آئین کا مقدمہ

آئین کسی بھی ملک کے لیے ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ اس ملک کے اتحاد و یکجہتی اور بقاء و استحکام کا ضامن تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محمد علی جناح کی بااصول، جرأت مند اور پُراستقامت قیادت میں چلائی گئی تحریکِ قیامِ پاکستان کو ثمرآور کیا اور ہمیں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی نعمت تو حاصل ہوگئی مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ قائداعظم کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد ہم طویل عرصے تک مملکتِ خداداد کے لیے ’’آئین‘‘ جیسی بنیادی دستاویز پر متفق نہ ہوسکے۔ اس ضمن میں 1954ء اور 1956 ء میں جو دساتیر تیار ہوئے، انہیں طالع آزمائوں نے طاقِ نسیاں کی زینت بنادیا، جس کا نتیجہ سقوطِ مشرقی پاکستان کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑا، جس کے بعد 1973ء میں ملک کی سربرآوردہ سیاسی قیادت نے اتفاقِ رائے سے ایک آئین تیار کیا جو یقیناً قوم کے لیے ایک بہت بڑی نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، مگر دکھ بھری حقیقت یہ بھی ہے کہ اسے بار بار توڑا گیا، اور جب یہ ملک میں نافذ رہا تب بھی اس کی حقیقی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کے بجائے اسے موم کی ناک سے زیادہ حیثیت نہیں دی گئی اور حکمران اپنی مرضی کے معانی پہناکر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے رہے، بلکہ بہت سی اہم دفعات اس آئینی دستاویز کا حصہ ہونے کے باوجود آج تک روبہ عمل نہیں آسکیں۔ آج کل مملکتِ خداداد جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اس کا بڑا سبب بھی آئین سے روگردانی کے سوا کچھ اور نہیں۔

سعید آسی دورِ جوانی میں آئین و قانون کے طالب علم رہے ہیں، پھر عملی زندگی میں بھی ایک اخبار نویس کے طور پر طویل عرصے تک آئین کی پامالی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں لڑی جانے والی آئین کے تحفظ کی جنگ کے چشم دید گواہ ہیں، اس لیے انہیں بجا طور پر یہ استحقاق حاصل ہے کہ قوم کو آج جن بحرانوں کا سامنا ہے ان میں عوام کی عدالت کے سامنے ’’آئین کا مقدمہ‘‘ پیش کریں، کہ یہ صرف آئین ہی نہیں خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام و بقا کا مقدمہ بھی ہے۔ سعید آسی محض ایک کہنہ مشق صحافی، ’نوائے وقت‘ جیسے باوقار نظریاتی اخبار کے کالم نویس اور مجید نظامی مرحوم کی زندگی ہی میں اُن کے اعتماد کے حامل معتبر اداریہ نویس ہی نہیں بلکہ ایک حساس دل رکھنے والے اچھے شاعر بھی ہیں، چنانچہ جب بھی صاحبانِ اختیار و اقتدار کی طرف سے آئین و قانون کی بھد اڑتے دیکھتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں، اس تڑپ کی جھلکیاں ’’آئین کا مقدمہ‘‘ میں جابجا دیکھی جا سکتی ہیں۔

’’آئین کا مقدمہ‘‘ میں سعید آسی کے جون 2021ء سے کم و بیش ایک سال کے عرصے میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونے والے کالموں کا انتخاب شامل ہے، یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران حکمران طبقے کی آئین و قانون کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر استعمال کرنے کی کوششوں کے دوران کی گئی من مانی تشریحات نے ملک و قوم کو موجودہ لاینحل بحرانی کیفیت تک پہنچایا ہے۔ سعید آسی کے اپنے الفاظ میں:

’’موجودہ عہد انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں اچھائی اور برائی کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی اور جہاں ’’کرشماتی‘‘ شخصیت کے زیراثر آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کی عمل داری کے کسی تقاضے کو نبھانے کا سوچنا بھی گالی بنادیا گیا ہے، اور آئین و قانون کے خلاف اودھم مچانے والوں کی زبان سے نکلے الفاظ کو ہی نعوذ بااللہ قرآن و حدیث کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس لیے مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ آج کا غتر بود کلچر کہیں پتھر کے زمانے کی جانب واپس تو نہیں لے جارہا۔ اسی سوچ نے مجھے ’’آئین کا مقدمہ‘‘ آپ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘

کتاب کا انتساب مصنف نے اپنی صاحبزادیوں کے نام ان الفاظ میں کیا ہے: … ’’خدا کی رحمت۔ اپنی بیٹیوں شازیہ سعید اور سمیرا سعید کے نام… جو خلقِ خدا کی آسودگی کے لیے میری لگن، کبھی مایوسی کے قالب میں نہیں ڈھلنے دیتیں۔‘‘ مصنف کے ایک سو سے کچھ کم کالم اس کتاب کی زینت بن سکے ہیں جب کہ جناب مجیب الرحمٰن شامی، سابق وفاقی وزیر قیوم نظامی اور سابق جج وفاقی شرعی عدالت ممتاز ماہر قانون سید افضل حیدر کی، کتاب اور صاحب ِکتاب سے متعلق مختصر مختصر آرا ان کے علاوہ ہیں۔ کتاب میں شامل تحریریں چونکہ زیادہ تر ’’آج‘‘ کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں اس لیے بہتر ہوتا کہ ان کی اخبار میں اشاعت کی تاریخ بھی ہر کالم کے آخر میں درج کر دی جاتی تاکہ قاری کو تحریر کا پس منظر سمجھنے میں سہولت رہتی اور وہ بیان کردہ حقائق کی تہہ تک پہنچ کر نتائج اخذ کرنے میں دشواری محسوس نہ کرتا۔ کتاب کے سرِورق کو عدالتِ عظمیٰ اور مجلسِ شوریٰ کی عمارات اور آج کی سیاست پر چھائے چہروں کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے جس یہ خاصا بامقصد اور با معنی ہوگیا ہے۔ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے اپنی روایات کے مطابق’’آئین کا مقدمہ‘‘ عمدہ کاغذ اور معیاری طباعت کے ساتھ خاص اہتمام سے شائع کی ہے، حروف خوانی بھی محنت اور توجہ سے کی گئی ہے جس کے سبب کتابت کی غلطی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ البتہ 312 صفحات کی کتاب کی ڈھائی ہزار روپے قیمت گرانی کی شدید لہر کے باوجود زیادہ محسوس ہوتی ہے۔