اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے قاسم خان سوری اور محمود خان اچکزئی سمیت 32 افراد نے کاغذات جمع کرائے ہیں
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی بعض نشستوں پر عوام کی زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، اس لیے کہ ان نشستوں پر صوبے کی اہم شخصیات مدمقابل ہوتی ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں کوئٹہ کی ایک نشست پر نواب خیر بخش خان کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، اس حلقے میں ایک وسیع علاقہ شامل تھا۔ ان کے مدمقابل تاج محمد جمالی تھے جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ اُس وقت آبادی کم تھی، اب بہت زیادہ ہے۔ اب عمران خان کی پارٹی نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس نشست پر قاسم خان سوری جیتے تھے، ان کے مدمقابل محمود خان اچکزئی، حاجی لشکری، حافظ حمداللہ، ڈپٹی اسپیکر راحیلہ درانی، باپ پارٹی کے نصیب اللہ اچکزئی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ، نیشنل پارٹی کی یاسمین بی بی اور اے این پی کے عمر فاروق تھے۔ 8آزاد امیدوار بھی تھے۔ اس طرح کُل امیدوار 21 تھے۔ تحریک انصاف کی طرف سے پہلی بار قاسم خان سوری کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے 25979 ووٹ حاصل کیے۔ ان کے قریبی حریف حاجی لشکری تھے جو 20394 ووٹ حاصل کرسکے۔ ان کے علاوہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی نے 11487، متحدہ مجلس عمل کے حافظ حمداللہ نے 10124، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی راحیلہ درانی نے 9931، اے این پی کے عمر فاروق کاسی نے 7297، باپ پارٹی کے نصیب اللہ اچکزئی نے 4279، مجلس وحدت کے سید محمد رضا نے 5004، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر عبدالخالق ہزارہ نے 2052، جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ کے محمد عارف خان اتمانزئی نے 2011 ووٹ حاصل کیے۔ حاجی لشکری نے قاسم خان سوری کے نتائج کو چیلنج کیا، یہ کیس اب تک ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
اب حکومت نے ضمنی انتخابات کا اعلان کردیا ہے۔ اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے قاسم خان سوری اور محمود خان اچکزئی سمیت 32 افراد نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی، اب وہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی حمایت کرے گی۔ پی پی کے امیدوار حاجی علی محمد جتک، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے راحیلہ درانی، نیشنل پارٹی کی طرف سے محمد رمضان ہزارہ، پشتون خوا میپ کی طرف سے نصراللہ زیرے نے کاغذات جمع کرائے ہیں جو صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں، ان کا تعلق پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی سے تھا، اب انہوں نے پارٹی سے بغاوت کرکے علیحدہ دھڑا بنالیا ہے۔ یاد رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں محمود خان کی پارٹی کو بری طرح شکست ہوئی تھی، اس نے صرف ایک صوبائی نشست جیتی تھی، اور کامیابی حاصل کرنے والے نصراللہ زیرے تھے۔ اب پارٹی میں خوشحال خان کاکڑ نے بغاوت کی ہے، پارٹی تقسیم کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور محمود خان کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں، اب ان کی تمام تر امیدیں مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی سے وابستہ ہیں، اگر ان پارٹیوں کے ووٹروں نے ووٹ نہیں دیئے تو محمود خان اچکزئی کے لیے اس نشست کو جیتنا بہت مشکل ہوجائے گا، اس لیے کہ پارٹی میں پہلی بار ایک منظم بغاوت ہوئی ہے اور اس دھڑے کی وجہ سے محمود خان اچکزئی کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ خوشحال خان، عثمان خان کاکڑ کا بیٹا ہے، نوجوان ہے، ابتدا میں محمود خان اچکزئی کے ساتھ تھا، بعد میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ علیحدہ ہوگیا۔ پشتون خوا میپ میں یہ کوئی پہلی بغاوت نہیں ہے، خان عبدالصمد خان اچکزئی کے دور میں بھی علیحدگی ہوتی رہی ہے لیکن کسی نے علیحدہ گروپ نہیں بنایا۔ اِس بار ایک منظم گروپ بن گیا ہے جو مسلسل متحرک ہے، جلسے کررہا ہے۔ اب پہلی بار محمود خان کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں، ان کے وزرا پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ محمود خان اپنے بیٹے کو اپنی زندگی میں جانشین بنانا چاہتے تھے اس وجہ سے بھی پارٹی میں ردعمل پیدا ہوا ہے، اور پہلی بار منظم اور متحرک شخصیات کی طرف سے مخالفت پیدا ہوئی ہے۔ خوشحال خان کاکڑ اور ان کے ہمنوا جلسے کررہے ہیں، اس لیے محمود خان کے ہاتھ سے بازی نکل سکتی ہے۔ صوبہ پختون خوا میں بھی ایک دھڑا علیحدہ ہوگیا ہے۔ اب محمود خان اچکزئی کو دونوں حصوں میں تقسیم اور مخالفت کا سامنا ہے۔
عمران خان کی پارٹی کے لیڈر قاسم خان سوری نے انتخاب جیتنے کے بعد بہت کم کوئٹہ کا دورہ کیا ہے، اور ورکرز سے ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے یہ نشست عمران خان کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ ایک طرف انتخابات کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے تو دوسری طرف حاجی لشکری نے رٹ دائر کی ہے۔ حاجی لشکری کا مؤقف ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں اس نشست پر دھاندلی ہوئی ہے اور جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں، اس لیے پہلے اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک دلچسپ صورتِ حال ہے۔ اس نشست پر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے ممتاز سیاست دان قاری میر اللہ مدمقابل ہیں۔ راحیلہ درانی بھی محمود خان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں، انہوں نے ووٹ حاصل کیے تو محمود خان اچکزئی کے لیے جیتنا مشکل ہوجائے گا۔بی این پی کے ووٹر پشتون خوا کے قائد کو ووٹ نہیں دیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کوئی دو ماہ قبل ایک ایسا بیان دیا تھا جس کی وجہ سے بلوچوں میں شدید ردعمل پیدا ہوگیا تھا۔ محمود خان اچکزئی نے ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ وہ بلوچستان کو کیک کی طرح تقسیم کردیں گے۔ اس بیان کے کچھ عرصے بعد ہی خوشحال خان کاکڑ اور ان کے ساتھیوں نے پارٹی میں بغاوت کی اور پارٹی تقسیم ہوگئی۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ خوشحال خان نے پشتون خوا کو کیک کی طرح کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ایک ٹکڑا محمود خان کے ہاتھ میں تھمادیا۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 265 کا ضمنی انتخاب بہت کچھ بدل دے گا۔ اس نشست پر محمود خان اچکزئی کی وجہ سے مقابلہ دلچسپ ہوگیا ہے، اب محمود خان کی تمام توقعات مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہوگئی ہیں، اگر مسلم لیگ (ن) نے ہاتھ کھینچا تو پارٹی محمود خان اچکزئی کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔