سانحہ مشرقی پاکستان

الطاف حسن قریشی صحافت کی دنیا کے جھومر ہیں۔ اسلام، پاکستان اور جمہوریت کے لیے ان کی لازوال خدمات کا تذکرہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ساری عمر بے تیغ سپاہی کی طرح لیلائے وطن کی چاہت میں کلمہ حق بلند کرتے رہے ہیں جو آج بھی اس پیرانہ سالی میں جاری وساری ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور کردار کی پختگی سے نسلوں کی ذہن سازی اور اسلامی اقدار کی آبیاری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے تمام بڑے بڑے لیڈروں سے بالمشافہ ملنے اور ان سے طویل انٹرویو لینے کا اعزاز رکھتے ہیں، مگر یہ درویش طبع عظیم المرتبت شخص کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوا۔ بار بار ایسا ہوا کہ حکمرانوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا، مگر وہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے نظریہ پاکستان اور سید مودودیؒ کے اسلامی نظریہ حیات کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ ہشت پہلو اور ہمہ صفت الطاف حسن قریشی کے قلم سے آج بھی حق وسچ کی صدا بلند ہورہی ہے۔

الطاف صاحب کی سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق دلسوز تحریروں کا مطالعہ ہر حساس دل انسان کو شدید کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔ دکھ، غم، پچھتاوے، اہلِ اقتدار کی بوالہوسی، مفادات کی جنگ میں وطنِ عزیز اور مظلوم و مقہور انسانوں کی تباہی و بربادی کی تصویرکشی اور مصنف کی اپنی بے بسی کا اظہار دل و دماغ میں ایسا طوفان برپا کردیتا ہے کہ اس کا الفاظ میں اظہار کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں ایسے ناسور اور غدار اِس وطنِ عزیز سے کب ختم ہوں گے، کون ختم کرے گا، کیسے کرے گا؟

حال ہی میں الطاف حسن قریشی کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ 1400 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ٹائٹل ہے ”مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا“۔ یہ اُن تحریروں کا مجموعہ ہے جو 1964ء سے 2000ء تک ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئیں۔ ان تحریروں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر الطاف حسن قریشی نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر اور خواص و عوام سے آزادانہ تبادلۂ خیال کرکے لکھی تھیں۔ ہمارا مشرقی بازو ہمارے تن سے کب جدا ہوا، کن حالات میں جدا ہوا، جدائی کے کیا اسباب تھے، اور ان اسباب کا تدارک کیوں نہ کیا جاسکا؟ اس کتاب میں قاری کو ان سب سوالوں کا تفصیلی جواب ملے گا۔ 1960ء کی ساری دہائی اور 1970ء کے اوائل میں مشرقی پاکستان میں حالات جب کوئی نئی کروٹ لیتے یا وہاں کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی تو قریشی صاحب بنفسِ نفیس ڈھاکہ جاتے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کئی کئی ہفتے قیام کرتے۔ صحافیوں، سیاست دانوں، طالب علموں اور دینی رہنماؤں سے ملتے اور سلگتے ہوئے مسائل کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کتاب میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کا یادگار مضمون ”میں کیسے بھول جاؤں“ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں شامی صاحب نے 18 جنوری 1970ء کی سہ پر پلٹن میدان ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کی روداد قلمبند کی تھی:

بدقسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میں کوئی بھی قابلِ ذکر اور قابلِ فخر فتح نہیں ہے۔ 16 دسمبر 1971ء میں ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کا واقعہ ہماری المناک تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے میری ایک دردناک یادداشت بن گئی ہے۔ مَیں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور دستخط کرنا زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ جوں جوں 16 دسمبر کا دن قریب آتا ہے میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، عقل و فہم کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے نہ کہ اس کو بھول کر وہی غلطیاں دہرائیں اور ذلت و رسوائی کا شکار ہوں۔ مجھے اپنی فوج کے دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کا افسوس تھا۔ دشمن نے ہمارے جنگی قیدیوں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک کیا وہ میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظِ اعلیٰ، صحافت کی دنیا کے لافانی کردار، اور تحریکِ پاکستان کے چشم دید گواہ محترم المقام الطاف حسن قریشی کی سقوطِ مشرقی پاکستان سے متعلق ہمہ گیر اور چشم کشا تحریروں کو ضخیم کتابی شکل دے کر جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس پر انہیں جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہو گا۔

قائد اعظم کا پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعدسلور جوبلی سے پہلے دولخت ہوکر قوم کو ایک عظیم صدمے سے دو چار کر گیا۔آج اس المیے کو پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ پاکستان توڑنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حالات کی سنگینی کو اس نہج پر پہنچانے میں غیر ملکی طاقتوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے بھارت کے ساتھ متحد ہوکر بنگالی عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان اور غیر بنگالیوں کے لیے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں کھلی بغاوت پر آمادہ کیا۔ کسی نے حقوق کی جنگ لڑی، تو کسی نے مفادات کی.. کوئی آزادی کا علَم بردار بنا، تو کوئی غداری کا مرتکب ہوا.. کوئی منظر پر رہا توکسی نے پسِ منظر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی اورذلت آمیزشکست وریخت میں ان تمام کرداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔مسلم بنگال سے پاکستان، پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ؟ ان حقائق کو سمجھنے کے لیے ہمیں ملکی سیاسی تاریخ کے اُن گوشوں پر نظر ڈالنا ہوگی جو بنگالی عوام کے دلوں میں احساسِ محرومی پیدا کرنے کا موجب بنے اور بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بنگالیوں نے غیر ملکی حمایت سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بظاہر تو جمہوری حکومتیں ہیں لیکن دونوں ممالک میں 1971ء سے متعلق پورا سچ بولنا اور لکھنا بہت مشکل ہے۔ بہت سے حقائق پاکستان میں نئی نسل سے چھپائے جاتے ہیں اور 50 سال بعد بھی سقوطِ ڈھاکا پر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی کچھ افسانوں کو تاریخ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت اور افسانے میں فرق سامنے آ رہا ہے۔حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے جو برائیاں جنم لیتی ہیں، وہ فوج کو زنگ لگا دیتی ہیں اور فوج لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے 50 سال بعد پاکستان کے حکمران طبقے کو یہ رپورٹ ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ 1971ء میں پاکستان پر اعلانیہ مارشل لا نافذ تھا۔ آج پاکستان پر غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے۔

1971ء میں خفیہ ادارے پاکستانیوں کو لاپتا کررہے تھے، آج بھی وہی کچھ ہورہا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کھو دیا گیا، اور آج بہت سے پاکستانیوں کے خیال میں کشمیر کھو دیا گیا ہے۔ 16 دسمبر سے سبق نہ سیکھا گیا تو خدانخواستہ پاکستان مزید نقصان اٹھا سکتا ہے، کیونکہ آج تک پاکستان میں کسی جنرل یحییٰ یا کسی جنرل نیازی کا احتساب نہیں ہوا۔

”محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو“