ـ15 فروری کو ملاکنڈ میں امن مارچ ہوگا
جماعت اسلامی پشاور کے زیراہتمام خیبرپختون خوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بدامنی کے خلاف گزشتہ بدھ کو’’پختون خوا امن مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس کی قیادت امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کی، جب کہ امن مارچ میں سابق ایم پی اے عنایت اللہ خان، قائم مقام امیر خیبر پختون خوا عبدالواسع، ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان محمد اصغر، ڈپٹی سیکرٹری جنرل خیبر پختون خوا ہدایت اللہ، امیر ضلع بحراللہ ایڈووکیٹ اور دیگر قیادت نے بھی شرکت کی۔ خطاب کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے اور قوم کو لسانیت، مسالک اور دیگر تعصبات پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ملک کو دولخت کرنے کی ذمہ دار استعماری طاقتوں نے پرانا کھیل شروع کردیا ہے، امریکہ اور بھارت چاہتے ہیں کہ کابل اور اسلام آباد میں لڑائی ہو۔ آج ایران میں امن، ہندوستان میں امن، تاجکستان میں امن ہے، آخر ہم نے کون سا جرم کیا ہے کہ خیبر پختون خوا بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے! انہوں نے کہا کہ ہمارا کام صرف لاشیں اٹھانا نہیں بلکہ حکمرانوں سے اس بدامنی کا حساب کتاب کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ افغان حکومت امن کے لیے کردار ادا کرے اور سازشوں سے خبردار رہے، انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی عوام نے آپ کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، اس جنگ میں ہمارے 75 ہزار شہری شہید ہوئے۔ پاکستان اور افغانستان میں امن دونوں ممالک کے لیے ناگزیر ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ امریکی وزیر کا بیان آیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کرے، یہی دشمنوں کا ایجنڈا ہے، ان کی نظر ملک کے ایٹمی اثاثوں پر ہے۔ استعماری طاقتوںکے وفاداروں نے جوقوم پر مسلط ہیں اور جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے، بیرونی طاقتوں کے لیے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کھیل آسان کردیا ہے۔ جزوی الیکشن کے بجائے جنرل الیکشن ملک میں استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ لوگوں کا پارلیمنٹ، اداروں، عدلیہ اور سیاست دانوں سے اعتبار اٹھ گیا ہے، ملک بچانا ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ امن مارچ میں خواتین اور بچوں سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سراج الحق نے کہا کہ یورپ اور امریکہ کے بجائے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو علاقائی امن کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کا دورہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کی کوئی پروا نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے شکایت کی کہ 30 جنوری کو پشاور کی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے پیچھے لوگوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف ایک ایسے وقت میں اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہیں جب عوام بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور مہنگائی کی بلند شرح سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی صوبے میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر امن مارچ کرے گی۔ امیر جماعت اسلامی نے حکومت سے امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنے کا کہا اور خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ان کی جماعت صوبے میں امن کی بحالی تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دے گی۔ انہوں نے جبری گمشدگیوں کے بارے میں بھی شکایت کی اور کہا کہ اگر لاپتا افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو حکام کو انہیں مقدمے کی سماعت کے لیے عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے۔ سراج الحق نے واضح کیاکہ ان کی پارٹی امن کے مقصد کے لیے ’’کسی بھی حد تک‘‘ جائے گی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ صوبے کی پولیس کے پاس عسکریت پسندوں سے لڑنے کے لیے ضروری ہتھیاروں، گولہ بارود اور آلات کی کمی ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دیگر متعلقہ اداروں کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ قبل ازیں پشاور کے تاریخی جی ٹی روڈ پر نشتر آباد چوک پہنچنے پر سراج الحق کا پشاور کے عوام اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے والہانہ اور پُرجوش نعروں سے استقبال کیا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی صوبے کی پہلی جماعت ہے جس نے نہ صرف پشاور پولیس لائنز خودکش بم دھماکے کی سب سے پہلے مذمت کی تھی بلکہ جس نے سڑکوں پر نکل کر اس دہشت گردانہ واقعے کے خلاف بھرپور اور پُرامن احتجاج بھی کیا ہے۔ اسی طرح سراج الحق دھماکے اگلے روز پشاور کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرنے کے لیے بھی ایک ایسے موقع پر پہنچ گئے تھے جب صوبائی حکومت سمیت کسی بھی قابلِ ذکر سیاسی یا مذہبی رہنما کو زخمیوں کی عیادت کی توفیق نصیب نہیں ہوسکی تھی۔ حیران کن بلکہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس واقعے کو دوہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت صوبے پر دس سال تک حکومت کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے بھی کسی مرکزی لیڈر کو نہ تو زخمیوں کی عیادت کی توفیق نصیب ہوسکی ہے اور نہ ہی ان لیڈروں میں کسی کو اس واقعے میں شہید ہونے والے ایک سو سے زائد شہدا کے لواحقین اور خاص کر یتیم و بے سہارا بچوں اور ان کی بیوائوں کی دادرسی کی توفیق نصیب ہوسکی ہے جو بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جماعت اسلامی نے اگر ایک طرف پشاور مارچ کے ذریعے مقتدر حلقوں کو قیام امن کے حوالے سے واضح پیغام دیا ہے تو دوسری جانب جماعت اسلامی نے امارتِ اسلامی افغانستان کو عالمی اور علاقائی سازشوں سے خبردار کرتے ہوئے توجہ دلائی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بطور ریاست اور حکومت پورا نہیں کیا تو اس کے خطے اور بالخصوص افغانستان اور پاکستان پرکتنے بھیانک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تیسری جانب یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جماعت اسلامی نے پشاور کے بعد ملاکنڈ بٹ خیلہ میں بھی 15فروری کو ایک بڑی امن ریلی کے انعقاد کا اعلان کررکھا ہے جس سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سمیت جماعت کے دیگر مرکزی اور صوبائی قائدین خطاب فرمائیں گے۔
خیبرپختون خوا میں بدامنی کی صورتِ حال کے حوالے سے ایک اور اہم بات اور پیش رفت دہشت گردی کے مختلف واقعات کے خلاف عوامی سطح پر لوگوں میں پیدا ہونے والی بیداری اور اس حوالے سے پائے جانے والے اضطراب کا بڑے بڑے امن جلسوں اور ریلیوں کی شکل میں سامنے آنا ہے۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں سب سے پہلا پتھر سوات میں پھینکاگیا تھا جہاں تقریباً دو ماہ قبل بڑی سطح پر عوامی احتجاج کیاگیا تھا جس میں بلا تفریق تمام سیاسی جماعتوں کے ورکرز اور سول سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر شرکت کی تھی، جب کہ اس کے بعد اسی نوعیت کے احتجاجی مظاہرے دیر، مہمند، باجوڑ، بنوں اور شمالی وزیرستان میں بھی منعقد ہوچکے ہیں جنہیں اولسی پاسون یعنی عوامی بیداری کے
عنوان اور جھنڈے تلے منظم کیا جاتا رہا ہے۔ ان جلسوں سے عمومی طور پر تو تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما خطاب کرتے ہیں، لیکن ان جلسوں میں زیادہ تر لوگ پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان اور اے این پی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک کی جذباتی اور مدلل تقاریر سننے کے لیے جوق درجوق آتے ہیں۔
یاد رہے کہ ان جلسوں میں نہ تو کسی پارٹی اور نہ ہی کسی لیڈر کے نعرے لگتے ہیں، اور نہ ہی ان مظاہروں میں پارٹی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ یہ تحریک دراصل عوامی بیداری کی ایک خودساختہ تحریک ہے جسے جنگ، بدامنی، دہشت گردی اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے نوجوان اپنی مرضی اور خوشی سے رضاکارانہ طور پر منظم کرتے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک سے جہاں صوبے میں امن وامان کے حوالے سے عوامی بیداری پروان چڑھی ہے، وہیں اس احتجاج کے اثرات انتظامیہ اور خاص کر سیکورٹی اداروں پر بھی ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح اب تک چونکہ دہشت گردی کے واقعات پر لوگ دبے الفاظ میں تو خیالات کا اظہارکرتے تھے لیکن اس حوالے سے کوئی بھی کھل کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، اب تمام طبقات کھل کر نہ صرف امن کی بات کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں جوشکوک وشبہات تھے ان کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب صوبے کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت اس عفریت کا سرکچلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔