میڈیا اور ذرائع تعلیم مغربی سرمایہ وارانہ نظام کے کل پرزے بن گئے ہیں
برطانیہ میں معاشی ابتری کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے، بینک آف انگلینڈ نے بھی دو سال تک معاشی ابتری کے جاری رہنے کی پیش گوئی کی ہے، لیکن اس کے باوجود حکومتی اقدامات اس میں عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے مزید زحمت کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ہڑتالوں کا موسم ہے جس کے باعث عوام کی مشکلات دوچند ہوچکی ہیں۔ ان ہڑتالوں کا سبب بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے تنخواہوں میں اضافے کی تحریک ہے جو کہ پورے برطانیہ میں جاری ہے۔ مزدور، اساتذہ، سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس سے لے کر صحتِ عامہ کے عملے تک زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس نے اس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہ کیا ہو۔ لیکن سرکاری سردمہری کے باعث ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا، اور شعبہ صحت سمیت لازمی خدمات کے شعبوں میں صورت حال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔ رائل کالج آف نرسنگ نے اپنی سو سال سے زائد کی تاریخ میں پہلی بار ہڑتال کی کال دی جوکہ بہت موثر رہی۔ اس ہڑتال کے نتیجے میں صحت کا شعبہ غیر فعال ہوگیا، ہزاروں آپریشن اور اپائنٹمنٹ منسوخ کردیے گئے، جس کا براہِ راست اثر عوام پر پڑا، لیکن اس کے باوجود بھی حکومتی سردمہری ختم نہ ہوئی اور نرسوں کی تنخواہوں میں مہنگائی کے مساوی اضافے کو مسترد کردیا گیا۔ اس ضمن میں خود نیشنل ہیلتھ سروس کے مختلف سرکردہ افراد نے بھی حکومت کو فوری طور پر مطالبات ماننے کا مشورہ دیا، لیکن حکومت نے عمل درآمد نہ کیا، جس کے باعث اب صحت کا شعبہ مکمل طور پر بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ اس حوالے سے مزدوروں کی یونین کی نمائندہ تنظیم نے بھی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کررہی ہے۔ اس وقت صحت کا شعبہ بدترین صورتِ حال کا شکار ہوچکا ہے اور رائل کالج آف نرسنگ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف انگلینڈ میں اس وقت 47000 نرسوں کی اسامیاں خالی ہیں اور کوئی بھی اس شعبے میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں 43000 نرسوں نے اپنے نرسنگ کیریئر کو خیرباد کہہ دیا، اور حیرت انگیز طور پر ان میں دو تہائی تعداد 45 سال سے کم عمر نرسوں کی ہے۔ کالج نے اپنے اعداد و شمار میں اس بات کو بھی واضح کیا کہ گزشتہ سالوں میں نرسنگ کالجوں کے داخلوں میں 18 فیصد مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی اگر ان اعداد و شمار کو ہی دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید سنگین ہوگا۔ اسی طرح جونیئر ڈاکٹروں نے بھی ہڑتال کا اعلان کردیا ہے، اور اب وہ بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال جیسے آخری قدم تک جانے کو تیار ہیں۔ سول سروس یعنی بیوروکریسی کے بھی ایک لاکھ ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کررہے ہیں، اور برطانیہ کی 150 جامعات کے ملازمین و اساتذہ کی تنظیم نے 18 روز طویل ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اخبارات عوام کو آگاہ کرنے کے لیے باقاعدہ ہڑتال کے کیلنڈر کا اجراء کررہے ہیں تاکہ اگر ان دنوں میں کسی فرد کو متعلقہ محکمے میں کوئی کام ہو تو وہ اسے کسی اور دن پر اٹھا رکھے۔
ایک جانب عوام کی حالت ناگفتہ بہ ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی عیاشیوں کے چرچے بھی اب خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ پہلے کورونا کے حفاظتی لباس میں ملین پاؤنڈز کا غبن، اور اب حکمران جماعت کے وزیروں اور وزارتوں میں مالی بے ضابطگی اور عیاشیوں پر بھاری اخراجات کی بھی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
اس وقت عوام کو جن بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ توانائی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہے۔ اس وقت توانائی کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہیں اور بڑے پیمانے پر عوام گیس و بجلی کے بل بھی دینے سے قاصر ہیں۔ اس صورتِ حال میں سرمایہ دار سامراجی کمپنیوں نے عوام کے گھروں میں زبردستی گھس کر نئے میٹر لگانے کی کئی کامیاب کوششیں کیں جس کے باعث کارڈ ختم ہونے پر گیس و بجلی کی سپلائی خودبخود منقطع ہوجائے گی۔ اس میں خود برٹش گیس بھی ملوث ہے، تاہم اس پر خوب شور ہوا تو نہ صرف حکومت حرکت میں آئی بلکہ خود کمپنیوں نے بھی اپنے اس طرزعمل پر معذرت کی۔ دوسری جانب برطانیہ میں رجسٹرڈ دنیا کی بڑی توانائی کمپنیوں میں سے ایک، شیل نے اپنے منافع کا اعلان کیا ہے جس میں اس نے سالِ گزشتہ سے بھی دوگنا سے زیادہ منافع کمایا۔ شیل کا سالِ گزشتہ کا خالص منافع 19 ارب امریکی ڈالر تھا جو اب بڑھ کر 40 ارب امریکی ڈالر سے بھی تجاوز کرگیا، اور یہ سب اُس وقت ممکن ہوا جب روس اور یوکرین کی جنگ کا بہانہ بناکر توانائی کی قیمتوں میں تین سو گنا تک اضافہ کیا گیا۔ عوام کی جیب کاٹ کر سرمایہ داروں نے بلا حکومتی روک ٹوک اپنے سرمائے میں کئی گنا اضافہ کیا۔
اس تمام تر صورتِ حال میں یہ بات اب واضح ہے کہ برطانیہ کی فلاحی ریاست کا تصور بہت تیزی سے مسخ ہورہا ہے اور اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ ریاست کے طور پر رکھی جارہی ہے۔ تاہم یہ الزام کوئی نیا نہیں، اس کی ابتدا مارگریٹ تھیچر کے دور میں ہوئی جب پہلی بار برطانوی میڈیا کو حکومتی کنٹرول سے نکال کر پرائیویٹ کرنے کی ایک محدود کوشش کی گئی اور بی بی سی کے چینل کو پرائیویٹ پروڈکشن کمپنی کے سپرد کردیا گیا۔ یہ برطانوی قانون اور بی بی سی کے بنیادی منشور میں شامل اصلاحِ میڈیا برائے عوامی فلاح کے تصور کی مکمل نفی تھی، کیونکہ کسی بھی پرائیویٹ کمپنی کا مقصد عوام کو محض آگہی فراہم کرنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ منافع کمانا بھی ہوتا ہے، اور یہ خود سرمایہ دارانہ نظام کو معاشروں میں استوار کرنے اور نئے رجحانات سے متعارف کروانے کا سبب بنتا ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافہ اور عوام کو ان اشیاء کی دوڑ میں لگاکر اس سرمایہ دارانہ نظام کو ایندھن کی فراہمی ہوتا ہے۔ برطانیہ میں اس ابتدا کے ساتھ ہی برطانوی معاشرے میں نئے رجحانات نے فروغ پایا اور میڈیا کا بنیادی مقصد کسی حد تک فراموش کردیا گیا۔ اس کے بعد دوسری بڑی تبدیلی جامعات کی فیسوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آئی کہ جب 2011ء میں حکومت نے ایک رپورٹ کو بنیاد بناکر جامعات کی فیسوں میں تین سو گنا اضافہ کردیا۔ اس کے خلاف طلبہ کے برطانوی تاریخ کے بہت بڑے احتجاج بھی حکومت کو اس سے باز نہ رکھ سکے۔ اُس وقت وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون تھے اور اُن کا تعلق بھی سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی طرح کنزرویٹو پارٹی سے ہی تھا۔
اب تیسری مرتبہ برطانوی معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر پیوست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اِس وقت بھی حیرت انگیز طور پر کنزرویٹو پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے رشی سونک وزیراعظم ہیں۔ حکومت نے ان مظاہرین اور ہڑتالوں سے نمٹنے کے لیے نئی قانون سازی کا عندیہ دیا ہے کہ جس میں ابھی لازمی خدمات کے شعبوں میں ہڑتال نہ کرنے کی قانون سازی کی جائے گی اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا دائرہ بتدریج پھیلا کر مکمل طور پر ہر قسم کی یونین کو ہڑتال کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ اس طرح میڈیا، تعلیم اور اب حقِ مزاحمت بھی عوام سے چھین لیا جائے گا تاکہ اس نظامِ سرمایہ داری کی راہ میں مزاحم ہر قوت کا مکمل خاتمہ کرکے بدلتے حالات میں سماجی و فلاحی ریاست سے سرمایہ دارانہ ریاست کی طرف سفر کیا جائے تاکہ اس نظامِ سرمایہ داری کی مکمل بندگی کی جاسکے۔ برطانوی تاریخ کے اس مختصر سے سفر میں یہ بات بھی بہت قابلِ ذکر ہے کہ محض تین دہائیوں کے سفر میں ایک جانب فلاحی ریاست کا مکمل خاتمہ ہورہا ہے تو دوسری جانب برطانیہ سے مذہب یعنی مسیحیت کا بھی اب خاتمہ قریب ہے کیونکہ نظریاتی مسیحی ریاست میں تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق اب نصف سے زائد تعداد خود لادین افراد کی ہے۔ یعنی مذہب کی بنیاد پر جو فلاحی ریاست قائم ہوئی تھی اب نیا مذہب یعنی لادینیت اس کو سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل کررہا ہے، اور یہ سب کچھ کسی بیرونی قوت کے زیر اثر نہیں بلکہ خود برطانوی باشندوں اور حکمرانوں کے ذریعے کیا جارہا ہے، اور اس ضمن ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ مذکورہ تینوں برطانوی وزرائے اعظم خود آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم اور اس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے بس یہی بات کافی ہے اور اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
برطانوی معاشرے میں پہلے میڈیا جس کی بنیاد ہی علم اور عوامی فلاح پر تھی، کی راہ تبدیل ہوئی۔ پھر براہِ راست اعلیٰ تعلیم، اور اب اس پر آواز بلند کرنے پر بھی پابندی۔ یہ ہے مغرب کا وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کہ میڈیا اور نظام تعلیم جس کے کل پرزے ہیں۔ اور اب یہ بتدریج مسلم معاشروں اور اقامتِ دین کی تحاریک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اگر یہ اس لپیٹ میں آئے تو ان کا انجام بھی برطانوی ریاست جیسا ہوگا، یعنی سرمایہ دارانہ اور لادین معاشرہ جہاں بندگی صرف سرمائے کی ہوگی اور وہی سرمایہ دار مل کر قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے اور کسی بھی مزاحمتی آواز کو مکمل کچل دیا جائے گا۔