فراقؔ گورکھپوری کا شعر ہے:
دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا
اے چشمِ لطف تیری ضرورت ہے دور دور
فراقؔ کے اس شعر کا پہلا مصرع ایک سطح پر روحانی یا مابعدالطبیعیاتی سطح کا ایٹمی دھماکہ ہے، دوسری سطح پر یہ نفسیاتی و جذباتی ہائیڈروجن بم کی تباہ کاری ہے، تیسری سطح پر یہ عالمی نوعیت کا سماجی زلزلہ ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟
انسانی زندگی ’’تعلق‘‘ سے عبارت ہے اور انسان کے چار تعلق بنیادی ہیں:
-1 انسان کا خدا سے تعلق
-2 انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق
-3 انسان کا اپنی ذات سے تعلق
-4 انسان کا کائنات سے تعلق
فراقؔ کے مصرعے کی ہولناکی یہ ہے کہ یہ مصرع تعلق کے پورے منظرنامے کے انہدام کا اعلان ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ سات ارب انسانوں میں سے ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو اپنے خالق، مالک اور رازق کو جانتے ہی نہیں۔ یہ صورتِ حال آج سے دو ہزار سال پہلے ہوتی تو بھی ہولناک ہوتی، لیکن آج اس کی ہولناکی یہ ہے کہ جدید انسان اپنے عہد کو علم، شعور اور آگہی کا دور کہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ چاند پر اتر چکا ہے، اس نے مریخ پر کمند ڈال دی ہے اور ستاروں کی طرف پرواز کا خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن وہ زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی، سب سے واضح اور سب سے روشن حقیقت کے بارے میں رتی برابر بھی علم نہیں رکھتا اور نہ رکھنا چاہتا ہے۔ اسے نہ خدا کی ذات کا علم ہے، نہ خدا کی صفات کا… وہ نہ خدا کی مرضیات کو سمجھتا ہے نہ اسے یہ معلوم ہے کہ خدا کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ ہمارے دور میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے آبا و اجداد خدا پر ایمان رکھتے تھے، مگر یہ لوگ اپنے آبا و اجداد کے ایمان پر شرمندہ ہیں اور خود کو اُن کی فکر اور تاریخ سے الگ کرکے دیکھنا چاہتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ لوگ خدا کے ساتھ تعلق کے مکمل انہدام کے دائرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔
سات ارب انسانوں کی آبادی میں مزید ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو خدا کے وجود کے قائل تو ہیں مگر انہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں۔ ہندو ایک سطح پر 3 خدائوں اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدائوں کو مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک سورج بھی پوجا کے لائق ہے، چاند بھی پوجا کا حق دار ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں آپ کو ایسے مندر بھی مل جاتے ہیں جہاں چوہوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ یہ خدا کے ساتھ تعلق کے جزوی انہدام کا منظر ہے۔
دنیا میں صرف مسلمان وہ امت ہیں جو ایک خدا پر کامل ایمان رکھتے ہیں، لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے خدا کو ایک زندہ حقیقت سمجھنے کے بجائے ایک ’’تصور‘‘ میں ڈھال دیا ہے۔ اس سے بھی بڑی ہولناکی یہ ہے کہ خدا مسلمانوں کی ترجیحِ اوّل نہیں ہے۔ خدا اور اس کے دین کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت کی تفصیل اقبال کی شاعری میں موجود ہے۔ مثلاً اقبال نے کہا ہے:
زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ایک اور جگہ اقبال نے مسلمانوں کے قلتِ یقین کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
ایک اور مقام پر اقبال نے ارشاد فرمایا ہے:
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
خدا سے مسلمانوں کے تعلق کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے اقبال یوں گویا ہوتے ہیں:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
اقبال کے ان شعروں پرغور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خدا سے مسلمانوں کا تعلق ٹوٹا تو نہیں مگر اس تعلق میں کیفیت اور معنی کم ہیں، عادت اور ظاہر داری زیادہ ہے، اور وہی اصل دین بن کر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت بھول گئی ہے کہ خدا کے نزدیک ’’محبت کی رائی‘‘ ہر زمانے میں ’’دکھاوے کی پہاڑی‘‘ سے اربوں گنا زیادہ قابلِ قدر ہے۔
خدا کے بعد پیغمبروں کے ساتھ تعلق کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، مگر ہمارے دور میں پیغمبروں کے ساتھ تعلق میں بھی معنی اور حُسن و جمال کا فقدان ہے۔ ہندو رام کو پیغمبر سمجھتے ہیں مگر اُنھوں نے رام کو ’’رام لیلا‘‘ کے ڈرامے تک محدود کردیا ہے۔ وہ ہر سال رام کی زندگی کو ڈرامے کی صورت میں اسٹیج کرتے ہیں مگر ہندوئوں میں کوئی بھی رام کی سیرت کو اختیار کرتا ہوا یا رام کے راستے پر چلتا نظر نہیں آتا۔ عیسائی دنیا کے لیے حضرت عیسیٰؑ ماضی کی یادگار ہیں، اور وہ انہیں ’’حال‘‘ میں صرف کرسمس کے موقع پر یاد آتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں اور مسلمانوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عقیدت ہے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم دنیا ’’مقامِِ محمدیؐ‘‘ کو سمجھنے سے قاصر، سیرتِ طیبہ کے مطابق زندگی بسر کرنے سے عاجز، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و وقار کا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔
غور کیا جائے تو عام مسلمانوں کے باہمی تعلق میں بھی کہرام مچا ہوا ہے۔ انسانوں میں سب سے گہرا اور قریبی تعلق شوہر اور بیوی کا ہے، مگر مغربی دنیا میں شادی کے ادارے کا یہ حال ہے کہ وہاں شادی طلاق حاصل کرنے کا بہانہ بن گئی ہے۔ مغرب میں شادی کے لائق چالیس، پچاس فیصد لوگ شادی نہیں کررہے۔ جو لوگ شادی کررہے ہیں اُن میں سے اکثر کی شادیاں طلاقوں پر منتج ہورہی ہیں۔ مغرب میں جہاں شادی کا ادارہ قدرے مستحکم نظر آتا ہے وہاں زوجین بچے پیدا کرنے اور انہیں محبت سے پالنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ والدین اور بچوں کا تعلق مغرب میں بوجھ بن چکا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ والدین کی بڑی تعداد پندرہ، سولہ سال کی عمر کے بعد بچوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیتی ہے، چنانچہ بچوں کی بڑی تعداد بھی والدین کو اُن کے بڑھاپے میں ’’ترک‘‘ کرکے اولڈ ہائوسز بھیج دیتی ہے۔ مغرب کوعام طور پر ’’رومانس‘‘ کی دنیا سمجھا جاتا ہے، لیکن مغرب میں رومانس کا یہ حال ہے کہ ہالی ووڈ کی اکثر فلمیں غیر رومانوی ہوتی ہیں۔ ہالی ووڈ کی فلموں میں جنس یا Sex تک تعلق کا حوالہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت ہالی ووڈ کی فلموں میں ایک ’’مصالحے‘‘ کی ہے۔ مغرب میں ’’پڑوس‘‘ کا تصور عرصہ ہوا ختم ہوچکا ہے اور وہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب اس امر کی چغلی کھا رہا ہے کہ مغرب کے لوگ ’’دوسروں‘‘ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی اہلیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ دوسروں یا Others کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی اہلیت ہی انسان کے جذبے اور تناظر کا اصل امتحان ہے۔ اس لیے کہ ’’اپنوں‘‘ سے تو سبھی محبت کرتے ہیں، مگر ’’دوسروں‘‘ سے صرف وہی محبت کرتے ہیں جن میں تعلق کی حقیقی طلب موجود ہوتی ہے۔
ہماری روایت میں غزل کو عورتوں سے گفتگو کی علامت قرار دیا گیا ہے اور اردو غزل کی روایت عشق و محبت کی روایت ہے۔ مگر بدقسمتی سے جدید اردو غزل محبت اور تعلق کے تجربے کی موت کے اعلانات سے بھری ہوئی ہے۔ آیئے جدید اردو غزل کے چند نمائندہ ناموں کی غزل میں محبت اور تعلق کی موت کے تجربے کا بیان ملاحظہ کرتے ہیں:
دنیا میں ہیں کام بہت
مجھ کو اتنا یاد نہ آ
٭
اگر تُو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
(حفیظ ہوشیار پوری)
تعلقاتِ زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ ترا پیمانِ دوستی بھی نہیں
(عزیز حامدمدنی)
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
٭
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
(ناصر کاظمی)
شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا
مٹی میں جو بیج بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا
٭
دنیا عجب جگہ ہے کہیں دل بہل نہ جائے
تجھ سے بھی دُور آج تری آرزو گئی
٭
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
(خلیل الرحمن اعظمی)
ترکِ طلب پہ خوش تھے کہ آخر کام لیا دانائی سے
کس کو خبر ہے جلتے رہے تم، جلتے رہے ہم دور ہی دور
(ضیا جالندھری)
دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
چور سے ڈرتے تھے لیکن دل کا دروازہ نہ تھا
٭
دیارِ حُسن میں اب روشنی کہاں باقی
بس اک غبار سا ہر سمت اُڑ رہا ہو گا
٭
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہو گا
مجھ میں اتنی بھی سکت کب ہے کہ دھوکے کھائوں
(شہزاد احمد)
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشارسہی، پر اگلا موڑ جدائی ہے
(اطہر نفیس)
دیوی ہے تُو نہ مجھ میں ہیں پیغمبروں کے وصف
مت سٹپٹا کے اٹھ مرے عرضِ سوال پہ
(ناصر شہزاد)
ہے بس اب عادتوں کی خانہ پُری
روح شامل نہیں شکایت میں
زیست اب کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
٭
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں! بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
(جون ایلیا)
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے
(احمد فراز)
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے مجھ کو پیار نہیں
(فیض احمد فیض)
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
٭
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
٭
کوئی عزیز نہیں ما سوائے ذات ہمیں
اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی
(عبیداللہ علیم)
تعلق کے سلسلے میں مشرق کا حال مغرب سے بہتر ہے مگر یہاں بھی انسانی تعلق پر بن آئی ہے۔ بھارت کا معاشرہ روایتی اور مشرقی ہے مگر اس معاشرے میں ایسے لاکھوں والدین ہیں جو ہر سال لاکھوں لڑکیوں کو کم تر یا معاشی بوجھ سمجھتے ہوئے ’’اسقاطِ حمل‘‘ کے ذریعے قتل کردیتے ہیں اور کوئی انہیں قاتل بھی نہیں کہتا۔ بھارتی سماج میں ہر سال ہزاروں لڑکیاں کم جہیز لانے کی پاداش میں مار دی جاتی ہیں یا وہ عمر بھر طعنے سہتی ہیں۔ بھارت میں کروڑوں شودر اور دلت اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، سو فیصد خواندہ ہے، مشرقی تہذیب کا پروردہ ہے، مگر وہاں خودکشی کی شرح انتہائی بلند ہے۔ جاپان میں 18 سے 35 سال کی عمر کی لڑکیوں کی بڑی تعداد اس خوف سے شادی نہیں کرتی کہ ان کی شادی طلاق پر منتج ہوگی۔ مسلم دنیا میں انسانی تعلقات کی صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے، مگر اِس دنیا میں بھی انسانی تعلق کا تناظر زیادہ سے زیادہ معاشی ہوتا جا رہا ہے۔ اسلامی تہذیب میں فضیلت کی صرف دو بنیادیں ہیں: تقویٰ اور علم۔ مگر مسلم معاشرے میں ان دونوں فضیلتوں کا کوئی ’’گاہک‘‘ نہیں۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی اب شادی کرتے ہوئے تقویٰ، علم اور خاندان کو بہت ہی کم لوگ دیکھتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا:
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر نے جب یہ بات کہی تھی تو تنخواہ کا سورج ’’طلوع‘‘ ہورہا تھا۔ آج تنخواہ کا سورج ’’نصف النہار‘‘ پر ہے اور اس کی آگ میں انسانی تعلق اور انسانی رشتے جھلس رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کی فلم انڈسٹری میں عشق و محبت کے سوا رکھا ہی کیا ہے! مگر محبت کے کھیل کے پوری زندگی اور محبت کے کھیل کے پارٹ ٹائم جاب ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہمارے زمانے میں معاش انسان کے خدا سے تعلق کے خلاف سب سے بڑی سازش بن گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے مگر فی زمانہ لوگ صرف اپنی معاشی اہلیت کو دریافت کرتے ہیں، اسی کو ترقی دیتے ہیں اور اسی کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب معاش انسان کے وقت کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے، شہری تمدن میں معاشی سرگرمی روزانہ انسان کے دس سے بارہ گھنٹے کھا جاتی ہے۔ آٹھ گھنٹے سونے میں صَرف ہوجاتے ہیں، باقی چار گھنٹوں میں آدمی کھاتا پیتا ہے، اپنے تعلقات کو نبھاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں انسان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے خیالات و جذبات کی تہذیب کرے، انہیں گہرائی اور تنوع سے ہمکنار کرے، اپنے وجود کے غیر دریافت شدہ حصوں کو دریافت کرے۔ غالب نے کہا تھا:
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
غالب کے زمانے کا انسان ’’تنہائی‘‘ میں بھی ایک ’’محفل‘‘ تھا، اور آج انسان ’’محفل‘‘ میں بھی ’’تنہا‘‘ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ مغربی معاشرے ’’تنہا بھیڑ‘‘ یا Lonely Crowd کا منظر پیش کررہے ہیں۔
گزشتہ چند صدیوں میں انسان نے مادی کائنات کو جس طرح کھنگالا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ طبیعیات، حیاتیات، جینیات اور خلائی تحقیق کے میدان میں انقلابات برپا ہوئے ہیں، لیکن کائنات کے بارے میں سرتاپا مادی تناظر نے کائنات کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مجموعہ نہیں رہنے دیا بلکہ زمین اور کائنات کی اشیا کی علامتی معنویت بھی کہیں کھو گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کائنات کے ساتھ انسان کا تعلق یکسر بدل کر رہ گیا ہے۔ ہمارے صوفیہ نے کہا ہے کہ انسان کائناتِ اصغر ہے اور انسان کے خارج میں موجود کائنات، کائناتِ اکبر ہے۔ یعنی انسان کائنات کا خلاصہ ہے۔ یہ وہ تناظر ہے جو انسان اور کائنات کے درمیان کامل ہم آہنگی دیکھتا تھا۔ کائنات کے ساتھ انسان کے اس ’’تعلق‘‘ سے انسان کو کائنات پر تصرف یا اس سے استفادے کا ’’استحقاق‘‘ حاصل ہوتا ہے، لیکن آج کا انسان کائنات پر اپنے تصرف کا ’’استحقاق‘‘ ثابت کیے بغیر اس پر متصرف ہونا چاہتا ہے۔ یہ کائنات سے ’’استفادہ‘‘ نہیں اس کا ’’استحصال‘‘ ہے۔ چنانچہ انسان اور کائنات کے درمیان ایک مغائرت پیدا ہوگئی ہے، اس مغائرت کے حوالے سے سلیم احمد نے کہا ہے:
دیکھ کر انسان کو کہتی ہے ساری کائنات
یہ تو ہم میں سے نہیں ہے یہ کوئی باہر کا ہے
اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو دنیا کو فراقؔ کے اس ’’چشمِ بطن‘‘ کی ضرورت ہے جو پوری انسانیت کو اللہ کے کنبے کے طور پر دیکھتی ہو اور جو دنیا میں انسان کے حقیقی منصب سے آگاہ ہو۔ لیکن یہ ’’چشمِ لطف‘‘ خدا، دوسرے انسانوں اور خود اپنی ذات اور کائنات کے ساتھ حقیقی تعلق استوار کیے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تعلق اسلام کے سوا کہیں سے فراہم نہیں ہو سکتا۔