انتخابات سیاسی بحران کا حل؟

اب بھی یہی تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مددکے بغیر یہاں کوئی فیصلہ نہیں ہوگا

پاکستان میں سیاست انتخابات کے انعقاد یا انتخابات کو ملتوی کرنے یا اس میں تاخیر کرنے کے درمیان کہیں پھنس کر رہ گیئی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت کی الجھن انتخابات کا انعقاد ہے اور پوری حکومت سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ کیسے ہم انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتخابی عمل یا انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ایک بڑا سیاسی بحران موجودہ سیاسی منظرنامے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کا 13 جماعتی حکومتی اتحاد ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن سمیت پنجاب و خیبر پختون خوا میں بننے والی دو صوبائی نگران حکومتیں یا ان کے نیچے کام کرنے والا انتظامی سطح کا ڈھانچہ… یہ سبھی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90دن میں انتخابات کرانے سے گریز کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول موجودہ معاشی صورتِ حال، دہشت گردی، سیکورٹی، پولیس، رینجرز یا فوج کی عدم موجودگی، مالی وسائل کی کمی، یا نئی مردم شماری کے بغیر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ دونوں صوبوں کے گورنروں اور نگران حکومتوں سمیت وفاقی حکومت اور ان کا حمایت یافتہ میڈیا اسی نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ ’’پہلے معیشت کی بحالی اور پھر انتخابات‘‘ کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ نعرہ ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں ’’پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا۔ اس وقت وفاقی حکومت، نگران حکومت، صوبائی سطح کے گورنر کاروباری طبقات سمیت دیگر طبقوں کی مدد سے یہی بیانیہ لارہے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں، اور انتخابات مسائل کا حل نہیں۔

ایک طرف 13 جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت ہے جسے ریاستی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے یا وہ ان کی حمایت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے انتخابات سے گریز کی پالیسی کو کامیاب بنانا چاہتی ہے، تو دوسری طرف عمران خان تنہا ہیں جو انتخابات کے حق میں اپنی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی کا ہے۔ آئینی تقاضا تو یہی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ہر صورت 90دن میں انتخابات لازمی ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 123 ارکان کے استعفوں کی منظوری کے بعد 60دن میں ضمنی انتخابات کا ہونا آئینی تقاضا ہے، لیکن کیونکہ آئین کو ہمیشہ سے ہماری تاریخ میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین اپنے حق میں اورکسی کی مخالفت میں استعمال کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے حق میں اپنی اپنی مرضی کی آئینی تشریح کررہا ہے اور اپنی ہی مرضی کا آئینی فیصلہ بھی چاہتا ہے۔ انتخابات ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ عملی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی باہمی مشاورت کی بنیاد پر ہونا چاہیے تھا، لیکن بداعتمادی یا سیاسی دشمنی کے ماحول میں سیاسی فیصلے پارلیمنٹ یا سیاسی فورم سے باہر نکل کر عدالتی فورم پر موجود ہیں۔ اب انتخابات ہونے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ عدالتوں سے ہی ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پابند کیا ہے کہ وہ 90روز میں انتخابات کو یقینی بنائے اور انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کیا جائے۔ عدالتی فیصلے کی بنیاد یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایک غیر جانب دار ادارہ ہے اور مقررہ وقت میں انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہے۔ دوسری جانب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی چیف الیکشن کمیشن کو خط لکھا اورکہا کہ 90 روز میں انتخابات کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے وگرنہ وہ اس تاخیر کا ذمہ دار ہوگا۔ کچھ سیاسی اور قانونی ماہرین کے بقول الیکشن ایکٹ 2017کے مطابق اگر الیکشن کمیشن صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتا تو صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس کے بقول موجودہ مسائل کا حل ہمیں نئے مینڈیٹ سے جڑا نظر آتا ہے۔ اور اُن کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ کو بھی جان بوجھ کر خالی رکھا جارہا ہے، ایسے میں پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی بھی اپنی افادیت کھوبیٹھی ہے۔ اب اگر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا جاتا ہے تو پھر معاملہ اعلیٰ عدالت کی طرف جائے گا، اور اسے ہی انتخابات کے حق یا مخالفت میں فیصلہ کرنا ہوگا۔

اس وقت ایک مسئلہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے انعقاد کا ہے، جبکہ دوسرا مسئلہ قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی 123نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن دو صوبائی انتخابات سے گریز کررہے ہیں، جبکہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں انہیں معاشی، مالی، سیکورٹی یا دہشت گردی سمیت کسی بھی سطح کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات محض چار ماہ کے لیے کروائے جارہے ہیں کیونکہ قومی اسمبلی کی مدت اگست 2023ء میں ختم ہوجائے گی۔ محض چار ماہ کے لیے ان 123نشستوں پر ضمنی انتخابات کی ضد پر الیکشن کمیشن پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ آئین اس بات کا پابند کرتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں صوبائی انتخابات یقینی بنانا ہوں گے، لیکن جو ہماری سیاسی حرکیات ہیں ان میں قومی اسمبلی کے انتخابات یا عام انتخابات کے مقابلے میں محض دو صوبائی انتخابات نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے انتخابی نظام کی حرکیات ایسی ہیں جو عام انتخابات کا راستہ ہی تجویز کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت کا انتخابات کے حوالے سے جو طرزِعمل ہے وہ اس میں خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی فریق بنارہی ہے، اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی دو صوبائی انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اس مؤقف کی بھی نفی ہورہی ہے کہ اس نے خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرلیا ہے۔ اس سے یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی طرح حکومتی حکمت عملی کے تحت عدالتوں پر دبائو بھی ڈالا جارہا ہے اور تنقید بھی کی جارہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ یا سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب سیاسی لوگ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے کر جائیں گے تو اس پر عدالتی ردعمل تو آئے گا، اور جب عدالتیں ریمارکس دیتی ہیں تو سیاسی لوگوں کو اپنا داخلی احتساب بھی کرنا چاہیے۔ جیسے عدالتوں کو اپنے آپ کو قانونی فریم ورک تک محدود رکھنا چاہیے اسی طرح سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو سیاسی فیصلوں میں شفاف بنائیں۔ بدقسمتی سے اس وقت عدلیہ ایک بار پھر نشانے پر ہے۔ عمران خان عدلیہ کی حمایت میں ہیں جبکہ حکمران اتحاد کو گلہ ہے کہ اس وقت بھی عدلیہ عمران خان کے حق میں فیصلے دے کر خود کو سیاسی عمل کا حصہ بنارہی ہے۔ اس لیے اگر عدلیہ انتخابات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تواسے حکمران اتحاد کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اور اسی ماحول میں بعض عدالتی تنظیمیں چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ بھی کررہی ہیں، جبکہ عمران خان کے بقول ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اِس وقت سیاسی اور معاشی حالات کی وجہ سے انتخابات کا آپشن سیاسی خودکشی لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں صوبائی انتخابات سے گریزاں ہے۔ حالانکہ یہی حکمران طبقہ تھا جو برملا کہتا تھا کہ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی تو فوری طور پر ان صوبوں میں انتخابات کروادیے جائیں گے۔ لیکن اب خود حکمران طبقہ ہی دلیل دے رہا ہے کہ صوبائی انتخابات ملکی مفاد میں نہیں، بلکہ ایک ہی عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہ جو انتظامی ادارے بھی انتخابی عمل کو سیکورٹی کی بنیاد پر ملتوی کرنا چاہتے ہیں یا معاونت کے لیے تیار نہیں اس کی وجہ بھی حکمران طبقے کا سیاسی دبائو ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن یا وفاقی حکومت انتخابات کے حوالے سے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر عدالتی فیصلوں پر نئی محاذ آرائی کو جنم دیا گیا تو مزید ٹکرائو پیدا ہوگا۔ انتخابات کے مقابلے میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت یا معاشی ماہرین پر مشتمل حکومت، یا کسی بھی واقعے کو بنیاد بناکر انتخابات میں تاخیر کا عمل قومی مسائل کو مزید سنگین بنانے کا ہی سبب بنے گا۔ مسئلہ انتخابات سے فرار کا نہیں بلکہ آئین اور قانون کو بنیاد بنا کر انتخابی عمل کا خود کو پابند کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں کہ انتخابات کے بعد یہاں کوئی سیاسی اورمعاشی انقلاب آجائے گا، مگر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اورآپشن بھی نہیں ہے، اور انتخابی عمل ہی اس ملک سے بے یقینی کو ختم کرنے میں پہل کرسکتا ہے۔

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ دو صوبائی انتخابات کے مقابلے میں عام انتخابات ہی بہتر راستہ ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہل کرے اور حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر نئے عام انتخابات کا نہ صرف راستہ اختیار کرے بلکہ اس پر متفق ہو کہ کب ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات یا دو صوبائی انتخابات ٹکرائو کو جنم دیں گے جس سے مزید بحران پیدا ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف مل بیٹھ کر عام انتخابات پر متفق ہوں اور اس بنیادی انتخابی فریم ورک پر اتفاق کریں جو انتخابی عمل کو شفاف اور غیر جانب دار بناسکے۔ کیونکہ اگلے عام انتخابات کو کسی بھی صورت میں عدم شفافیت اور متنازع بنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ عام انتخابات کے حوالے سے جو بھی روڈمیپ بننا ہے یا جو فریم ورک بنے گا وہی انتخابی عمل کی شفافیت کو بھی یقینی بناسکے گا۔ عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت سے کہیں کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ دو صوبائی انتخابات سے مسائل پیدا ہوں گے تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر نئے عام انتخابات پر اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ کیونکہ ویسے بھی تحریک انصاف اور حکمران اتحاد دونوں متفق ہیں کہ ملک میں عام انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں۔ اختلاف تو انتخابات کی تاریخ یا شیڈول پر ہے، اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہی ملکی مفاد میں ہوگا۔ کیونکہ جو حالیہ سیاسی اور معاشی بحران ہے اس کا حل نئے انتخابات اور ان کی شفافیت سے ہی جڑا ہوا ہے۔ لیکن اب اصل فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے کہ وہ حالات کو کس طرف لے کر جاسکتی ہے۔ اگرچہ وہ سیاسی معاملات سے خود کے الگ ہونے کی باتیں کررہی ہے، مگر جو حالات ہیں ان میں اس کا فطری طور پر غیر سیاسی ہونا ممکن نہیں، اور اب بھی یہی تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر یہاں کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ مسئلہ سیاسی مداخلت کا نہیں بلکہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جو ٹکرائو ہے اور جو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسے میں اسٹیبلشمنٹ ہی کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔ مقصد جہاں سیاسی بحران کا خاتمہ ہے وہیں ریاست کو بھی جس بحران کا سامنا ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اہلِ سیاست اور ریاست مل بیٹھ کر بحران کا کوئی حل نکالیں، اور یہی حل ملک کے مفاد میں ہوگا۔ اس وقت ملک کسی بھی صورت میں محاذ آرائی اور ٹکرائو کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مفاہمت کی سیاست ہماری ریاستی ضرورت ہے اور اسی کو بنیاد بناکر ہم مستقبل کا سیاسی راستہ بھی تلاش کرسکتے ہیں اور سیاسی عمل، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت آئین کی بالادستی کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہی ملکی مفاد میں ہے۔