!!(حامد ریاض ڈوگر)