پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر”گفتار میں ،کردار میں اللہ کی بُرہان“

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہرؒ پروفیشنل قاری نہ تھے،مگر علمی و ادبی اور تعلیمی حلقوں میں کوئی بھی انہیں نہ پروفیسر کہتا،نہ ڈاکٹر..کیونکہ دوست،احباب اور طلبہ سب انہیں خادمِ قرآن ہی سمجھتے۔
مثل: ”قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن“

قاری صاحب نے کبھی اظہار کیا، نہ اصرار کہ انہیں پروفیسر یا ڈاکٹر کے لاحقے سے موسوم کیا جائے۔

سہارن پور انڈیا کے علاقے بیہٹ کے علمی گھرانے سے تعلق اور مظاہرالعلوم سہارنپور کے فیض یافتہ والد محترم محمد ظریف مرحوم کے چشم و چراغ محمد طاہر بہت چھوٹی عمر میں پاکستان ہجرت کرکے پہنچے۔ راستے کی صعوبتیں بھی سہیں اور خون کا دریا عبور اور بھوک کی سختی برداشت کرکے پاکستان آئے۔ زندگی کا بیشتر حصہ فیصل آباد میں گزارا اور یہیں نشیب و فرازِ حیات طے کیے۔ تخلیقِ پاکستان کے مراحل، علماء کے کردار اور اثرات پر ان کی نظر گہری، مطالعہ و مشاہدہ ٹھوس اور نتیجہ خیزی کی صلاحیت سے وہ کمال کی حد تک متصف تھے۔

قاری طاہر صاحب 21 اپریل 1943ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ والد قاری محمد ظریف عالمِ دین اور فنِ قرأت کے ماہر تھے۔سوا چار سال کی عمر میں پاکستان ہجرت کی اور مشکلات و مصائب کا سامنا کیا۔پاکستان میں فیصل آباد اس خاندان کا مسکن ٹھیرا۔

ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی اور چچا محمد شریف سے حاصل کی۔ ابتدائی کتب اور درس نظامی کے لیے جامعہ اشاعت العلوم فیصل آباد، تجوید و قرأت کے لیے قاری اظہار احمد تھانوی کے لاہور میں واقع مدرسے کا رخ کیا۔ تکمیل بخاری اور سماعتِ حدیث کے لیے 1962ء میں دارالعلوم دیوبند گئے، جہاں مفتی محمد طیب اور دیگر کِبار اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ درس نظامی بھی مکمل کیا۔ عصری تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے ایم اے اسلامیات اور عربی، بعد ازاں تجوید و قرأت میں پی ایچ ڈی کی۔ عربی زبان کی تعلیم اور مہارت کے حصول کے لیے 1987ء میں سرکاری طور پر ریاض یونیورسٹی سعودی عرب تشریف لے گئے۔

کبار اساتذہ مفتی محمد یونس، مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل، علامہ علا الدین صدیقی، پروفیسر اسلم ملک، سرسید کے نواسے عابد احمد علی، ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی، علامہ عبدالعزیز میمن، پروفیسرعبدالصمد صارم الازہری، پروفیسر صوفی ضیاء الحق سے پڑھے۔

تعلیمی سفر کی کامیابیوں کو ان اساتذہ اور ماں باپ کا فیضانِ نظر اورمکتب کی کرامت قرار دیتے رہے۔

میری ناقص رائے میں یہ ان کے پاکیزہ فکر و عمل کی شخصی اور فطرتی کشش اور مقناطیسی قوت تھی جس نے انہیں قرآن، اس کی تعلیم و تفہیم،تجوید و قرأت، اور تحفیظ کے ساتھ تفسیر کے علمی پہلوؤں سے مربوط کردیا۔ اس سے کہیں بڑھ کر یقیناً یہ اللہ کا خاص فضل و احسان تھا کہ انہیں خدمتِ قرآن کے سلسلوں سے منسلک اور اس کے راستوں کا مسافر بنادیا۔

ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
قاری صاحب نے علوم اسلامیہ کی تدریس و تحقیق کو پیشے کے طور پر اختیار کیا۔1967ء میں لیکچرر منتخب ہوئے۔ کامرس کالج گوجر خان اور گورنمنٹ کالج جھنگ کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں متعین ہوئے، جہاں ریٹائرمنٹ تک ایم اے کے طلبہ وطالبات کو پڑھایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمدرد یونیورسٹی، این ایف سی یونیورسٹی، رفاہ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تحقیقی و تدریسی خدمات سرانجام دیں۔

لوگ انہیں قاری اور خادم ِقرآن کی حیثیت سے جانتے اور پکارتے تھے،مگر مجھ کج فہم کی نظر میں..کہ کوتاہ نظر نہیں میں..وہ اپنی دلکش،پاکیزہ اور مبنی بر حق و صداقت گفتار اور تَن اور مَن کی طرح اجلے کردار کی بنیاد پر بلاشبہ اللہ کی برہان تھے۔

ہمارا معاشرتی اور نفسیاتی قضیہ یہ کہ ہم لوگوں کو ہمیشہ اپنی میلی یا محدود نظر سے دیکھتے اور اپنے خود ساختہ پیمانوں کے باٹوں اور سانچوں میں جانچتے ہیں۔یہ بھی ہوتا ہے کہ شخصیت کے ہمہ پہلو احاطےاور جائزے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے محض کسی ایک ظاہری پہلو کو ہی اس کی شخصیت کا جوہر قرار دے بیٹھتے ہیں۔

بعینہٖ چھوٹے سے قد والے قاری محمد طاہر مرحوم کو کچھ نے ”مولوی“ سمجھ لیا، کچھ نے ”قاری“ اور کچھ نے ”ٹیچر“.. اور غضب کیا اس ریڑھی والے نے جس نے انہیں ”ردی والا“ قرار دیا۔ جب وہ ان کے گھر کی شفٹنگ کے وقت کتابیں ڈھو ڈھو کر تھک گیا تو بالآخر پوچھ ہی بیٹھا کہ گھر میں کچھ اور سامان بھی ہے یا ردی ہی جمع کررکھی ہے؟ اور یہ کہ کیا آپ ”ردی دا کم کردے او“؟

بندر کیا جانے ادرک کا سواد.. اسے کیا خبر کہ یہ شخص ”ردی والا“ نہیں، یہ تو فنا فی القرآن، خادم قرآن ہے.. جس سے بہتر نہ کوئی شخصیت ہے، نہ منصب، اور نہ باعثِ فخر مقصدِ حیات۔

خیرُکم من تعلّم القرآن وعلّمہ۔۔

قاری طاہر صاحب نے یہ ردی والا واقعہ کئی بار بزبانِ خود مزے لے لے کر سنایا۔ وہ ایک بڑے انسان تھے، خادمِ قرآن تھے،اس لیے انہوں نے نام بھی بڑا کمایا۔

درس و تدریس، خدمتِ قرآن، بالخصوص تجوید و قرأت، ادب اور صحافت سب میدانوں میں تقریر بھی باکمال تھی اور تحریر بھی۔

انہیں جب دیکھا یا سنا، یا ملاقات کا شرف حاصل ہوا،اہلِ علم میں گِھرا اور علمی موضوعات پر ہی گفتگو کرتے پایا۔ اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کے باعث وہ شمع محفل ہوتے۔ان کے فقروں، جملوں اور فکاہیہ نکات پر خوب قہقہے گونجتے اور سامعین و شرکائے مجلس محظوظ ہوتے۔

میں نے انہیں ہمیشہ علمی گفتگو ہی کرتے سنا۔ کاروباری معاملات، استاد کے پیشہ ورانہ امور یا شخصی تنقیص کو انہوں نے موضوع گفتگو کبھی نہیں بنایا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے اور مجالس میں اکٹھے گفتگو کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ میں ہمیشہ ان کی علمی، ادبی اور فکری شخصیت کے سامنے مرعوب ہی رہا اور بدقت تمام کلام کرپاتا۔

قاری صاحب سے کب تعارف ہوا اور کب میں ان کی محبت کے جال میں گرفتار ہوا، یہ یاد نہیں۔ اندازہ ہے کہ 1987ء کے اواخر میں جب میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد آیا، تو شعبہ عربی واسلامیات آمنے سامنے ہونے کے باعث اور ان کی تقریباً روز ہی زیارت اور اکثر ان کی شعبہ عربی میں تشریف آوری کے سبب ان کی شخصیت کے سحر سے بچ نہ پایا۔

مجھے ہمیشہ ان کی سرپرستانہ رفاقت اور دوستانہ تعلق پر فخر رہا، ان کے ساتھ بات کرتے کبھی کوئی تحفظ ہوا، نہ حجاب۔ میں اکثر بے باکی اور اختلافِ رائے کی جرأت بھی کر بیٹھتا، مگر محترم قاری صاحب نہ صرف اسے برداشت کرتے بلکہ حسبِ حال اختلاف بھی فرماتے اور اتفاق بھی کرتے۔ وہ دل کے صاف اور من کے سچے تھے، مجھے نہیں یاد انہوں نے کبھی ماضی قریب و بعید کے کسی ناخوشگوار اختلاف کا دوبارہ ذکر یا بغض کا اظہار کیا ہو۔ اگرچہ میری نہ اوقات تھی نہ مقام کہ مجھے اتنی اہمیت دی جاتی، تاہم ان کے رویّے اور سالہا سال کے تعامل سے مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں مدد ملی۔

میں نے ہمیشہ اپنے لیے ان کی شفقت و محبت اور خاص عنایت کا رویہ ہی پایا۔ ملاقات ہو یا فون پر بات، مجھے یہ حق حاصل تھا کہ ہلکی پھلکی نوک جھونک اور فقرے بازی کرسکوں، وہ اس کا جواب بھی دیتے اور لطف بھی اٹھاتے۔ ان کے ساتھ میری آخری شرارت دو سال قبل پریس کلب فیصل آباد کے ایک سیمینار میں ہوئی، جو مولانا مجاہد الحسینی کی یاد میں منعقد ہوا۔ مجھے بھی اس میں مختصر گفتگو کا موقع ملا، قاری صاحب اس کے خاص مقررین میں شامل تھے۔ انہوں نے قدرے دقت سے گفتگو کی، مگر موضوع سے ہٹ کر۔ پروگرام کے بعد میں اور ڈاکٹر زاہد اشرف قاری صاحب کے ساتھ اسٹیج سے متصل علیک سلیک کرنے لگے۔ قاری صاحب فرمانے لگے ”اب مجھ سے بات مشکل سے ہوتی ہے“۔ میں مسکرا دیا۔ کہنے لگے ”کہہ دو جو شرارت تمہارے ذہن میں ہے“۔ میں نے کہا ”قاری صاحب اب اپ کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ کہنا کیا ہے“۔ اس پر ہنس دیے۔

قاری صاحب مسکراتے بھی، کھلکھلاتے بھی، مگر بہت بلند قہقہے نہ لگاتے۔

وہ ایک خوش طبع شخصیت تھے، ان کا دل زندہ بھی تھا اور پاکیزہ بھی۔ وہ عالم تھے، مگر یبوست کا شکار تھے،نہ علم و فضل کے زعم میں گرفتار۔ شائستگی، متانت اور وقار کے ساتھ مزاح بھی کرتے اور لطف بھی اٹھاتے۔

میرے ساتھ ان کے تعلق کے دو پہلو اور بھی تھے، ایک تو یہ کہ میں ان کی صاحب زادی کا استاد بھی تھا،جنہوں نے گورنمنٹ کالج سے ایم اے عربی کیا، دوسرا ہم دونوں ریڈیو پاکستان کے قومی پروگرام حی علی الفلاح کے سلسلے ”قرآن حکیم اور ہماری زندگی“ کے بھی مقرر تھے۔ ان سے اکثر ریڈیو اسٹیشن میں ملاقات ہوتی۔ کئی پروگراموں میں ہم نے مشترک طور پر حصہ لیا۔ فی الحقیقت میں نے اس محاذ پر بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔

قاری صاحب سے میرا طالب علمانہ، نیاز مندانہ اور کسی حد تک دوستانہ تعلق تقریباً 35 برسوں پر محیط ہے۔ میں نے انہیں ہمیشہ متبسم چہرے اور بولتی آنکھوں کے ساتھ پایا۔ ان سے ملنے یا بات کرنے میں نہ ان کا علم وفضل مانع ہوا،نہ مزاج کی برہمی کا کوئی اندیشہ پاس پھٹکا۔ محبت، تواضع، ٹھیراؤ، متانت، علمیت اور شگفتگی کے زمزمے ہی پھوٹے۔

قاری صاحب بلاشبہ کوتاہ قامت تھے، مگر بحیثیت قاری و خادمِ قرآن، معلم، صحافی، ادیب اور عالم ان کا مقام بہت بلند اور مرتبت بہت قابلِ رشک تھی۔ انہوں نے اپنی علمی و دینی خدمات کا نہ ڈھنڈورا پیٹا،نہ کسی تفاخر کا شکار ہوئے، نہ دوسروں کی تحقیر و تنقیص کے مرتکب… بلاشک اپنے علم و فضل کی بنیاد پر وہ نہ صرف فیصل آباد، بلکہ ملک کی بہت قد آور علمی شخصیت تھے۔

ان کے ذاتی تعلقات بے شمار مختلف الفکر و حیثیت افراد کے ساتھ تھے۔ قراء کرام اور کبار علماء ان کے حلقہ اثر میں تھے۔ قاری صدیق صاحب، قاری صولت نواز تو ان کے ذاتی دوست تھے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی، ڈاکٹر زاہد اشرف ان کے قریبی دوستوں میں سرفہرست ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ ایک عرصے تک روزنامہ پاکستان اور نوائے وقت لاہور میں باقاعدہ علمی، ادبی، معاشرتی اور قومی امور پر کالم بھی لکھتے رہے۔

قاری صاحب کو میں نے ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس پایا۔ کلف کے بغیر سادہ اور متواضع و باوقار نکھرا لباس اور نکھری شخصیت… میں نے انہیں کالی داڑھی میں بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی شدید غصے میں۔ سنا ہے جب وہ جھنگ سے ٹرانسفر ہوکر فیصل آباد تشریف لائے تو جوان رعنا تھے، بھرپور شباب کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ہم پر تو ان کے سفید رنگ کا جادو ہی چلا۔ البتہ میں نے انہیں سیاہ رنگ کی غالباً ان کی ہم عمر ماڈل والی سیاہ ہنڈا 70 پر سفر کرتے دیکھا، تب میرے پاس سائیکل بھی نہ تھی، پھر ہنڈا 70 مجھے بھی دستیاب ہوئی، اور اسی پر میرے بچے جوان اور میں بوڑھا ہوا۔ یہ وفادار 70 آج بھی میرے پاس ہے اور وفاداری نبھا رہی ہے۔

بعد ازاں قاری صاحب گاڑی پر منتقل ہوگئے، اور پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ سے علیحدہ ہوگئے کہ نظر کی کمزوری محسوس کرنے لگے، البتہ فکر سدا بہار، مضبوط و مستحکم اور تروتازہ رہی.. أرزل العمر کو پہنچنے کے باوجود۔

قاری صاحب ہاتھ میں بیگ رکھتے، نہ ہی کوئی شاپر یا لفافہ۔ البتہ کوئی ایک کتاب، اس میں تہہ کیے کچھ کاغذات، جن میں زیادہ تر ان کی مکمل یا نامکمل تحریروں کے مسودات اور ساتھ ”التجوید“ کے چند شمارے۔ اور یہ سب ان کی بغل میں بچے کی مانند..بغل بچہ۔

قاری محمد طاہرؒ کے علمی میادین میں سب سے نمایاں اور ترجیح اول ”علم تجوید و قرأت“ تھا، قاری صاحب خود بہت خوش الحان اور منفرد و مؤثر لہجے کے قاری تھے۔ جب بھی قرآن پڑھتے ایک سحر طاری ہوجاتا۔ ہر اہم موقعے پر بالخصوص گورنمنٹ کالج کی تقریبات میں ان کی قرأت کا جادو سر چڑھ کر بولتا۔

انہیں علم تجوید و قرأت پر عبور بھی تھا اور عشق بھی۔ انہوں نے اپنی علمی تحقیق کا موضوع بھی اسے ہی بنایا، اور پی ایچ ڈی کا ضخیم مقالہ برصغیر کے قراء کرام کی شخصیات وخدمات،اور تجوید و قرأت کے فروغ، اس کی تاریخ اور مساعی کو بنایا۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ ان کا یہ مقالہ مدینہ منورہ میں روضۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی لائبریری میں رکھا گیا۔ 2015ء میں حج کے موقع پر میں اس تھیسس سے اپنی انکھیں منور کرنے مسجد نبوی میں موجود لائبریری میں گیا، مگر یہ مرکزی لائبریری میں محفوظ تھا،جہاں میں نہ جاسکا۔

علم تجوید و قرأت سے ان کی محبت نے انہیں برصغیر کی تاریخ میں پہلا اور شاید آخری رسالہ ”التجوید“شائع کرنے کا اعزاز بخشا، جس کے مسلسل 133 شمارے شائع ہوئے۔ اس کے مستقل سلسلوں میں درس تجوید، قراء کا تعارف اور خدمات، مجالسِ قرأت کی روداد، نامور قراء کے انٹرویوز،تجویدی سوالات پر مبنی انعامی کوئز مقابلہ اور خود قاری صاحب کا افتتاحی مقالہ یا اداریہ.. یہ سب بہت اہم، منفرد اور معلومات افزاء ہوتے۔ قاری صاحب کا بیشتر وقت اس رسالے کی ترتیب و اشاعت اور ترسیل میں گزرتا۔ اس کے زیادہ تر مصارف وہ خود برداشت کرتے اور طباعت و اشاعت اور ترسیل کا کام بھی خود کرتے۔ کمپوزر، پریس وغیرہ کی کوتاہی اور بے قدری بلکہ تساہل کا شکوہ بھی کرتے۔ کسی نے سالانہ زر تعاون دے دیا تو لے لیا،نہ دیا تو تقاضا نہ کیا۔ نامساعد حالات اور کسی قسم کے انسانی اور مالی تعاون سے محرومی کے باوجود تسلسل کے ساتھ سالہاسال یہ عشق جاری رہا۔شاید عمر کے آخری دو ایک سالوں میں جب سب کام متروک ہوگئے تو یہ یہ عشق بھی روٹھ گیا۔

قاری صاحب سالہا سال ریڈیو پاکستان کے مقرر خاص رہے۔ ”قرآن حکیم اور ہماری زندگی“ کے عنوان سے ان کے سیکڑوں خطبات ان کی اپنی سحر انگیز تلاوت، ترجمے،تفسیری نکات اور جامع خطبات،دلکش اسلوب اور لہجے کے باعث منفرد،نمایاں اور مقبول تھے۔ریڈیو کے سامعین میں ان جیسی پذیرائی شاید کسی کو نہیں ملی۔قرآنِ عظیم سے محبت اور خدمت کا یہ انداز بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ضعفِ بصارت اور دیگر عوامل کے باعث آخری عمر میں یہ سلسلہ بھی منقطع ہوا،مگر ان کی تحریروں اور آوازوں کا ایک بڑا ذخیر ہقرآن پاک کی مکمل تفسیر کی صورت ریڈیو پاکستان کے قومی آواز خزانے میں محفوظ ہے،جسے انہوں نے ”تفسیر ترتیل القرآن“کے نام سے موسوم کیا۔

اتفاق ہے کہ ہماری آخری ملاقات بھی ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے اسٹوڈیوز میں ہوئی،جہاں وہ شیشے کے پار مائیک کے سامنے ریکارڈنگ میں مصروف تھے۔

قاری صاحب کو ان کی علمی وادبی خدمات کے پیش نظر عالمِ اسلام کے عظیم مفکر وادیب مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی قائم کردہ عالمی تنظیم ”عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان“کا مرکزی جنرل سیکرٹری بھی منتخب کیا گیا۔اس پلیٹ فارم سے ان کی نگرانی میں متعدد قومی،ادبی سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی ہوا۔

قاری صاحب سے ملاقات ہمیشہ علمی مجالس میں ہوئی، جہاں وہ ایک مربی اور میں ان کے خوشہ چین کی حیثیت سے شریک ہوا۔ میں نے انہیں کھیل تماشوں کی محفل میں کبھی نہیں دیکھا۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی جس کے وہ مرکزی سیکرٹری جنرل تھے، عربی زبان وادب کے فروغ کی جمعیۃ اللغۃ العربیہ ہو، دبستان ِفکرِ اقبال ہو، اہلِ دانش کی مجلس ہو جو ڈاکٹر زاہد اشرف برپا کرتے ہیں،مفتی سعید احمد کی النصیحہ فاؤنڈیشن کے علمی سیمینار ہوں،یا ملک کے چوٹی کے اہلِ علم کی مجلس…قاری طاہر صاحب ہرجگہ اپنے علم و فضل کے موتی اور گفتار و کردار کے پھول بکھیرتے نظر آتے اور میں انہیں چنتا رہتا۔

میرے لیے باعثِ فخر ہے کہ انہوں نے 2008ء میں میری بڑی بیٹی کا نکاح پڑھایا۔ انہوں نے اپنی کتاب ”تذکار قرّاء“ کی تقریبِ رونمائی میں مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی، یہ کتاب جنگ پبلشرز نے شائع کی۔ اور میں نے این ایف سی میں منعقدہ اس تقریب میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ ان کی دوسری مطبوعہ کتاب ”نفائس اقبال“ کو بھی خوب پذیرائی ملی۔

سرکاری ملازمت کے اعتبار سے ان کا میدانِ کار علوم اسلامیہ کی تدریس تھا۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں کم و بیش پچیس سال انہوں نے ہزاروں طلبہ وطالبات کو اپنے علم و فضل سے سیراب کیا۔ ان کے ہزاروں شاگرد ملک کے طول وعرض میں موجود ہیں۔
شعبہ اسلامیات کی ترقی، استحکام اور فروغ میں ان کا کردار مثالی تھا۔ سیمینارز اور علمی مجالس کے انعقاد اور سرپرستی نے بھی ان کی شخصیت کو ممتاز بنایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک اسکول کی بنیاد بھی ڈالی اور کئی جامعات بشمول ہمدرد، این ایف سی اور رفاہ میں تحقیقی و تدریسی خدمات جاری رکھیں۔
ان کے جنازے کے موقع پر نماز ظہر ان کے گھر مدینہ ٹاون کے قریب مسجد عثمان میں ادا کی تو پتا چلا کہ وہ اس مسجد کے بانی اور یہاں قرآنی خدمات کے محرک تھے۔ یہ خوبصورت مسجد، اس کے نمازی اور یہاں کا تعلیمِ قرآنی کا نظام ان کی دیگر بے شمار حسنات کی طرح صدقہ جاریہ اور مآثر طیبہ کی حیثیت سے ان کے زادِ آخرت میں اضافہ کرتا رہے گا، اِن شاءاللہ۔
جن شخصیات سے ملاقات کو وہ سرمایۂ حیات قرار دیتے، ان میں مفتی سید الدین کاکا خیل، مفتی محمد طیب، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا داؤد غزنوی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری،ڈاکٹر ابوبکر غزنوی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، شورش کاشمیری، ڈاکٹر محمود احمد غازی اورجنرل محمد ضیاء الحق شامل ہیں۔
قاری محمد طاہر کا جسدِ خاکی تو نظروں سے مخفی ہوگیا،اور جلد فنا بھی ہوجائے گا ہر ذی نفس کی طرح… مگر ان کے علمی کارنامے، بےلوث خدمتِ قرآن اور جاری سلسلے ان کے تذکار حسن کے طور پر سالہاسال یاد رکھے جائیں گے۔
بلاشبہ ہر انسان کو فنا ہونا ہی ہے جس سے نہ مفر ہے،نہ انکار کی گنجائش… اس کے لیے نصیحت وعبرت کا پیغام یہی ہے کہ
اِنّما المرءُ حدیثٌ لمن بعدہ
فکن حدیثا حسنا لمن وَعیٰ
انسان تو اپنے بعد لوگوں کے لیے محض ایک یاد،ایک بات ہی رہ جاتا ہے،لہٰذا کچھ ایسا باکمال اور قابل فخر و ذکر کر جاؤ یاد رکھنے والوں کے لیے۔
10 جنوری 2023ء کو قاری طاہر صاحب آسودئہ خاک ہوگئے۔یقیناً وہاں قرآن کے نور سے روشنی پارہے اور تلاوت سے رحمتِ ربانی کے زینے اور مدارج طے کررہے ہوں گے۔
اللہ ان کی قبر کو منور اور معطر فرمائے اور اپنی رحمتوں اور جنتوں سے نوازے،آمین۔