انتخابات کی تاریخ کا ”یک طرفہ“ صدارتی اعلان تنازع مزید الجھ گیا

آئین، قانون کی روح اور اختیارات کا استعمال ہمارے سیاسی نظام میں ایک متنازع تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کی جو مرضی ہوتی ہے اسی کے مطابق سیاسی قوت اور حکومتیں فیصلہ کرتی چلی آئی ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں ایک تنازع چل رہا ہے، ایک انتخابات کی تاریخ مانگ رہی ہے اور دوسری آئین کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یہی منظر عدلیہ کا بھی ہے۔ عدلیہ طلب کررہی ہے اور دوسرا فریق ٹانگ کی پٹی کے اندر منہ چھپائے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ ایک کھیل ہے جس کے پیچھے طاقت ور قوتیں ہیں جو انتظار میں ہیں کہ کب جمہوری چڑیا جال میں آتی ہے۔ تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی کہ صدر نے فرمان جاری کیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اسمبلی انتخابات 9 اپریل کو کروائیں۔ اس اقدام سے آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ صدر علوی نے کہا کہ آئین 90 روز سے زائد تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، آئین کے تحفظ کا حلف لیا، گورنرز اور انتخابی کمیشن ذمہ داری پوری نہیں کررہے۔ حکومت صدر کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے رہی ہے۔ وہ صدر کے خلاف متعین سزا کا حق محفوظ رکھتی ہے کہ صدر نے اختیارات سے تجاوز کیا، ایسے فیصلے صدر کی اوقات نہیں، یہ تقریباً آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ اور گورنر خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ عارف علوی آئینی سربراہ نہیں عمران خان کے ذاتی ملازم ہیں، صدرِ مملکت کو وفاقی حکومت اور کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار اُس وقت ہے جب قومی اسمبلی تحلیل کریں، اگر گورنر ازخود اسمبلی کی تحلیل کے عمل کا حصہ نہیں بنتے تو انتخاب کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

پی ٹی آئی کہتی ہے کہ عارف علوی ملک کے آئینی صدر ہیں، انہوں نے خط لکھا جس کا جواب الیکشن کمیشن نے ٹی وی پر بیان کے ذریعے دیا، الیکشن کمشنر مغل بادشاہ بن گیا ہے، نہ آئین کو مانتا ہے نہ صدر کا خط مانتا ہے، نہ الیکشن کراتا ہے۔

بات یہ ہے کہ صدر نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57 (1) کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ہے کہ’’ الیکشن کمیشن آئین کے سیکشن 57(2) کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے، آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے اور عدالتی فورم سے کوئی حکم امتناع نہیں ہے۔ حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن57(1) کے تحت اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے اپنا آئینی، قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔‘‘

حکم امتناع کی بات کرکے صدر نے حکومت کو راستہ بھی دے دیا ہے۔ صدر کے خیال میں الیکشن کمیشن اپنے مختلف خطوط میں انتخابات کی ممکنہ تاریخوں کا اشارہ دے چکا ہے، ان خطوط میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ظاہر ہوتی ہے۔ صدر نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا سنجیدہ عمل شروع کیا، الیکشن کمیشن نے اس موضوع پر ہونے والے اجلاس میں شرکت سے معذرت کی، لہٰذا سیکشن 57(1) کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن اپنے اجلاس میں صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا جائزہ لے گا۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے خط ملنے کے بعد الیکشن کمیشن قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے پر ابھی صدارتی آفس کے مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بن سکتا، آئین کے تحت صوبوں میں عام انتخابات پر مشاورت صرف گورنرز سے کی جا سکتی ہے، اور اگر صدرِ مملکت سے مشاورت کی گئی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے ایوانِ صدر نہ جانے کا فیصلہ لاء ونگ کی تجویز پر کیا۔

ادھر گورنر خیبرپختون خوا حاجی غلام علی نے کہا ہے کہ صدرِ پاکستان کے پاس الیکشن کرانے کا اختیار نہیں ہے، کل سیکورٹی سے متعلق اجلاس کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے اب یہ سوالات پیدا ہونے لگے ہیں کہ آیا صدرِ مملکت کو صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ صدرِ مملکت کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن57(1) کے تحت عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن57(1)کے مطابق آئین کے تحت صدرِ مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ دیں گے اور سیکشن57(2) کے تحت الیکشن کمیشن صدر کی دی گئی تاریخ کی روشنی میں انتخابات کا پروگرام جاری کرے گا۔ آئین کے تحت یہ بھی ضروری ہے کہ جب صدرِ مملکت انتخابات کی تاریخ دیں تو وفاق میں منتخب حکومت کی جگہ نگران حکومت قائم ہو، اور یہی وہ نکتہ ہے جس کو آئندہ دنوں میں الیکشن کمیشن یا وفاقی حکومت جواز بناکر صدر کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ پر الیکشن کمیشن کے ساتھ بامعنی مشاورت نہیں کی، صدرِ مملکت آرٹیکل 48/1کے تحت کوئی کام وزیراعظم کے مشورے کے بغیر نہیں کرسکتے۔

صدرِ مملکت کے یک طرفہ طور پر الیکشن کی تاریخ دینے سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ آئین کہتا ہے عام انتخابات نگران سیٹ اپ میں ہوں گے، کیسے ممکن ہے کہ نگران سیٹ اپ کے بغیر صاف و شفاف الیکشن ہوجائیں! الیکشن کمیشن متفق ہے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کروائے۔ صدرِ مملکت کہتے ہیں آئین میں سوراخ تلاش نہ کریں۔ سوراخ تو انہوں نے کیا ہے آئین میں صرف الیکشن 90روز میں کروانے کا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ آئین کہتا ہے الیکشن کروانا صدر یا گورنر کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن سمجھتا ہے نگران سیٹ اپ کے بغیر صاف و شفاف الیکشن نہیں ہوسکتا تو فیصلہ کرسکتا ہے۔ صدرِ مملکت نے انتخابات کی تاریخ پر الیکشن کمیشن کے ساتھ بامعنی مشاورت نہیں کی، صدرِ مملکت نے ایک ہی کوشش میں کہہ دیا کہ بامعنی مشاورت نہیں ہوئی۔ صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی کے سوا الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ دو صوبوں میں جنرل الیکشن ہیں لیکن الیکشن ایکٹ میں بات قومی اسمبلی کے تناظر میں کی گئی ہے۔ ایک خیال ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت صدرِ مملکت کو جنرل الیکشن کی تاریخ دینے کا حق حاصل ہے، مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدرِ مملکت کے پاس الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے۔آئین کے مطابق گورنر الیکشن کمیشن کی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57کے تحت صدر مملکت کو جنرل الیکشن کی تاریخ دینے کا حق حاصل ہے، اس قانون میں لفظ اسمبلی استعمال ہوا جس کی تشریح قومی و صوبائی اسمبلی کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن صدر کو مشورہ نہیں دیتا تو اسے بھی رائے سمجھا جائے گا۔ گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دیتے تو الیکشن کمیشن تاریخ دینے اور انتخابات کے انعقاد کا پابند ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ الیکشن 90روز سے آگے نہیں جانے چاہئیں، پوری اسمبلی کا الیکشن ہو تو اسے جنرل الیکشن کہتے ہیں۔