ایک انوکھا سوال آیا ہے۔ سوال کنندہ مشہور ماہر ابلاغیات ہونے کے باوجود ہمارے دوست ہیں۔ مزید نام و نمود نہیں چاہتے۔ سو اس کالم کے قارئین میں اپنی شہرت (یا رُسوائی) کرنے سے منع فرماتے ہوئے ایک بزرگ خاتون کی گفتگو کا ’بصریہ‘ ارسال فرمایا ہے:
’’اپنے کالم میں اس قضیے کو نمٹا ہی دیجیے کہ کیا زبان کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟‘‘
سوال سنتے ہی ہم نے بھی ایک قضیہ کھڑا کردیا:
’’کیا ہمارے کالم کے موضوعات سے اس سوال کی کوئی مطابقت ہے؟‘‘
حضرت نے قاضی بن کر دو ہی فقروں میں سارا قضیہ نمٹا دیا:
’’آپ کے کالم کا موضوع ’اصلاحِ زبان‘ ہے اور سوال زبان کے متعلق ہے‘‘۔
یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ زبان کے متعلق اہلِ زبان کہتے ہیں کہ باہمی رابطے کا ذریعہ ہے۔ اسی ذریعے سے انسان اپنی معلومات، اپنے جذبات، اپنے احساسات، اپنے خیالات اور اپنے نظریات دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ منہ میں زبان تو دیگر جان داروں کے بھی ہوتی ہے، مگر ’حیوانِ ناطق‘انسان ہی کہلاتا ہے۔ انسان نے اپنے نطق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ کی صورت دی۔ مختلف زبانیں تخلیق ہوئیں۔ انسانی تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ زبانوں میں بھی ارتقا ہوا۔ نئی نئی زبانیں پیدا ہوگئیں۔ بہت سی قدیم زبانیں ناپید ہوگئیں۔
مشہور اُردو داں خاتون کے متعلق کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا کہ ’مذہب‘ کے معنی جانے بغیر ہی اُنھوں نے بے سوچے سمجھے یہ لفظ استعمال کرلیا ہوگا۔ اردو زبان میں بکثرت استعمال ہونے والا لفظ ’مذہب‘ عربی سے آیا ہے۔ اردو الفاظ پر ’عرب سامراج‘ کے تسلط کا طنز کرنے والی بزرگ خاتون اپنی شعوری کوشش کے باوجود عربی زبان سے جان چھڑا کر اُردو نہیں بول پائیں گی۔ اب یہی دیکھ لیجے کہ اُن کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ’مذہب‘ عربی کے ’’ذَھَبَ یَذْ ھبُ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے چلنا، جانا، گزر جانا۔ چلنے کی جگہ کو بالکل اسی طرح ’مذہب‘ کہا جاتا ہے جیسے قتل ہونے کی جگہ کو مقتل کہا جاتا ہے۔ چلنے ہی کی جگہ کو اردو میں راستہ، روش یا جادہ بھی کہا جاتا ہے۔ کوئی شخص اپنی زندگی گزارنے کے لیے جو روش اختیار کرتا ہے، زندگی بسر کرنے کو جس راہ، جس رستے یا جس جادے پر چلتا ہے اُسے اصطلاحاً ’مذہب‘ کہا جاتا ہے، راہ، روش، رستہ اور جادہ ان معنوں میں اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ جینے کے چلن یا طور طریقے کے لیے اردو میں ’مذہب‘ کا لفظ خوب استعمال ہوا ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
مذہبِ عشق اختیار کیا
’مذہب‘ کے اصطلاحی معنوں میں عقیدہ، مسلک، دھرم اور عبادت یا پوجا پاٹھ کے طور طریقے، رسم و رواج سب آجاتے ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی روش، کوئی نہ کوئی راستہ یا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور اختیار کرتا ہے۔ کوئی رہ سکتا ہے دنیا میں اَچھوتا کیسے؟ اسی روش، راستے یا طریقے کواُس کا ’مذہب‘ کہا جاتا ہے۔کچھ لوگ ’لامذہبیت‘ کے کٹر مذہب پر عمر بھر عمل پیرا رہتے ہیں اور اس زعم میں رہتے ہیں کہ وہ کسی مذہب کے مقلد نہیں۔ حالاں کہ مذہب پرچلنے سے انکار کردینا بھی بہت قدیم مذہب ہے۔
زبان کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا نہیں؟یہ طے کرنے کے لیے پہلے ہمیں جاننا پڑے گا کہ کیاکسی طریقے، کسی دستور، کسی قاعدے یا کسی اصول اور کسی ضابطے پر چلے بغیر کوئی زبان چل سکتی ہے؟ اگر ’زبان کے مذہب‘ سے مراد اُس زبان کا عقیدہ، مسلک، دھرم اور عبادت یا پوجا پاٹھ کے طور طریقے ہیں تو اس متنازع موضوع پر بات کرنے سے پہلے کیوں نا ایک متفقہ موضوع پر بات کرلی جائے۔ وہ یہ کہ زبان کا کوئی مذہب ہو یا نہ ہو، ہر مذہب کی اپنی کوئی نہ کوئی بنیادی زبان تو ضرور ہوتی ہے۔ وہی زبان اُس مذہب کی ’سرکاری زبان‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور اُس زبان پر متعلقہ مذہب کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض زبانوں کے نام لیجے تو اُن سے وابستہ مذاہب معلوم کرنے کے لیے کسی تحقیق یا کسی رائے شماری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً سنسکرت، عبرانی، ژند یا عربی۔
ہر مذہب کی چند شناختی علامات ہوتی ہیں۔ ان علامتوں سے آپ جان لیتے ہیں کہ کوئی شخص یہودی ہے، مسیحی ہے، ہندو ہے، سکھ ہے یا دہریہ۔ سو، اس عاجز کی یہ ذاتی رائے ہے، جو ضروری نہیں کہ غلط ہو۔ ہر زبان پر اس کے بولنے والوں کے عقاید کی پختہ چھاپ ہوتی ہے، جو مٹائے نہیں مٹتی۔ عقاید ہی کی نہیں، ہر زبان پر متعلقہ زبان بولنے والوں کی تہذیب، تمدن اور ثقافت کے بھی اَن مِٹ نقوش ثبت رہتے ہیں۔ بالفرض اگر ہم مان لیں کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو یہ مان لینے میں بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ زبان کی کوئی تہذیب ہوتی ہے نہ تمدن ہوتا ہے نہ ثقافت۔
یوں تو ہر زبان کے بولنے والوں میں مختلف المذاہب لوگ مل جاتے ہیں۔ لیکن ہر زبان کی اصطلاحات، تراکیب، محاوروں اور روزمرہ گفتگو پر آپ کو اہلِ زبان کی اکثریت کے مذہبی عقاید غالب نظر آئیں گے۔ ہندی محاورہ ’’جنم جنم کا ساتھ‘‘ ہو یا انگریزی اصطلاح “Crucify” ہو(بمعنی: بے رحمی کا برتاؤ کرنا) یا اُردو ترکیب ’’عاقبت اندیشی‘‘، سب کے پس منظر میں ایک مذہبی عقیدہ موجود ہے۔
کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ مختلف زبانوںکے الفاظ، تراکیب، اصطلاحات اور روزمرہ سے مثالیں لے کر ان کا مذہبی مفہوم بیان کیا جائے۔ پس ہم سے یہ توقع نہ رکھیے کہ ابھی ہم قلم کا لٹھ لے کر ان زبانوں کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور انھیں ان کی عبادت گاہوں تک دوڑائے لیے چلے جائیں گے۔ یہ تو ایک ضخیم تحقیقی کتاب کا موضوع ہے، اور نہایت دلچسپ ہے۔ چناں چہ درخواست ہے رابغ (سعودی عرب) والے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب سے کہ اس موضوع پر اپنا لٹھ اُٹھائیں اور اس قضیے کو نمٹائیں۔
وطنِ عزیز پاکستان کی قومی زبان اور عوامی رابطے کی زبان اُردو ہے۔ پاکستانی اُردو کے محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرہ گفتگو پر بھی پاکستان کی اکثریت کے عقاید کا اثر ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ہندو، مسیحی اور سکھ بھائی جب اُردو بولتے ہیں تو ’’اللہ نے چاہا… دُعا کیجیے… بھلا کون سی قیامت آگئی؟… اور آج مغرب کے بعد آؤں گا‘‘ جیسے فقرے ہی نہیں ’’السلام علیکم، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ، شکر الحمدللہ اور خدا حافظ‘‘ جیسے کلمات بھی بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں۔
خدا جانے لطیفہ ہے یا حقیقہ، مگر سنا ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر سیہون شریف سے ہمارے ایک نوجوان ہندو بھائی گنگا اشنان کرنے بھارت پہنچے۔ اشنان گھاٹ پر جا کر لنگر لنگوٹ کسا اور ’’یاعلی‘‘ کا نعرہ لگا کر گنگا جل میں کود گئے۔ وہاں تو ہاہا کار مچ گئی:
’’ہائے ہائے مُسلے نے سارا جل بھرشٹ کردیا۔اب پورے پانی کو دھو کر پوتر کرنا پڑے گا‘‘۔
کسی نے کہا: ’’پہلے مُسلے کو تو باہر نکالو‘‘۔
لڑکے کو پکڑ دھکڑ کر ننگ دھڑنگ باہر نکالا گیا تو سب نے چپتیانا شروع کردیا:
’’ارے مُسلے! تجھے ہمت کیسے ہوئی کہ مُسلوں کا اشلوک جپ کر گنگا میّا میں کود پڑے؟‘‘
لڑکے نے تھپڑوںکی برسات، بلکہ ہجوم کے ’تھپڑاؤ‘ سے بچتے ہوئے جھکائی دے دے کر اور چلاّ چلاّ کر فریاد کرنا شروع کردی:
’’ایمان سے مُسلا نہیں ہوں۔ قسم سے ہندو ہوں۔ قرآن کی قسم میں ہندو ہوں‘‘۔