دونوں صورتوں میں آدمی کی تباہی ہے۔ اگر وہ مشین ہے یا مشین کا غلام اور ایسا علم کہ جو منڈی کا بکاؤ مال بن جائے۔ حل یہ سمجھنا ہے کہ آدمی کوئی ڈیٹابینک مشین نہیں ہے بلکہ ایک شعوری مخلوق ہے، جسے سوچنے، سمجھنے اور بہترین کا انتخاب کرنے، اورراہِ راست پرچلنے کا بھرپوراختیاراور اہلیت حاصل ہے
ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اسے مغرب میں جدید دور کے بعد کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور کے بڑے سوچنے والے کہتے ہیں کہ علم (knowledge) اب کوئی اہم اور مقدس چیز نہیں رہا، یہ اب انسان کے پاس بھی نہیں رہا بلکہ مشینوں کو منتقل ہوچکا ہے، اور اب علم بڑے ڈیٹا کا کھیل بن چکا ہے۔ یہ انہوں نے اس لیے سوچا کیونکہ وہ آدمی کو مشین سمجھتے ہیں، اور معلومات (information) کو علم سمجھتے ہیں، مگر یہ سوچ درست نہیں۔ آدمی مشین نہیں اور علم معلومات نہیں۔۔۔ یہ جدید جاہلیت کا تسلسل ہے۔ ہم اسے آسان ترین لفظوں میں جدیدیت کے بعد کی جہالت کہہ سکتے ہیں۔ ہم اس جہالت میں جی رہے ہیں اور مشین کے ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ایسی زندگی بسر کررہے ہیں جس میں علم موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتشار ہی انتشار ہے۔
مضمون پھیلاکر اسے واضح اور آسان کرتے ہیں۔ جدیدیت کے بعد کی صورتِ حال سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ جدیدیت کیا ہے؟ تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں۔ صرف دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ جدیدیت میں بڑے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں بہت اہم ہیں۔ ان باتوں اور خیالات پر دنیا کے بڑے بڑے نظام بنائے گئے، تحریکیں چلائی گئیں۔ مثلاً کمیونزم، ہیومنزم، سرمایہ دارانہ نظام، روشن خیالی، رومانوی تحریک، اور مذاہب کی تعلیمات وغیرہ وغیرہ۔ ان نظاموں میں سے ہر ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ انسانوں کے لیے یہ بہترین نظام ہے، اور یہ وعدہ کیا کہ اب ساری دنیا کے حالات ہمیشہ کے لیے اچھے ہوجائیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ دوسری بات یہ کہ چند سچ ایسے ہیں جو اٹل ہیں، جن سے زندگی کے سارے اصول بنائے جاسکتے ہیں، مگر یہ سچ بھی قائم نہ رہ سکے۔ جدیدیت کے بعد کے بڑوں نے یہ دونوں باتیں مسترد کردیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سارے بڑے بڑے نظام ناکام ہوچکے ہیں، تاریخ رک چکی ہے، کوئی سچ اٹل نہیں ہے، کسی چیز کے کوئی معنی نہیں، ہم جسے علم کہتے ہیں وہ ہمارے اندر کے ارادے اور رجحانات ہیں جو ہم نے اپنی اپنی تاریخ اور واقعات سے گھڑلیے ہیں۔
جدیدیت کے بعد کے بڑوں میں لیوتار کا نام سرفہرست ہے جو فرانسیسی فلسفی ہے۔ لیوتار نے 1984ء میں “A REPORT ON KNOWLEDGE” شایع کی۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’جدیدیت کے بعد کے انسانوں کے لیے ڈیٹا بینک ہی انسائیکلوپیڈیا اور یہی نظام فطرت ہے۔‘‘ لیوتار کہتا ہے کہ جدیدیت کے بعد ’علم‘ کی نوعیت بدل چکی ہے۔ یہ اب کمپیوٹر نالج بن چکی ہے۔ لیوتار کہتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے۔ علم آدمی سے مشین میں منتقل ہوچکا ہے۔ علم کی حیثیت کمرشل ہوچکی ہے۔ یہ اب منڈی کا مال بن چکا ہے، اسے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے۔ ’علم‘ اپنا اصل جواز کھوچکا ہے۔ اس کا کمرشل استیصال عام ہوچکا ہے۔ یہ اب محترم نہیں رہا بلکہ محروم اور محکوم بن چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو علم کمپیوٹر اور ڈیٹا کی تحویل میں نہیں دیا جائے گا وہ قصہ ماضی بن جائے گا۔ ایک اور بہت اہم مابعد جدید مفکر مشل فوکو کا مشہور جملہ ہے ’’علم غیرجانب دار اور بامقصد نہیں رہا، یہ اب طاقت وروں کے تعلقات میں فقط ایک پراڈکٹ ہے‘‘۔
جدیدیت کے بعد کی صورت حال، یعنی مابعد جدیدیت POST MODERNISM)) میں علم اور معلومات کے درمیان فرق کیوں مٹادیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ سمجھنا آسان کردے گا کہ یہ حضرات ایسا کیوں کہہ رہے ہیں اور ایسا کیوں سمجھ رہے ہیں۔ دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ لوگ انسان کو بھی ایک قسم کی مشین سمجھتے ہیں، ایک ایسی مشین جو طبیعات، حیاتیات اور دیگر عوامل کے اتفاقاً مل جانے سے بن گئی، یہ پہلے ایک امیبا، پھر مچھلی، پھر مگرمچھ، اور پھر بن مانس، پھر نئینڈرتھل اور پھر انسان بن گئی۔ اس لیے یہ سمجھنا عین فطری ہے کہ اب بہتر میشنیں انسان کی جگہ لے لیں گی، اور انہیں ایسا کرنا چاہیے، اور انہیں ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری بات یہ کہ مغرب کے ان بڑوں کے پاس دستیاب ’’علم‘‘ کامل اور اٹل نہیں رہا۔ مذہب سے سائنس تک ان کے سارے علوم کامل اور حتمی ثابت نہیں ہوئے، اور یہ ممکن تھا بھی نہیں۔
اس صورتِ حال کے حل اور حل کی ضرورت پرجانے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہوگا کہ علم انسان کے اندر ہوتا ہے، معلومات انسان کے باہر ہوتی ہیں۔ آسان لفظوں میں علم آدمی کا تخلیقی تصور یا قوتِ تخیل ہے، جبکہ معلومات عام نظر آنے والی اشیا کے بارے میں یہ سیکھ لینا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کس لیے ہیں۔ ایک جملے میں علم کی مکمل تعریف یہ ہے کہ: علم ’’شعورِ‘‘ انسانی ہے۔ یہ شعور معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کی کاٹ چھانٹ کرتا ہے، انہیں قبول کرتا ہے یا قبول نہیں کرتا، انہیں کارآمد بناتا ہے۔ علم معلومات کو قبول صورت بناتا ہے۔ معلومات خام مال ہے جسے علم خالص حالت میں ڈھالتا ہے۔
جدیدیت کے بعد کی اس صورت حال کا کیا حل ہے؟ اور حل نکالنا کیوں ضروری ہے؟
حل اس لیے ضروری ہے کہ دونوں صورتوں میں آدمی کی تباہی ہے۔ اگر وہ مشین ہے یا مشین کا غلام اور ایسا علم کہ جو منڈی کا بکاؤ مال بن جائے۔ حل یہ سمجھنا ہے کہ آدمی کوئی ڈیٹابینک مشین نہیں ہے بلکہ ایک شعوری مخلوق ہے، جسے سوچنے، سمجھنے اور بہترین کا انتخاب کرنے، اورراہِ راست پرچلنے کا بھرپوراختیاراور اہلیت حاصل ہے۔ آدمی کوخدا نے باقاعدہ خلق کیا ہے اورعلم عطا کیا ہے۔ علم کی یہ کامل اور مستحکم صورت قولِ خدا ہے۔ قرآن حکیم وہ حتمی ’علم‘ ہے جسے انسانوں کی راہِ راست کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ آدمی کی یہ خلقی اور علمی حیثیت جب تک قائم رہے گی، دنیا قائم رہے گی۔