پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران اور خطرات سے گزر رہا ہے، عالمی سطح پر اس کا گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ خراب معاشی اور سیاسی حالات جہاں سیاست دانوں کی بدعنوانی اور نااہلی کا نتیجہ ہیں، وہیں یہ بڑے عالمی کھیل کا حصہ بھی ہے۔ کھیل کے کھلاڑی مقامی ایجنٹوں کے بھرپور تعاون سے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ ملک میں سیاسی افراتفری اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے جہاں عوام مایوسی کا شکار اور معاشی بدحالی سے پریشان ہیں وہیں اس وقت پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے بلکہ بعض حکومتی وزیروں کے مطابق پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کو زرمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے اور کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں اُن میں سب سے بڑی علامت اس ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کتنی قسطیں اور ان پر سود کی کتنی ادائیگی ہونی ہے، اور اس وقت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 5 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں جو ایک مہینے کی امپورٹ کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ دوسری طرف 2021ء کے ایک جائزے میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ بہت کچھ بتاتی ہے کہ اشرافیہ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے، اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے طبقہ اشرافیہ کو حاصل مراعات پر ملکی معیشت سے 17.4؍ ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن اس خرابی کو دور کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ اس رقم کو غریبوں اور ملک کے ضرورت مند طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔ یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کردہ نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) برائے پاکستان میں ؍بائیس کروڑ عوام کے ملک میں پائی جانے والی عدم مساوات پر توجہ مرکوز رکھی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے اشرافیہ طبقے بشمول کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں، زمینداروں، سیاسی طبقے اور ملک کی سویلین اور طاقتور ملٹری بیوروکریسی کو حاصل مراعات اور سہولتوں پر ملکی معیشت کا 6؍ فیصد یعنی 17.4 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
انصار عباسی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ تقریباً 200؍ ایسے گالف کلب ہیں جو ایک مخصوص طبقے کے لیے سرکاری زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اور اگر یہ زمینیں سرکاری تحویل میں واپس لے کر ان کی نیلامی کی جائے تو پاکستان اپنے غیر ملکی قرضہ جات کا ایک بڑا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ لاہور میں 1500؍ کینال سرکاری زمین پر قائم کردہ ان کلبز کا کرایہ صرف پانچ ہزار روپے ادا کیا جاتا ہے“۔ یہ صرف ایک مثال ہے، پاکستان کی تاریخ میں اشرافیہ نے عوام کا صرف استحصال ہی کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک انارکی کے دہانے پر ہے، کراچی کے حالات ہمارے سامنے ہیں، یہاں تو ہر ہر لحاظ سے ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں ہے اور عملی طور پر پاکستان مفلوج ہوچکا ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ امریکہ ایسے ہی حالات چاہتا ہے۔ اس نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے، پاکستان کو اپنا مکمل غلام بنانے، اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ جمانے کے عمل کو ماضی کے مقابلے میں تیز کردیا ہے اور سنجیدہ حلقے گزشتہ دنوں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے دورے کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے دورے کے ایجنڈے کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ جب سیاسی حلقوں اور سماجی ذرائع ابلاغ پر اس دورے پر سوالات اٹھائے گئے تو پاکستانی حکومت نے ایٹمی پروگرام پر ڈیل کی باتوں کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کے دورئہ پاکستان کے دوران ملک کے جوہری پروگرام کو روکنے کا معاملہ ایجنڈے پر ہے، نہ ہی اس پر کوئی بات ہوئی ہے اور اُن کا دورہ معمول کی بات ہے، ایٹمی پروگرام ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں آئی اے ای اے کے وفد کے دورے کے موقع پر منفی خبروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئی اے ای اے کا مینڈیٹ سویلین ایٹمی ٹیکنالوجی تک محدود ہے، جوہری پروگرام اور اثاثوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں، آئی اے ای اے ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر جوہری ٹیکنالوجی کے محفوظ اور پُرامن استعمال کو فروغ دینے کے ٹائٹل کے ساتھ امریکی مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔ ڈان کے مطابق دفتر خارجہ کی جانب سے یہ وضاحتی بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کچھ حلقوں کی جانب سے ایسے دعوے اور الزامات سامنے آئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ معاشی بحران کے شکار ملک سے نیوکلیئر طاقت واپس لینے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ دفتر خارجہ کی وضاحت کچھ بھی ہو لیکن پاکستانی قوم یہ بات سمجھتی ہے کہ امریکہ پاکستان کا حقیقی دشمن ہے اور وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرانا چاہتا ہے جس کے لیے اُس کا دبائو سامنے آتا رہتا ہے، ماضی میں امریکی صدر جوبائیڈن کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ اُن سے پہلے امریکی صد ر ڈونلڈٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ پاکستان اپنی جوہری ٹیکنالوجی کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہا ہے۔ امریکہ میں صدر کوئی بھی ہو پاکستان کی اسٹرے ٹیجک پوزیشن ایسی ہے کہ امریکہ کی پاکستان پر بھرپور گندی نظر رہی ہے اور وہ پاکستان کو اس خطے میں چین اور روس کے پس منظر میں بھی بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ تو ایسے میں تشویش کیوں نہ ہو کہ امریکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور اسے نہ صرف محدود کرنے بلکہ ممکنہ طور پر مکمل تباہ کرنے کے لیے بات چیت کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ بظاہر دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا مشن جوہری عدم پھیلاؤ میں اس کے وسیع تر مفاد کا حصہ ہے، لیکن اس کے منصوبے اور دوغلے معیار سے پوری دنیا واقف ہے، اور حقیقت میں امریکہ خود اس خطے اور دنیا کے لیے تباہ کن ہے۔ اس میں کوئی دور رائے نہیں ہیں کہ ایٹمی پروگرام پاکستان کے لیے ضروری ہے، اور اس کا پس منظر بھارت کی پاکستان دشمنی ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام 1973ء میں اپنے قیام کے بعد سے ہی قوم کے لیے فخر اور تحفظ کا باعث رہا ہے۔ یہ جوہری پروگرام محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اس قوم پر احسان ہے، لیکن نتیجے کے طور پر انہیں فوجی آمر پرویزمشرف کے ذریعے ٹیلی ویژن اسکرین پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں 1974ء میں یورینیم کی افزودگی کا کام باقاعدہ شروع ہوا، اور سائنس دان 1982ء تک 90 فیصد افزودگی کے قابل ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ ”پاکستان نے 1984ء میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی اورمیں نے جنرل ضیاالحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں، لیکن اُن کے امریکہ نواز وزیر خارجہ اور دوسرے وزیروں نے سخت مخالفت کی تھی، جس کے بعد 1998ء میں جب انڈیا نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کے لیے کوئی چارئہ کار نہیں رہا کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے، اور یوں پاکستان بھی جوہری طاقتوں کی صف میں شامل ہوگیا۔“ ایٹم بم کے پہلے کامیاب تجربے سے لے کر جوہری وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائیل کے کامیاب تجربے تک ہمارا ملک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک رہنما رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کا جوہری پروگرام اندرونی اور بیرونی دونوں طاقتوں اور ایجنٹوں کی طرف سے خطرے میں ہے، اور اصل بات تو یہی ہے کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار رہا ہے۔ اقتصادی طور پر مفلوج پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ تو ہے، امریکہ جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے اور پاکستان پر زور دیتا رہتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا جوہری پروگرام محفوظ ہے، اور غلط ہاتھوں میں نہ جائے۔ ملکی سیاسی عدم استحکام اور وسائل کی کمی کی وجہ سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ اب تک پاکستان نے معاشی مشکلات اور کمزور حکومتوں کے باوجود قوم کے دبائو پر اپنے جوہری پروگرام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اصل بات یہ ہے اور دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے اور وہ شاید سمجھتی بھی ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے، بلکہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے اور ایٹمی پروگرام ہمارے دفاع کے لیے ہے کیونکہ ہمارے پڑوس میں ایٹمی طاقت رکھنے والا بھارت موجود ہے اور سب جانتے ہیں کہ عالمی ایٹامک کمیشن کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کو حق ہے کہ وہ پُرامن مقاصد کے لیے اپنا جوہری پروگرام چلائے اور رکھے، اور پاکستان کا جوہری پروگرام صرف اور صرف اپنی بقا کے لیے ہے، نہ کہ کسی کھیل کاحصہ۔ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے۔ اگر جوہری پروگرام پر پابندی لگانی ہے تو سب سے پہلے اُن ممالک پر لگانی چاہیے جو خود ایٹمی طاقت ہیں اور انسان دشمنی کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔ کیونکہ حقیقی معنوں میں اگر دنیا کو خطرہ ہے تو وہ امریکہ اور بھارت کے جوہری پروگرام سے ہے۔
ہم یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ امریکہ آئی ایم ایف کی چھتری تلے جو کھیل اپنے ایجنڈے کے تحت کھیل رہا ہے اور جو بہانے تلاش کررہا ہے وہ کسی طور اِس خطے کے لیے بڑے خطرے سے کم نہیں ہیں۔ اس آگ میں بہت کچھ جل سکتا ہے جس میں بھارت کے ساتھ امریکہ بھی شامل ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کا مصنوعی پروگرام اگر جاری رہا تو پوری دنیا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت عوام دشمن قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان قوتوں کا مقصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اور اس کے لیے امریکی ماتحت اداروں کی کاسہ لیسی اور غلامی کرنا ان کا اوّلین مقصدِ حیات ہے۔ اسی لیے اس طرح کے دوروں کے نتیجے میں تشویش پیدا ہونا ویسے ہی فطری عمل ہے لیکن یہ تشویش اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہماری حکومت کسی خطرے کی تردید کرتی ہے۔ کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سیاسی اور ’’غیر سیاسی‘‘ اشرافیہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں غلامی کا طوق پہن کر عوام دشمن اقدامات کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کچھ بھی فروخت کرسکتے ہیں چاہے وہ جوہری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام قومی فخر، بقا اور سلامتی کا ذریعہ ہے، اور ضروری ہے کہ حکومت اس کے تحفظ اور اس کی مسلسل کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے، ورنہ یہ ریڈلائن ہے جس کو کراس کرنے پر قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، کیونکہ پاکستان کا جوہری پروگرام کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کا ہے، اور قوم کو بھی اس حوالے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر جوہری توانائی کے خلاف چھپی اور کھلی سازش میں قوم خاموش رہی اور اہم قومی معاملات کی طرح اس کو بھی نظرانداز کردیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، اور اس کی بہت بڑی قیمت موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کو دینا ہوگی۔