بچوں کی تربیت اور بزرگ والدین ,ماں بچے کا رول ماڈل ہے

”کیا تم روز بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہو!
مما گندی ہیں، میرا پیارا بچہ… میں تمہیں کھانا کھلاؤں، چلو کوئی بات نہیں چپس کھا لو۔“
”امی آپ کے اس روز روز کے لاڈ پیار نے اس کو بگاڑ دیا ہے۔ اب کھانے کے وقت چپس دینے کی کیا تُک بنتی ہے!“

”بس رہنے دو تم.. کم از کم پیٹ میں کچھ جا تو رہا ہے نا۔“
نانی کے گھر گئے تو نانا نے باہر لے جاکر آئس لولی دلا دی، پھر گلا خراب۔

”ابو آپ کیا کرتے ہیں! یہ الرجک ہے فوڈ کلرز سے، آپ نے آئس لولی کھلا دی، پھر آپ نے کہا جلدی کھا لو مما کو پتا نہ چلے، جھوٹ سکھا رہے ہیں!“

”بیٹا پلیٹ میں سے کھانا پورا کھاؤ، چھوڑتے نہیں کھانا۔“ ماں سمجھا رہی تھی۔
بڑی خالہ نے کہا ”ارے ایک نوالہ ہی توہے، تم کھا لو۔“
”نہیں، اس کو خود کھانا پورا کھانا چاہیے۔“

”لاؤ میں ڈال لوں منہ میں۔“ بڑی خالہ بولیں۔ ”اپنے سخت ڈسپلن پر عمل اپنے گھر میں کرنا تم، سمجھیں!“

پھوپھی آئیں تو ڈھیر ساری چاکلیٹ لا کر بچی کے ہاتھ میں دے دیں۔
”ارے آپا آپ کیا کررہی ہیں؟“
”لاؤ مجھے دو، شیئر کرکے کھاتے ہیں، آپ کو بتایا تھا نا!“
اسی طرح کے ملتے جلتے جملے آپ کو ہر گھر میں سنائی دیں گے۔ بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں جو اُن کے آس پاس ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے پہلے گھر کا ماحول، ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی،دیگر افرادِ خانہ، اور اگر مشترکہ جگہ (Joint Family) میں نہ رہتے ہوں تب بھی ماں باپ سے بڑے رشتہ دار جن کو بزرگ والدین کہا جاتا ہے ان کا اثر… یہ سب مل کر بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔

ماں تربیت کررہی ہے بری بھلی جیسی بھی، مگر کررہی ہے۔ آخر وہ ماں ہے، اس کو تھپکی چاہیے۔ ہوسکتا ہے نئی ماں ہو جو زیادہ سختی برت رہی ہو، یا بالکل ہی خیال نہ رکھتی ہو، دونوں صورتوں میں اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے بچے کے سامنے نہیں الگ سے ہمدردی، محبت، حکمت اور اس کی دلجوئی کے ساتھ۔

یقیناً دادی، نانی کا تجربہ زیادہ ہے، مگر ماں بچے کی رول ماڈل ہے۔ اگر ماں کو اُس کے بچے کے سامنے ہی ڈانٹ دیا جائے گا اگرچہ وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہو، تو بچے کے ذہن پر اس کا منفی اثر پڑے گا، اور اگر یہ عمل بار بار ایک ہی انداز میں ایک ہی بزرگ ہستی کی جانب سے ہو تو بچہ سوچے گا میری ماں کو کچھ نہیں آتا اور وہ ماں کو اہمیت دینا چھوڑ دے گا۔

اسی طرح اگر بچے کی ضد کے آگے اُس کی ماں کو ڈانٹ کر بچے کی ضد پوری کردی جائے گی تو وہ ایک سبق سیکھ لے گاکہ ضد کرو، شور مچاؤ… اور دادی، نانی وہ ضد پوری کردیں گی۔ اسے کہتے ہیں Negative Reinforcement اور Secondary Gain۔

اور تھوڑا پیچھے چلتے ہیں… ماں اپنا دودھ پلا رہی ہے اور ساتھ میں بوتل سے بھی دودھ پلا رہی ہے۔ اب بوتل سے دودھ آسانی سے ملتا ہے، بچے نے سیکھ لیا۔ محنت کیوں کرے! ماں کے دودھ کو رو چلاّ کر نہیں پیا اور بوتل سے مزے میں پی لیا۔ یعنی اس کو پتا ہےکہ روؤں گا تو ماں گھبرا کر بوتل دے گی، ہدف پورا ہوا۔

آگے بڑھتے ہیں.. باہر سے الا بلا کھاتے ہوئے کہہ دیا ”مما کو نہیں بتانا“۔ بظاہر چھوٹی سی بات، مگر ہم بچے کو جھوٹ بولنا سکھا رہے ہیں، بچہ جو ماں کے ساتھ ہر بات شیئر کرتا ہے وہ اب سوچے گا کہ کچھ باتیں چھپائی بھی جاتی ہیں ماں سے۔

کام کو ادھورا چھوڑ دینا، مثلاً کھانا مکمل نہ کرنا اور پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھ جانا، اور کسی بزرگ والدین میں سے یہ کہہ دینا ”کوئی بات نہیں، ماں کھا لے گی“ وغیرہ۔ دراصل جو بات کرنی ہے وہ صرف اتنی سی ہے کہ ماں اپنے بچے کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چاہتی، مگر وہ خود نو آموز ہے، اس کی مدد کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کو نکو بنا دیا جائے۔

بزرگ والدین یعنی نانی، دادی، بڑی خالہ، بڑی پھوپھی، تائی وغیرہ… یہاں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ سارے رشتے دار خواتین ہی ہیں، کیونکہ جو چھوٹی عمر ہے اس میں بچہ زیادہ اثرات ماں، یا ماں جیسی شخصیات سے ہی لیتا ہے Surrogate Mother۔ تھوڑے سے بڑے بچوں میں اسکول کی ٹیچر کو بھی شامل کرلیں کہ بچے ٹیچر کو رول ماڈل کے طور پر لیتے ہیں۔

ہم بات کررہے تھے بچوں کی تربیت میں بزرگ والدین کے کردار کی، جو کہ ماں کے بعد بہت اہم ہے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بزرگ والدین معاشرتی روایات، اخلاق، تہذیب، دین پر زیادہ توجہ دیں تاکہ ماں جو دیگر تربیتی پہلو دیکھ رہی ہے اس کو تقویت ملے۔ یعنی ماں اگر ڈسپلن سکھا رہی ہے تو بزرگ والدین اس کو مزید تقویت دی، اور اسے اخلاق، دین اور معاشرے کی اچھی روایات سے جوڑ دیں تاکہ ابتدائی چند برسوں میں جو بنیاد رکھی جائے وہ مضبوط ہو، اور زمانے کے برے اثرات کو حاوی ہونے نہ دے۔ بالکل ایسے ہی اگر آپ عمارت کی تعمیر میں اس کی بنیاد کو مضبوط نہ رکھیں تو اوپر بننے والی عمارت پائیدار نہیں ہوگی، اس میں زلزلے کے جھٹکے برداشت کرنے کی اہلیت نہیں ہوگی۔

تو جناب ِوالا! بچے کے سامنے ایسی گفتگو یا کوئی ایسا عمل نہ کیجیے جس سے اُس کو محسوس ہو کہ غلط ذرائع سے بھی کام نکالا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کھانے کے وقت رو کر، شور مچا کر مظلوم بن جایا جائے اور کوئی ماں سے بڑا یعنی بزرگ والدین میں سے کوئی بچے کی من چاہی مراد پوری کردے، اس کو Rescue کردے ماں کے ”ظلم“ سے بچالےتو آئندہ کیوں نہیں!

جب جب بات منوانی ہو ، مگرمچھ کے تھوڑے آنسو بہا لیے جائیں، یا ماں نے منع کیا ہو یہ کام نہیں کرنا، مگر کسی قریبی نے تسلی دلائی ہو کہ ”مما کو پتا نہیں چلے گا“ تو ہم جھوٹ سکھا رہے ہیں۔

تربیت کے معاملے میں Negative Reinforcement، اور Secondary Gain کا بڑا گہرا تعلق ہے، سیکنڈری گین کو ایسے سمجھیں کہ بچے نے سیکھ لیا کہ بات منوانے کے لیے رونا پیٹنا ضروری ہے، اس کے بعد ہی کام مرضی کا ہوتا ہے۔ آپ ٹوکیں، سمجھائیں ماں کو، مگر اکیلے میں.. اُس کے بچے کے سامنے نہیں۔

ماں بچے کا رول ماڈل ہے، اسی کو وہ Idealized کرتا ہے، اس کو رہنے دیں۔ آپ بطور بزرگ والدین ماں پر Invest کریں تاکہ اصل سے جو سود پیارا ہے وہ پیارا ہی رہے۔