ماں: بچے کی زندگی کا محور

عثمان کی اماں کھانا کھلانا چاہ رہی تھیں، اور وہ کارٹون دیکھتے ہوئے کھانے کی ضد کررہا تھا۔ نانی نے پیار سے سمجھایا ”عثمان بیٹا! مما کی بات مانتے ہیں نا“۔

کلین سلیٹ یا سادہ کاغذ، اور آج کی زبان میں ورڈ ڈاکیومنٹ کا کلین پیج… ہم جو کچھ اس پر لکھیں گے وہ درج ہوتا جائے گا چاہے بسم اللہ لکھیں یا ہیلو، السلام علیکم لکھیں یا گڈ مارننگ، اور جس زبان میں چاہیں، لکھیں۔

لکھنے میں تو یہ سہولت حاصل ہے کہ اس کو مٹا کر، صاف کرکے دوبارہ لکھا جاسکتا ہے۔ مگر جب بچے کے سامنے ایک رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس کے اثرات دیرپا رہتے ہیں۔ روز گالیاں دیں گے تو بچہ بھی گالیوں میں طاق ہوگا۔

جدید سائنسی تحقیقات تو اب یہ بتاتی ہیں کہ دورانِ حمل ماں جو سوچتی ہے، جس ماحول میں رہتی ہے، جو سنتی ہے اس کے اثرات اُس کے آنے والے بچے پر ہوتے ہیں، مثلاً اگر ماں تلاوتِ قرآن کرتی ہے یا سنتی ہے تو اس کے بچے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح میوزک کے بارے میں بھی تحقیق یہی بات کہتی ہے۔

آنے والے بچے کی حسیات اس کی پیدائش سے پہلے ہی اثرات لینا شروع کرچکی ہیں۔ اب اگر اس کی ماں خود خیال نہ کرے، یا اس کے آس پاس کے لوگ غیر محتاط رویّے رکھیں تو بچہ منفی اثرات قبول کرے گا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہیں… ماں مثبت اثرات کے لیے کوشش کرتی رہے اور پیدائش کے بعد بھی اس کی کوشش کہ سب ٹھیک رہے… مثال کے طور پر وہ اپنے نومولود کو کتاب پڑھ کر سناتی ہے، اس کی لوری اچھی ہوتی ہے، دن بھر کے معمولاتِ زندگی ایسے رکھتی ہے جن سے پیدائش کے بعد بچے کی زندگی کو اصول و ضوابط پر آگے بڑھایا جائے تو وہ بچہ بہتر نشوونما پائے گا۔

یعنی ماں اس بچے کی زندگی کا محور ہے۔ وہ ماں کو بطور خیال رکھنے والی اور رہنما کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسے بھوک لگتی ہے تو خیال کرتی ہے اور بھاگی چلی آتی ہے، پیمپر گندا ہوجائے تو تبدیل کردیتی ہے، مالش کرتی ہے، نہلاتی ہے، لوری سناتی ہے، جھولا جھلاتی ہے، باتیں کرتی ہے… غرض ننھے منے کی کُل دنیا ہوتی ہے، محبت کا گہوارا…. یہی ماں جب پریشان ہوتی ہے تو بچہ محسوس کرتا ہے، افسردہ ہوجاتا ہے، بعض اوقات رونے بھی لگتا ہے۔ ایسے میں اگر اُسے ماں کی طرف سے توجہ نہ ملے تو مزید مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

یعنی بچہ ماں سے صرف دودھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کے احساسات بھی لیتا ہے۔ ماحول اسی کا نام ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صرف کھانا پینا ہی بچے کی پرورش نہیں کرتا، بلکہ اس کی جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے ماحول کا سازگار ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے آس پاس جو گفتگو ہوتی ہے، جو کام ہوتے ہیں وہ بھی اس کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

”ارے ابھی تو بچہ ہے، کیا فرق پڑتا ہے!“ اس قسم کے جملے، اور پھر کوئی غلط بات، کوئی نامناسب رویہ، غلط حرکت.. فوری طور پر تو اس کا اثر شاید نظر نہ آئے، یا ہوسکتا ہے ماں کے لیے برے الفاظ یا اُس پر چیخنا چلاّنا بچے کو افسردہ کردے یا رلا دے، مگر اس کے لاشعور میں وہ چیز نقش ہوجائے گی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ اگر بچے کے سامنے اس کی ماں کو برا بھلا کہا جائے گا تو وہ کہنے والے کو ضرور برا جانے گا کیونکہ ماں ہی تو اس کی سب کچھ ہے۔

اچھا کیا ہے، برا کیا.. جھوٹ، سچ، نیکی، برائی، لوگوں کی مدد، رشتے، روایات… اسی کا نام تربیت ہے، اور اس کی ابتدا پیدائش سے ہی ہوتی ہے، بعد میں ہم اس کی نک سک سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بچوں کی تربیت میں ماں کا بنیادی کردار ہے، اور پھر اس کو تقویت دینے یا بگاڑنے والے لوگوں کا کردار۔

نانی، دادی، ماموں، چچا، پھوپھی، خالہ.. یہ سب کچھ نہ کچھ حصے دار ہیں مگر ماں محور۔
ماں کا کردار کوئی کیئر ٹیکر، گورنیس، آیا ادا نہیں کرسکتی۔ اس لیے اپنے بچوں کو شروع سے ہی معیاری وقت دیجیے۔ بھرتی کا کام کسی کام کا نہیں۔