آئی ایم ایف کے احکامات کی منظوری،قرضے کی قسط کا اجرا واشنگٹن کی منظوری سے مشروط

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 170 ارب روپے کا منی بجٹ قومی اسمبلی سے منظور کروالیا۔ یہ رقم اضافی ٹیکسوں سے صرف 4 مہینوں میں وصول کی جائے گی جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجانے کی امید ہے۔ مارچ میں اس معاہدے کی حتمی منظوری ہوگی اور ہمیں 1.12ارب ڈالرکی قسط مل جائے گی۔ عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور دوست ممالک بھی ہمارے کشکول میں سکے ڈال دیں گے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو بجلی، گیس اور ریونیو سیکٹر میں اصلاحات لانے کی شرائط سے بھی آگاہ کیا ہے جس میں گردشی قرضوں میں کمی، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ایکسپورٹ کی صنعتوں اور دیگر صارفین کو گیس کے نرخوں میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ ان اقدامات سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور افراطِ زر بڑھ کر 30فیصد ہوسکتا ہے۔ قومی خزانے پر اس وقت مختلف شعبوں کے باعث 4500ارب روپے کا گردشی قرضہ یاسرکولر ڈیٹ ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں ہمارے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہیں جو 2022-23ء کے پہلے 6 مہینے میں بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہوگئی ہیں۔ جنوری سے جون 2023ء تک پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی مزید ادائیگیاں کرنی ہیں اور معاہدے کے مطابق 30 جون تک دو ماہ کے امپورٹ بل کے برابر 10 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے کی شرط بھی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔ ڈالر کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھنے کی کوشش کے باعث ہنڈی اور بلیک مارکیٹ دوبارہ مضبوط ہوئی، ترسیلاتِ زر کی مد میں ہر ماہ ایک سے دو ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑا۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین 9ویں جائزہ پروگرام کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد وزیر خزانہ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس سے اس بات کا اشارہ ملا کہ آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے معاشی پالیسیوں میں پے در پے تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلی قسط کے اجراء سے پہلے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھنے اور مستقل بنیادوں پر آمدنی بڑھانے کی شرائط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے فنڈنگ کی یقین دہانی مانگ لی ہے اور اسٹاف لیول معاہدے کو ان شرائط کی تکمیل اور واشنگٹن کی منظوری سے مشروط کردیا ہے۔ مسئلے کا حل یہی ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے اور وزیروں، مشیروں کو ملنے والی مراعات ختم کی جائیں۔ دنیا کا کوئی بھی مقروض ملک ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا جو پاکستان میں جاری ہیں۔ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، کوئی بھی عوامی تحریک ابھری تو نتائج ماضی سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ عوام کی کمر پر مہنگائی اورمنی بجٹ کا کوڑا مارا گیا ہے، یہ منی بجٹ بڑے بجٹ سے بھی زیادہ جان لیوا ہے۔ سالانہ قومی بجٹ میں تو حکومت کہیں ٹیکس لگاتی ہے اور کسی پر ٹیکس میں چھوٹ دے دیتی ہے، مگر اِس بجٹ میں تو بس عوام سے سب کچھ لے لیا گیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس جسے مہنگائی ٹیکس کہنا زیادہ مناسب ہوگا، تمام اشیاء پر لگا دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس ہر دور میں حکومتوں کا ایک آسان ہدف رہا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس بالواسطہ ٹیکس ہے جو بالآخر صارف پر آکر گرتا ہے، باقی سب اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کی تلوار لٹکتی ہی صرف غریب عوام پر ہے کہ خریداروں کی آخری صف میں تو وہی کھڑے ہیں۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف دو اہم نکات پر زور دے رہا ہے، پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے، جو لوگ نجی یا عوامی سیکٹر سے اچھا کما سکتے ہیں انہیں معیشت میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے، پاکستان میں غریبوں کو سبسڈی دی جائے اور انہیں تحفظ کی ضرورت ہے، امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انہیں سبسڈی ملے۔ اب صورت یہ ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکسوں کا حجم بتا دیتا ہے اور حکومت غریبوں پر ٹیکسوں کی چھری چلا دیتی ہے۔ یہ منی بجٹ بھی عوام پر عذاب کی صورت ٹوٹا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ انتہائی فضول جملہ ہے کہ غریبوں پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ بوجھ آیا ہی صرف غریبوں پر ہے، امیر طبقہ تو اپنا بوجھ ان پر منتقل کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ حکومت نے ایک لمحے صبر نہیں کیا اور رات کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھا دیں، یعنی مرے کو مارے شاہ مدار والی پالیسی۔ ایک مہنگائی اس منی بجٹ سے آئے گی جس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، اور دوسری مہنگائی اس پیٹرول بم کے نتیجے میں آگئی ہے۔ ساتھ ہی اوگرا نے گیس کی قیمت میں 113 فیصد اضافہ بھی کردیا ہے۔ نجانے آئی ایم ایف اور حکومت میں بیٹھے ہوئے ارب پتی لوگ عوام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں! ان کا خیال غالباً یہ ہے کہ عوام مکر کرتے ہیں اور غربت و مہنگائی کا جھوٹا رونا رو رہے ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر اس مؤقف کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ خزانہ خالی ہے اور کشکول لے کر ہم دنیا کے کونے کونے میں جا چکے ہیں، لیکن کوئی ہمیں ایک دمڑی دینے کو تیار نہیں۔ ایسے میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو راضی کریں۔ اس حد تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن ہماری اشرافیہ جو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی ہوئی ہے کیا اُس کے نزدیک ہر مسئلے کا حل یہی ہے کہ پہلے سے پسے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے! کیا ملک میں ایسے بڑے بڑے سیکٹر موجود نہیں جنہیں دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کرکے ہم ایک سو ستر ارب نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ حاصل کرسکتے ہیں! لیکن یہ بات اب تسلیم کی جانی چاہیے کہ پاکستان طاقتور طبقوں کا ملک ہے، یہ جس طرح کے چاہیں فیصلے لے سکتے ہیں، اور جب چاہیں عدالت میں پیش ہوں نہ ہوں، انہیں کوئی پروا ہی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ ان کے تحفظ کے لیے ہی نہیں بڑھایا جاتا، بالواسطہ ٹیکسوں یعنی جی ایس ٹی کے ذریعے ٹیکس اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں یہ ایک طبقہ خوش حال ہے مگر براہِ راست ٹیکس نہیں دیتا، اور آخری صارف ہے جو سانس لینے کے سوا ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے۔ ایف بی آر کو بھی جی ایس ٹی لگاتے ہوئے ذرا حجاب نہیں آتا۔ ارب پتی افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے طاقت وروں کے آگے اس کے پَر جلتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں بالادست اور خوشحال طبقوں سے ٹیکس لے کر معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں معاملہ اُلٹ ہے۔ یہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر مراعات یافتہ طبقوں کی زندگی کو مزید بہتر بنانے پر صرف کیا جاتا ہے۔ ایسے منی بجٹ آئی ایم ایف کو تو راضی کرسکتے ہیں، ان سے ملک کی معاشی حالت نہیں سنبھل سکتی۔ ملک کی معیشت اُس وقت سنبھلتی ہے جب عوام کی قوتِ خرید بہتر ہوتی ہے۔ ان پر بار بار ٹیکس لگا کر رہی سہی قوتِ خرید ختم کرنے سے معیشت کا دیوالیہ تو نکل سکتا ہے، اس میں بہتری نہیں آسکتی۔ بہتری اُس وقت آئے گی جب حکومت ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانے کی جرأت کرے گی، ٹیکس چھوٹ ختم کرکے ان تمام طبقوں کو قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور کرے گی جو معیشت کے حجم کا ستّر فیصد ہیں مگر ان کا معیشت میں ٹیکسوں کی بابت حصہ بیس فیصد بھی نہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو نہیں رہا بلکہ ہوچکا ہے، ہم ایک دیوالیہ ملک کے رہنے والے ہیں۔ یقینی طور پر انہوں نے یہ بات کسی مصدقہ اطلاع پر ہی کہی ہوگی۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارا ملک اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کبھی اسٹیبلشمنٹ، بدعنوان سیاست دانوں اور کبھی بیوروکریسی کے ہاتھوں میں رہا، رہی سہی کسر دہشت گردی کے واقعات نے نکال دی ہے۔

سینیٹ میں عوام کے مفاد میں سوچنے والے سینیٹرز نے منی بجٹ مسترد کردیا، اور ایوان میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کے لیے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نکتہ اعتراض پر گفتگو کے دوران ایک دستاویز ہوا میں لہرا کر پڑھ کر سنائی کہ ’’ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10 لاکھ روپے ملتے ہیں، اس کے علاوہ مفت بجلی کے 2 ہزار یونٹ، 3 سو لیٹر مفت پیٹرول اور 3 ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں، حالانکہ اس لگژری طرزِ زندگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 60 بلٹ پروف لگژری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیں، جبکہ ’دیگر بڑے افراد‘ کے پاس ایسی ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ہیں جو مفت پیٹرول سے بھری ہوئی ہیں۔ کسی کے لیے بجلی، گیس یا پیٹرول مفت نہیں ہونا چاہیے۔ منی بجٹ غریبوں کے لیے ڈیتھ وارنٹ ہے، غریبوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے اب کچھ بوجھ اشرافیہ پر ڈال دیں۔‘‘ انہوں نے 87 رکنی وفاقی کابینہ کو دنیا کی سب سے بڑی کابینہ قرار دیا اور اس کے حجم میں خاطر خواہ کمی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بیان مسترد کرتا ہوں کہ ہمارے پاس عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘‘۔ یہ ایک سینیٹر کی آواز نہیں، بلکہ بائیس کروڑ عوام کا دکھڑا تھا جسے سینیٹ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ دکھ اور بڑھ جاتا ہے جب اس بات پر یقین ہو کہ منی بجٹ مقامی طور پر تیار نہیں ہوا بلکہ اس کی ایک ایک شق کی نبض آئی ایم ایف کی منشا اور مرضی کے عین مطابق چل رہی ہے۔ سینیٹ میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائدِ حزبِ اختلاف سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بھی منی بجٹ کو عذاب قرار دیا کہ منی بجٹ کی سفارشات عوام کو تباہ کردیں گی، ان سفارشات کا مقصد ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے کے بعد عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ سینیٹ میں منی بجٹ پر بحث ہوئی، تاہم اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

ایک جانب کفایت شعاری کی مہم ہے اور دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے حکومت سے 155 لگژری کاروں کی درآمد کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کیاکہ حکومت تمام سرکاری اداروں میں کفایت شعاری کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے اور اعلان ہونا باقی ہے، حکومتی اخراجات کو کم سے کم کرکے مالیاتی خسارے پر قابو پایا جا سکے گا، حکومت پی ٹی آئی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر صرف ’اپنی سیاست کی قیمت پر ریاست کو بچانے کے لیے‘ عمل کررہی ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز حکومت کا ساتھ دیں، کیونکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ’سخت فیصلوں‘ کی ضرورت ہے، منی بجٹ کے سوا حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جب تسلیم کیا جارہا ہے کہ ملک نادہندہ ہونے کے قریب ہے، تو پھر حکومت انتظامیہ کا اختیار ہونے کے باوجود سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں پر قابو کیوں نہیں پارہی؟ سب سے اہم مسئلہ بجلی، گیس کی چوری کا ہے، یہ سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہے جس پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا۔ یہ چوری کبھی اکائیوں میں تھی، اب اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں ملک میں رواں سال کے دوران 380ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے جو آئندہ ٹیرف میں 520 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے، اس میں 200ارب روپے کی بجلی کنڈوں اور 80 ارب روپے کی میٹرز کے ذریعے چوری کی گئی، چوری کا بڑا حصہ خیبر پختون خوا میں ہے جہاں 185ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ہے، صرف بنوں میں 7 ارب اور مردان میں 80 فیصد بجلی چوری ہوئی ہے۔ بجلی کی چوری بھی ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ برسہا برس سے اس کے کھلے دروازے ہماری بدانتظامی کی گواہی دے رہے ہیں۔ بجلی چوری میں سیاست دان، صنعت

کار، تاجر، کاروباری ادارے اور قانون کو چیلنج کرنے والے عام صارفین تک شامل ہیں۔ واپڈا کے بدعنوان افسر بجلی چوروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اور یہی چوری کی اصل وجہ ہے۔ اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ بجلی چوروں کے لیے اے بی سی کیبل کا توڑ بھی نکال لیا گیا ہے، اس کے لیے باقاعدہ کمپنیاں قائم ہیں۔ بجلی چور ان کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، یہ طریقہ سکھر والوں نے ایجاد کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 20 فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے اور 10 فیصد بجلی کے بل ادا نہیں ہوتے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے یہ رقم لائن لاسز کے نام پر صارفین کے بلوں میں شامل کردی جاتی ہے۔

حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حکومتی ماہرین کے پاس ترسیلاتِ زر میں اضافے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے 9 ماہ بعد بھی گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں، بہتری لانے کا کوئی روڈ میپ ان کے پاس نہیں ہے۔ حالات آج جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں حکمرانوں کو اگر یہ لگتا ہے کہ اس ڈوبتی کشتی سے صرف عوام کو ہی خطرہ ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے، کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور بھوک، بدحالی، بے روزگاری کا وبال عوام کی زندگیاں چھین رہا ہے، حالات میں اگر بہتری نہ آئی تو اس سفینے کے ساتھ حکمرانوں کے تخت و تاج کو بھی ڈوبنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔