ـ8 مارچ عالمی یوم خواتین… تاریخی حقائق

تاریخی اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حصول اور اُن سے کیے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف سب سے پہلی جدوجہد امریکہ میں کی گئی تھی جہاں پر گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والی مظلوم و لاچار خواتین نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، صنفی امتیاز اور ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کرکے استحصالی قوتوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی، جس کے بعد خواتین کے حقوق اور صنفی امتیازات کے خاتمے کے لیے امریکن سوشلسٹ پارٹی نے اِن مزدور خواتین اور معاشرے کی تمام ہی پسماندہ اور مشکلات میں گھری ہوئی خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے پہلی مرتبہ پورے امریکہ میں 28 فروری 1909ء کو ’’خواتین کا دن‘‘ بڑے اہتمام سے منایا، جو کہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے منایا جانے والا پہلا دن اور پہلا واقعہ تھا۔ بعدازاں سوویت یونین میں بھی روسی خواتین نے 1917ء میں فروری کے آخری اتوار کو جبر و استحصال، صنفی امتیازات، ہراسانی اور سخت نامساعد حالات و عدم مساوات کے خلاف ہڑتال اور احتجاج کا سہارا لیا۔ ان مظلوم خواتین کا نعرہ تھا کہ انہیں ’’Bread & Peace‘‘ یعنی امن و تحفظ اور سلامتی کے ساتھ عزت کی روٹی ملنی چاہیے۔ امریکہ اور سوویت یونین میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے لیے بلند ہونے والی اِن آوازوں کے بعد بتدریج خواتین کے خلاف امتیازی سلوک و عدم مساوات اور جبر و استحصال کے خاتمے کے لیے شعور و آگہی کی کرنیں پھیلتی چلی گئیں، یہاں تک کہ 1945ء میں عالمی ادارے اقوام متحدہ کی تشکیل کے وقت ہی اس کے آئین میں خواتین کے حقوق و مساوات اور سلامتی کے تحفظ و بندوبست کو تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ طور سے آئین میں شامل کرلیا گیا۔

بعدازاں اقوام متحدہ کی جانب سے باضابطہ طور پر 1975ء میں ’’انٹرنیشنل وومن ڈے‘‘ یعنی ’’خواتین کا عالمی دن‘‘ 8 مارچ کو منانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بعد سے ہر سال 8 مارچ کو ساری دنیا کے ممالک متفقہ طور پر بھرپور جوش و جذبے سے یہ دن منایا کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ دن یعنی 8 مارچ دنیا بھر میں خواتین کے غیر معمولی متحرک و فعال اور تعمیری و مثبت کردار کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف خراج تحسین پیش کرتا ہے بلکہ اُن کے خلاف ہر طرح کے ظلم وناانصافی، جبر و تشدد اور صنفی امتیازات کے خاتمے کے لیے مزید جدوجہد اور عزم و ارادے کے عہد کا بھی اعادہ کرتا ہے۔

اگر اس حوالے سے پاکستانی خواتین کی حالتِ زار پر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر عیاں ہوجاتا ہے کہ پاکستان یا پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کی اکثریت استحصال و ناانصافی، جبروتشدد، عدم مساوات اور صنفی امتیازات کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسائل محض خواتین ہی بھگت رہی ہیں؟ کیا مردوں، بچوں اور ضعیفوں کے حالات شاندار ہیں؟ کیا خواتین کے سوا دیگر تمام افراد و طبقات کو ان مسائل سے مکمل تحفظ حاصل ہے؟ کیا یہ معاشرہ واقعی محض مردوں کا معاشرہ ہے؟اگر دیانت داری سے اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نہ تو مردوں کا معاشرہ ہے اور نہ ہی مغربی دنیا کی طرح عورتوں کا معاشرہ۔ ہمارے معاشرے میں حقیقتاً بالادستی و کنٹرول طاقتوروں، صاحبانِ اقتدار اور اشرافیہ کو حاصل ہے۔ یہاں عدل و انصاف اور حقوق و فرائض کی ادائیگی جب تک دیانت داری سے نافذ و اختیار نہیں کی جاتی ہر ظالم، طاقتور اور بااثر فرد خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنے سے کمزور فریق کا استحصال کرتا رہے گا۔ نہ صرف ہمارے ملک بلکہ ہمارے جیسے ممالک میں درحقیقت جنگل کا قانون نافذ ہے، یہاں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا محاورہ کمال ڈھٹائی سے معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کرچکا ہے۔

8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے پاکستانی خواتین کی جانب سے جس دلچسپی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا جارہا ہے وہ یقینا قابلِ تحسین ہے۔ لیکن حالیہ کچھ برسوں میں خواتین کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے حوالے سے بعض غیر مناسب اور متنازع سلوگنز، نعرے اور جذبات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں سرفہرست نعرہ ہے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ اگرچہ اس نعرے کی وکالت کرنا اُن خواتین کے لیے تو زیادہ دشوار نہ ہوگا جو یہ نعرہ بلند کرتی رہی ہیں، لیکن ہمارے لیے اس کا مفہوم طے کرنے کے لیے کسی خاص دلیل اور منطق کا سہارا لینا مناسب نہیں۔ کیوں کہ اس نعرے کا عام فہم سادہ مفہوم نامناسب اور غیر شرعی محسوس ہوتا ہے، بلکہ اگر ہم اسے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے بجائے ’’میرا وجود میری مرضی‘‘ سے بدل دیں تو یہ قدرے بہتر اور غیر متنازع ہوسکتا ہے۔

ہاں البتہ یہ نکتہ ضرور اور ہمیشہ مدنظر رہے کہ نہ صرف میرا وجود، آپ کا وجود بلکہ ہر مسلمان کا وجود اُس کی اپنی مرضی یعنی اُس

کے نفس کے ہرگز ہرگز تابع نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ہر مسلمان کا وجود اللہ اور اُس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین کے تابع ہے۔ یعنی قرآن و سنت کی تابع داری و بجا آوری ہی ہمارا مقصدِ حیات ہے۔ ہمیں اپنے جسم و جان، دل و دماغ اور قوت و صلاحیت کو اپنی مرضی اور خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل میں ہرگز ہرگز ضائع نہیں کرنا۔
اگر ہم مکمل دیانت داری اور اخلاصِ نیت سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے بن جائیں تو نہ صرف ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں بلکہ تمام کمزور، بے بس و لاچار اور مظلوم نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی ان تمام مشکلات و مصائب اور جبر و استحصال سے چھٹکارا حاصل کرکے ساری دنیا کے سامنے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا شاندار و بے مثال عملی نمونہ پیش کرسکتے ہیں۔