وطن عزیز آج کل ایک تماشا گاہ بنا ہوا ہے جہاں ہر روز ایک نیا تماشا قوم کو دکھایا جا رہا ہے ایسے ایسے تماشے ہو رہے ہیں جن کا کوئی سر ہے نہ پیر، مگر قوم انہیں دیکھنے پر مجبور ہے، ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خاں، جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے اور آئے دن تقاریر میں ریاست مدینہ میں چوری کے جرم میں پکڑی جانے والی ایک با اثر قبیلے کی خاتون ’فاطمہ‘ کا قصہ دہرا کر اس پر دنیا کے منصف اعظم، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیؐ کا یہ فرمان عالی شان سناتے رہے کہ ’’خدا کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ وہ اس مثال کو ملک و قوم کی ترقی کا اولین زینہ قرار دیا کرتے تھے مگر تقریباً چار برس ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے کے باوجود ایک بھی قدم مدینہ کی مثالی ریاست کی جانب کسی بھی شعبہ میں بڑھا نہ سکے… اب جب کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عدالتوں کے چکر لگاناان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے تو وہ عام پاکستانیوں کی طرح عدالتوں کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے لیے ’امتیازی انصاف‘ کے طلب گار ہیں، گزشتہ ہفتے تھانہ سنگجانی میں درج ایک مقدمے میں عدم پیشی پر گرفتاری کے خدشہ کے پیش نظر عدالت عالیہ لاہور سے حفاظتی ضمانت کی ضرورت پیش آئی تو قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خود عدالت میں پیش ہونے کی بجائے پورا زور لگایا کہ گھر بیٹھے ہی یہ ضمانت مل جائے مگر عدالت عالیہ کے اصرار پر جب حاضری لازمی ہو گئی تو لاہور کی سڑکوں پر ایک نیا تماشا لوگوں کو دیکھنے کو ملا، جناب عمران خاں، ہزاروں لوگوں کے ایک ہجوم کے ہمراہ گھر سے عدالت عالیہ روانہ ہوئے اور صرف دس منٹ کا فاصلہ تین چار گھنٹے میں طے ہو سکا، اس دوران عدالت عالیہ کے جج صاحبان عدالت کا وقت ختم ہو جانے کے باوجود ’ملزم‘ کے انتظار میں عدالت میں بیٹھے رہے اور بار بار ان کی جلد آمد کی تاکید کے ساتھ ساتھ عدالت کا وقت بڑھایا جاتا رہا۔ آخر شام گئے وہ عدالت میں حاضر ہوئے تو عدالت نے ان کی تین مارچ تک حفاظتی ضمانت کی منظوری دے دی…!
حکمران اتحاد کے رہنمائوں، وفاقی وزراء اور خصوصاً وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب نے اس صورت حال پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ عمران خاں کی عدالت میں پیشی کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے ہنگامی پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے آئین و قانونی اور عدالتی نظام کا تماشا بنایا، اس شخص نے لوگوں کو عدالت عالیہ پر حملے کے لیے اکسایا، عمران خان کو ملنے والی مہلت دوسرے مجرموں کو کیوں دستیاب نہیں؟ عدلیہ کا تمسخر اڑانے والا تفتیشی اداروں سے کیا تعاون کرے گا؟ ایک شخص جس کو عدالت بلا رہی ہے وہ عدالت آنے سے انکاری ہے، یہ شخض پاکستان کی ہر عدالت میں مطلوب ہے وہ کبھی ایمبولینس مانگتا ہے، کبھی وہیل چیئر اور کبھی مہلت، مگر سوال یہ ہے کہ جو سہولت عمران خاں کو فراہم کی جا رہی ہے کیا وہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو بھی حاصل ہے؟ محتر مہ مریم اورنگ زیب نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بالکل بجا ہیں مگر پتھر وہ مارے جس کا اپنا دامن صاف ہو، ملک کے بائیس کروڑ عوام کو وہ سہولتیں واقعی حاصل نہیں جو عمران خاں کو دی گئیں مگر حکمران نواز لیگ کی قیادت اور شریف خاندان کو ضرورحاصل ہیں، محترمہ شاید بھول گئیں کہ عمران خاں نے تو ان کے بقول عدالت عالیہ پر حملے کے لیے لوگوں کو اکسایا مگر میاں نواز شریف کو تو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر باقاعدہ حملہ کرایا اور ان کے بعض ارکان اسمبلی کو اس جرم میں سزا بھی بھگتنا پڑی… میاں نواز شریف کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود پچاس روپے کے ضمانت نامہ پر جیل سے رہا کر کے بیرون ملک علاج کے لیے روانہ کیا گیا اس علاج کی نوبت آج تک نہیں آئی اور وہ واپس بھی تشریف نہیں لائے، یہ بھی شاید واحد مثال ہو گی کہ میاں نواز شریف کی بیٹی کو بیمار باپ کی تیمارداری کے لیے جیل سے رہا کیا گیا مگر میاں نواز شریف لندن میں اور مریم نواز پاکستان میں کھلے بندوں سیاست کرتی پائی گئیں۔ اسی طرح عدالتوں سے مفرور قرار پانے کے باوجود جناب اسحاق ڈار اور سلمان شہباز وغیرہ کو ان کی غیر موجودگی میں عدالت نے ضمانت قبل از گرفتاری کی سہولت دی، اس لیے کوئی اور کرے تو اس شکوہ کا شاید کوئی جواز ہو مگر آپ کے قائد اور ان کا خاندان تو خود اس حمام میں بے لباس ہیں اس لیے دوسروں کی جانب انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک لینا کیا زیادہ مناسب نہیں ہو گا…؟
سابق وزیر اعظم عمران خاں نے عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں موجودہ حکمرانوں کی جانب سے ججوں اور دوسرے لوگوں کی خفیہ آڈیو، وڈیو ریکارڈنگز پر متعدد سوالات اٹھائے گئے ہیںان ریکارڈنگز اور انہیں لیک کرنے کا مقصد عدلیہ اور دوسرے اداروں کو دبائو میں لانے اور بلیک میل کرنے کے سوا آخر کیا ہے اور حکومت کس قانون کے تحت یہ سب کچھ کر رہی ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جسٹس ملک قیوم اور میاں شہباز شریف کی جو ٹیپ منظر عام پر آئی تھی اس کے ملزمان آج تک ہر قسم کی سزا سے محفوظ کیوں ہیں؟
یہ خبر بھی کچھ کم پریشان کن نہیں کہ حکمران نواز لیگ کے اپنی پارٹی سے خاندانی تعلق رکھنے والے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے اس لیے استعفیٰ دے دیا ہے کہ ان کے کام میں مداخلت کی جا رہی تھی ان پر یک طرفہ احتساب کے لیے دبائو ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ فلاں کو پکڑ لو، فلاں کو چھوڑ دو، حالانکہ اس کے پاس ایک پلاٹ ہے، اپنی اربوں کی جائیداد اور ایک پلاٹ والے کو پکڑ لوں؟ آفتاب سلطان گھر کے بھیدی ہیں جنہوں نے لنکا ڈھا دی ہے… اس کے بعد بھی کسی احتساب کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کسی انصاف کی امید اب بھی باقی رہ گئی ہے؟ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو بے لاگ انصاف اور سب کا احتساب لازم ہے۔ ورنہ …!!! (حامد ریاض ڈوگر)