اقوام متحدہ اور کشمیر

جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کی اہم رپورٹ

جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق معروف کشمیری راہنما ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی سربراہی میں کام کرنے والی تنظیم ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالمی کمیشن میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کی قانونی بنیادوں کا مقدمہ بھی پیش کرتی چلی آرہی ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف کشمیر کے حریت پسندوں کو اپنی بات عالمی اداروں تک پہنچانے کے لیے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرتی رہی ہے بلکہ فلسطینی نمائندوں کے لیے بھی اپنا پلیٹ فارم وقف کرتی رہی ہے۔ یہ تنظیم اقوام متحدہ کے ذمہ داروں کو مسلسل یاددہانی کراتی رہی ہے کہ ان کی فائلوں میں کشمیر نام کا ایک مسئلہ موجود ہے جس کا اُلجھائو اور طویل ہوجانا جنوبی ایشیا کے لیے مستقل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ اس مسئلے کو اونر شپ دے کر آگے بڑھنے کا سامان کرے۔ یہ مسلسل یاددہانیاں ہوائوں میں تحلیل نہیں ہوتیں بلکہ عالمی ادارے کے ریکارڈ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔

یہ رپورٹ فروری کے مہینے میں سامنے آئی، اور یہ وہ مہینہ ہے جس کی یادیں کشمیریوں کی لوح ِ حافظہ کے ساتھ چپک کر رہ گئی ہیں جب کپواڑہ کے کنن پوش پورہ گائوں میں بھارتی فوجیوں نے کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی تھی جن میں آٹھ سے اسّی سالہ خواتین شامل تھیں۔ جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کی 182 صفحات پر مشتمل اس جامع رپورٹ کا عنوان ہے ’’بھارت کا پانچ اگست 2019ء کا اقدام۔ کشمیر مقدمے کی قانونی حیثیت‘‘۔ اس رپورٹ میں کشمیر کے تنازعے کی ابتدا، اس مسئلے کا اقوام متحدہ کی میز تک پہنچنا، اور پھر اس پر عالمی ادارے میں ہونے والی کارروائی کا مفصل ریکارڈ موجود ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ محض قراردادیں پاس کرکے خوابِ خوگوش میں نہیں چلا گیا بلکہ عالمی ادارے نے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے عملی اقدامات کا آغاز بھی کیا تھا جن میں سب سے اہم نکتہ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کا تقرر تھا۔ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات اُٹھانا اور راہ ہموار کرنا تھا۔گویا کہ اقوام متحدہ نے قراردادوں کی رسمی کارروائی ہی نہیں کی بلکہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے ایک قدم آگے بھی بڑھایا… اور چونکہ یہ پراسیس طویل ہورہا تھا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا انتظام چلانے کے لیے کسی قوت کا موجود ہونا ضروری تھا اس لیے اقوام متحدہ نے حکومتِ پاکستان کو عارضی طور پر خطے کے انتظام و انصرام کی اجازت دی تھی، اور پاکستان نے بھی یہ نظام الل ٹپ نہیں بلکہ آزادکشمیر حکومت اور انتظامیہ کے سربراہ سردار محمد ابراہیم خان اورسپریم ہیڈ چودھری غلام عباس کے ساتھ معاہدے کے تحت سنبھالا تھا۔ اس طرح بھارت ایک ایسے مسئلے کی بساط یک طرفہ طور پر لپیٹ نہیں سکتا تھا جو اقوام متحدہ میں مسلمہ طور پر متنازع ہے اور زیرِکار ہے۔

اس بات کو دیکھیں تو حکومتِ پاکستان اور آزاد کشمیر کا تعلق اقوام متحدہ نے قائم کیا ہے، اور حکومتِ پاکستان آزادکشمیر کا یہ انتظام و انصرام اقوام متحدہ کے اختیارات کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق عارضی اور مشروط تھا جو صرف تین شعبوں دفاع، مواصلات اور خارجہ امور تک محدود تھا۔ باقی داخلی طور پر ریاست آزاد اور امورِ مملکت چلانے کی حق دار اور اہل تھی۔ کشمیر کے صدرِ ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور شیخ عبداللہ بھی ہمیشہ یہی کہتے رہے۔ شیخ عبداللہ نے بھارتی قیادت کو یہی باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مہاراجا کا الحاق عارضی ہے اور اب کشمیر کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں، اس پر پنڈت نہرو کی حکومت نے انہیں وزیراعظم کشمیر کے منصب سے ہٹاکر جیل میں ڈال دیا، اور اس کے بعد کشمیر کی خصوصی شناخت کو بدلنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کا آغاز ہوگیا جس پر اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے اپنی رائے ظاہر کرتے رہے۔ گویا کہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے قدم اقوام متحدہ نے ایک مخصوص مقام پر منجمد کردیے تھے۔کوئی ایک فریق اس ’اسٹیٹس کو‘ کو توڑ نہیں سکتا تھا۔ یوں بھارت نے پانچ اگست کا یک طرفہ قدم اُٹھاکر عالمی ادارے، قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جہاں سے عالمی سطح پر بھارت کے گرد شکنجہ کسا جا سکتا ہے۔

جموں وکشمیر کونسل نے بھارتی قدم کو غیر قانونی، اور بین الاقوامی ادارے اور قوانین کے خلاف ثابت کرنے کے لیے تاریخی مواد مہیا کردیا ہے۔ اب یہاں سے حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے کہ وہ ایک ریاست کے طور پر بھارت کے اقدامات کو ہر عالمی فورم پر چیلنج کرے۔ بدلے ہوئے حالات میں یہ کام آسان ہوگیا ہے۔ نائن الیون کے بعد مغرب میں جو ماحول بنا اُس نے کشمیر کے مسئلے کے قانونی اور انسانی پہلو کو بھی ردعمل کا شکار بناکر قالین تلے دبادیا تھا۔ مغربی ممالک کے اعصاب پر ’’دہشت گردی‘‘کا بھوت سوار ہوگیا تھا اور انہیں ہر وہ جگہ جہاں پٹاخہ بھی پھٹ رہا تھا، دہشت گردوں کی آماج گاہ نظر آتی تھی۔ دو دہائیوں تک کشمیر کا مسئلہ بھی اس خوف اور نفسیاتی کیفیت کی نذر رہا اور بھارت نے اس صورتِ حال سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ یوکرین کی جنگ کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت مغرب کی توقعات پر پوری طرح اُترتا نظر نہیں آتا جس کے بعد سے بھارت پر مغرب کی مہربانیاں کچھ کم ہونے لگی ہیں۔ مغربی میڈیا میں بھارت کی پالیسیوں پر تنقید ہونے لگی ہے۔

اس صورتِ حال میں حکومتِ پاکستان اپنی تمام صلاحیتوںکو مجتمع کرکے کشمیر کیس کے لیے وہ اسپیس دوبارہ حاصل کرسکتی ہے جو نائن الیون کے بعد بتدریج کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کی یہ رپورٹ پاکستان کی بکھری اور غیر منظم کشمیر پالیسی کی شیرازہ بندی کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر اس بنیاد پر کشمیر کیس کو منظم انداز میں عالمی اداروں میں پیش کیا جائے تو پانچ اگست کا اقدام بھارت کے گلے پڑ سکتا ہے کہ اس نے کس طرح عالمی ادارے کے زیرِکار مسئلے کی نوعیت یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے! بات آگے بڑھے تو بھارت پر پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں اور عالمی ادارہ اس فیصلے کو ریورس کرنے کا دوٹوک حکم بھی دے سکتا ہے۔ یہ ریاست پاکستان کی اہلیت کا امتحان ہے کہ وہ بھارت اور مغرب میں پیدا ہونے والی دراڑ میں کس طرح کشمیر کے لیے گنجائش پیدا کرتی ہے۔