نئی نسل یاد رکھے ہر” ابتدا“ صفر ہی سے ہوتی ہے

بعض حقیقتیں بالکل سامنے کی ہوتی ہیں مگر پھر بھی ہم یا تو سمجھ نہیں پاتے یا پھر سمجھ کر بھی اس خواہش کے حامل ہوتے ہیں کہ کاش نہ سمجھیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بہت سے لوگ ناموافق بات سُن کر اَن سُنی کردیتے ہیں۔ کسی سے ملنا پسند نہ ہو تو اُسے دیکھ کر بھی اَن دیکھا کردیا جاتا ہے۔ بہت سی حقیقتوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم اچھی طرح سمجھ بھی لیتے ہیں مگر دکھاوا کرتے ہیں کہ سمجھا ہی نہیں۔

ہر دور کی نئی نسل کے لیے ’ابتدا‘ مخمصہ رہی ہے۔ ابتدا کہاں سے ہوتی ہے؟ اُس مقام سے جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کسی شاندار سوسائٹی کی ابتدا کیا تھی؟ صرف زمین۔ جہاں آج ہمیں مہکتا ہوا، چہکتا ہوا باغ دکھائی دے رہا ہے وہاں کبھی ویرانہ رہا ہوگا۔ کسی بھی باغ کی ابتدا بے آباد زمین ہی سے تو ہوتی ہے۔ کیریئر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بیشتر نوجوان تعلیم و تربیت کے دوران ہی خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ کامیابی راتوں رات مل جائے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ ہو تو سکتا ہے مگر ہزاروں، لاکھوں میں کوئی ایک کیس ایسا ہوتا ہے۔ لاٹری کا ٹکٹ ہزاروں افراد نے خریدا ہوتا ہے مگر انعام چند ایک کو ملتا ہے۔ جسے انعام ملتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنا دانش مندی کا مظہر تھا۔

کسی بیٹر (بلے باز) نے ٹرپل سنچری ماری ہو تو کرکٹ کے شائقین بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ہونا ہی چاہیے۔ ٹرپل سنچری اسکور کرنا کوئی روز روز کا معاملہ نہیں ہوتا۔ کیا کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کرتا ہے کہ ٹرپل سنچری کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟ جب وہ بیٹر میدان میں اترا تھا، پچ پر پہنچا تھا اور پہلی گیند کا سامنا کیا تھا تب اسکور بورڈ پر اُس کا اسکور کیا تھا؟ صفر! ہر اننگ صفر ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اِسی کا نام ابتدا ہے۔ اگر کوئی بیٹر میدان میں اُترتے وقت اسکور بورڈ کی طرف دیکھے اور اپنے نام کے آگے صفر دیکھ کر پریشان ہو جائے تو؟ تب تو وہ کھیل چکا۔ ابتدائی مرحلے میں الجھن کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ حقیقت جس نے سمجھ لی وہی کامیاب رہا۔

ہر سال ہمارے ہاں لاکھوں نوجوان اگلے درجوں میں جاتے ہیں۔ ایس ایس سی کرنے والے فرسٹ ایئر میں، فرسٹ ایئر والے سیکنڈ ایئر میں، انٹر میڈیٹ کرنے والے بیچلر ڈگری کے پہلے سال میں، اور بیچلر ڈگری کرنے والے ایم اے میں قدم رکھتے ہیں۔ سب کی آنکھوں میں سپنے سجے ہوتے ہیں۔ ہر نوجوان اپنے لیے کوئی نہ کوئی کیریئر سوچ کر رکھتا ہے۔ کیریئر؟ کسی بھی خاص شعبے میں پوری زندگی گزارنے کا معاملہ۔ جس شعبے میں معاشی زندگی بسر کرنی ہو اُس کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ شعبہ پسندیدگی کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو تو انسان بعد میں پریشان ہوتا ہے۔ پریشان ہونا ہی چاہیے۔ تو پھر علاج کیا ہے؟ جس شعبے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ارادہ ہو اُس کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اوّلین شرط ہے بھرپور دلچسپی۔ انسان بہترین کارکردگی کس شعبے میں دکھا سکتا ہے؟ جو اُسے پسند ہو۔ جو کام پسند نہ ہو اُسے کرنے میں انسان کبھی پوری دل جمعی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ یہ بدیہی حقیقت ہے یعنی اِسے سمجھنے کے لیے ذہن پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔

کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرتے وقت جدید ترین تعلیمی رجحانات کے مطابق تعلیم و تربیت سے ہم کنار کرنے کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی لازم ہے۔ عمل کی دنیا میں پائے جانے والے رجحانات سے رُوشناس کرانا بھی ناگزیر ہے۔ نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب وہ عملی زندگی شروع کرے گی تب اُسے کس نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عملی زندگی کی پیچیدگیوں سے طلبِ علم کے زمانے ہی میں واقف ہوجانا لازم ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ذہن کی پیچیدگی بڑھتی رہتی ہے۔

ہر بڑا کام اپنے ابتدائی مرحلے میں ذرا بھی بڑا نہیں ہوتا۔ کسی نے اگر کاروبار کی دنیا میں سلطنت کھڑی کرلی ہے، درجنوں فیکٹریاں بنائی ہیں، بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا ہے تو اُس کا ماضی یا ٹریک ریکارڈ کھنگالنے پر معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ صفر ہی سے شروع ہوا تھا۔ ہر معاملے کی طرح کاروبار کی ابتدا بھی صفر ہی سے ہوتی ہے۔ ارب پتی یا کھرب پتی بھی کبھی عام آدمی ہی تھے۔ اُنہیں خاص آدمی بنانے میں بہت سے عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ایک کلیدی کردار صلاحیت کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سکت کی باری آتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ کام کرنے کی بھرپور لگن بھی ناگزیر ہے۔ حالات بھی انسان کی مدد کرتے ہیں مگر صرف اُس وقت جب انسان کو حالات سے مدد لینے کا ہنر آتا ہو۔ کاروبار میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہے۔ فیصلے بالکل درست وقت پر ہونے چاہئیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شعبوں میں ٹائمنگ ہی سب کچھ ہے۔ جس نے وقت کا کھیل نہ سمجھا اُس کا کھیل تمام ہوا۔

ہر دور کی نئی نسل خوابوں کے ساتھ جیتی ہے۔ اسکول اور کالج کی سطح پر ہر نوجوان کی آنکھوں میں کچھ خواب ہوتے ہیں۔ وہ بہت کچھ بننا چاہتے ہیں۔ اُن کی نظر مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد پر ہوتی ہے۔ وہ بیک وقت بہت کچھ بننے کا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ نئی نسل کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی بھی نوجوان کے لیے درست اور موزوں ترین شعبے کا انتخاب بنیادی یا کلیدی معاملہ ہے۔ اس مرحلے پر کوئی بھیانک غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ عملی زندگی میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔

بہت سے نوجوان انتخاب کے مرحلے میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ موزوں راہ نمائی میسر نہ ہو تو وہ اپنے لیے موزوں ترین شعبہ منتخب کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس حوالے سے کیریئر کاؤنسلنگ کا کلیدی کردار ادا ہوتا ہے۔ ہوش مند معاشرے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نوجوان ایسے شعبوں میں جائیں جو اُن کی پسند کے ہوں اور جن میں کام کرتے ہوئے وہ اپنی صلاحیت و سکت کو عمدگی سے بروئے کار لاسکیں۔ کیریئر کاؤنسلنگ کے ماہرین کسی بھی نوجوان کے ذہن میں جھانک کر اُس کے لیے بہترین شعبے کا تعین کرتے ہیں۔ ماہرین سے مشاورت کی صورت میں معقول ترین کیریئر شروع کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا اور اصل آزمائشی مرحلہ ہے۔ نوجوانوں کو ابتدائی مرحلے میں کامیابی کا حصول ممکن نہ ہو پانے کی صورت میں بھی پُراعتماد و پُرامید رہنے میں مدد دینا۔

کسی بھی نوجوان کو ابتدائی مرحلے کی جدوجہد کے لیے تیار کرنا آسان نہیں۔ یہ خاصی بڑی نفسی پیچیدگی ہوتی ہے۔ نئی نسل جب مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کو دیکھتی ہے تو راتوں رات غیر معمولی اور قابلِ رشک نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے خواب دیکھنے لگتی ہے۔ بہت سے نوجوان کیریئر کی ابتدا ہی میں بہت کچھ بہت تیزی سے حاصل کرنے کی کوشش میں اچھا خاصا الٹا پلٹا کر بیٹھتے ہیں۔ اُنہیں یہ بتانے، بلکہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ راتوں رات کامیابی ہزاروں، لاکھوں میں کسی ایک کو ملتی ہے اور وہ بھی حالات کی مہربانی سے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ برسوں کی محنت کے بعد کچھ پانے کے قابل ہو پائے اور دنیا سے اپنے آپ کو منوایا۔

کامیاب کیریئر کی بہتر ابتدا اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی سکھائی جائیں اور نظم و ضبط سے بھی آگاہ کیا جائے۔ نظم و ضبط کے ذریعے ہی نئی نسل اپنے آپ کو طویل اننگ کے لیے تیار کر پاتی ہے۔ ٹیسٹ میچ کی اننگ کھیلنے کے لیے زیادہ معیاری ٹیمپرامنٹ چاہیے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ذہن رکھنے والا کھلاڑی طویل ٹیسٹ اننگ نہیں کھیل سکتا۔ نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ طویل اننگ تحمل کی طالب ہوتی ہے۔ اس اننگ میں بہت کچھ سیکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ انسان خود بھی سیکھتا ہے اور وقت بھی سکھاتا ہے۔ وقت کا سکھایا ہوا تادیر یاد رہتا ہے کیونکہ وہ بالعموم سزا کے طور پر ہوتا ہے! اچھی بات تو یہ ہے کہ انسان خود سیکھے اور سیکھنے کا عمل کبھی ترک نہ کرے۔

سیکھنے سے کیا مراد ہے؟ تعلیمی اداروں سے جو کچھ پایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہوتا؟ بالعموم نہیں۔ عملی زندگی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی بھی شعبے کے بارے میں کلاس روم میں زیادہ نہیں سمجھایا جاسکتا۔ جب انسان اُس شعبے میں قدم رکھتا ہے تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ عملی زندگی کے تقاضے کلاس روم میں بتائی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں قدم قدم پر حکمتِ عملی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ ہر شعبے کے حالات میں الٹ پھیر ہوتا رہتا ہے۔ کلاس روم میں یہ تو بتایا جاسکتا ہے کہ فیلڈ کے حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تبدیلی کیسی ہوتی ہے، کیا ہوتی ہے اس کے بارے میں پہلے سے کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔ کبھی حالات کی تبدیلی سے انسان کو غیر معمولی فائدہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی شدید نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کورونا کی وبا ہی کو لیجیے۔ اس وبا کے دوران جن چند شعبوں نے بہت فروغ پایا اُن میں آئی ٹی کا شعبہ نمایاں تھا۔ گھر بیٹھے کام کرنے کی صورت میں انٹرنیٹ سروسز، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، پرسنل کمپیوٹرز اور دیگر گیجیٹس کی طلب اِتنی بڑھی کہ متعلقہ اداروں نے کئی برس کا منافع ایک ساتھ کما لیا۔

نئی نسل کو یہ نکتہ خصوصی طور پر ازبر رہنا چاہیے کہ محض حالات کی مہربانی سے بھرپور کامیابی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان بھرپور دلچسپی کے ساتھ کام کرے، فیلڈ کے حالات پر نظر رکھے، حکمتِ عملی تبدیل کرے، ٹیکنالوجی سے باخبر رہے، جن کے لیے خدمات فراہم کررہا ہے اُن کا اطمینان ہر حال میں پیش نظر رکھے۔

حالات ایک سطح پر کبھی نہیں رہتے۔ ملکی حالات ہی نہیں بدلتے، علاقائی اور عالمی حالات بھی تبدیلی کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں۔ زندگی کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ نئی نسل بہت سے معاملات میں چونکہ عجلت پسند ہوتی ہے اس لیے ناموافق حالات دیکھ کر تیزی سے بدحواس اور بددل ہوجاتی ہے۔ بیشتر نوجوان جب ابتدائی مرحلے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے تو اُن کے دل ڈوبنے لگتے ہیں۔ یہ مرحلہ خاصا جاں گُسل ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس مرحلے میں سبھی کے لیے الجھنیں ہوتی ہیں۔ آج جو لوگ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار دکھائی دے رہے ہیں اُن کا ابتدائی مرحلہ بھی خاصا جاں گُسل اور پریشان کن تھا۔ یہ کیفیت ابتدائی مرحلے میں سب کے لیے ہوتی ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تقدیر نے صرف اُسے نشانے پر لے رکھا ہے۔ ابتدائی مرحلے کی الجھنوں سے نپٹنا سبھی کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ یوں انسان سیکھتا جاتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے۔

آج کی نئی نسل کو زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے، کیونکہ اب کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانا انتہائی دشوار ہے۔ آسان تو خیر کبھی نہ تھا مگر اب ذہنی انتشار کے ساتھ جینا پڑ رہا ہے، اس لیے مسائل کم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ نئی نسل کو کیریئر کی ابتدا میں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ نظم و ضبط بھی سیکھنا پڑے گا اور تحمل بھی۔ یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے کہ ہر کام وقت پر ہوتا ہے اور تب ہی اچھا بھی لگتا ہے۔ کامیابی بھی وقت آنے پر ملتی ہے۔ محنت کے بغیر ملنے والی کامیابی زیادہ پُرلطف نہیں ہوتی۔

ہر دور کی طرح آج کی نئی نسل کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابتدا بالعموم رُوکھی سُوکھی ہی ہوتی ہے۔ پوری دلچسپی کے ساتھ جاں فشانی کا مظاہرہ کرنے ہی پر کچھ حاصل ہو پاتا ہے اور وہی حقیقی سُکھ بھی دیتا ہے۔ تین سو کیا، پانچ سو رنز کی اننگ بھی کھیلنی ہے تو ابتدا صفر ہی سے کرنا پڑے گی۔