پاکستان یا ’’بحرانستان

اوراب جرنیلوں اور ججوں کی عزت کا بحران

پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو ہر طرح کے بحرانوں میں مبتلا کرکے ’’بحرانستان‘‘ بنادیا ہے۔ پاکستان نظریاتی بحران میں مبتلا ہے، پاکستان تاریخی بحران میں مبتلا ہے، پاکستان اخلاقی بحران میں مبتلا ہے، پاکستان سیاسی بحران میں مبتلا ہے، پاکستان معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ ان بحرانوں میں ایک بحران جرنیلوں اور ججوں کی عزت کا بحران بھی ہے۔ جرنیل اور جج صاحبان پاکستان میں معاشرے کے طاقت ور ترین لوگ ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیوں میں عزت کا کال پڑا ہوا ہے، چنانچہ روزنامہ ایکسپریس کراچی کی ایک خبر کے مطابق شہبازشریف کی حکومت ایک ایسے بل کی تیاری میں مصروف ہے جس کے تحت جرنیلوں اور ججوں کو بدنام کرنے والوں کو پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔ اطلاعات کے مطابق اس بل پر نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، چنانچہ ترمیمی بل کے مسودے کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ یہ کمیٹی آئندہ اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 8 فروری 2023ء)

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انبیا و مرسلین کے سوا کوئی شخصیت اختلاف اور تنقید سے بالاتر نہیں۔ حضرت عمرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی تاریخ پر اثرانداز ہونے والی سب سے بڑی شخصیت ہیں، مگر اُن کے کرتے پر اعتراض ہوا تو انہوں نے اس کا برا نہیں منایا بلکہ اپنے فرزندِ ارجمند کے ذریعے اس امر کی وضاحت پیش کی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ملنے والی چادر کو اپنے حصے کی چادر کے ساتھ ملا کر اپنے لیے لباس تیار کرایا ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمان خوش حال ہوگئے تھے اور مال دار نوجوان اظہارِ فخر کے لیے اپنا مہر زیادہ رکھوانے لگے تھے۔ حضرت عمرؓ کو اس پر اعتراض ہوا تو ایک عام بوڑھی عورت نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ جس چیز سے خدا نے مسلمانوں کو نہیں روکا اس سے روکنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے اس کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ بوڑھی عورت تُو کون ہوتی ہے خلیفۂ وقت کی رائے کو چیلنج کرنے والی؟ اس کے برعکس آپؓ نے اپنی غلطی تسلیم کی اور مہر پر قدغن لگانے کا ارادہ ترک کردیا۔ یہ بھی سیرتِ عمرؓ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے کہا کہ آپ کو میرے طرزِعمل میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو بتایئے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا: میں نے سنا ہے آپ کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے ہیں اور آپ کے گھر میں دو سالن بنتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت عمرؓ نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تو مجھ پر بہتان لگا دیا، بلکہ آپ نے وضاحت کی کہ آپ نے جو سنا ہے وہ درست نہیں ہے۔ میرے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا ہے اور میرے گھر میں صرف ایک سالن بنتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر حضرت عمرؓ جیسا حکمران اختلاف اور تنقید سے بلند نہیں تو جرنیلوں اور ججوں کی اوقات ہی کیا ہے! پاکستان جرنیلوں اور ججوں کی بیویوں کو جہیز میں نہیں ملا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور وہ بہترین اسلامی تاریخ کا وارث تھا۔ اتفاق سے جرنیلوں کا تحریکِ پاکستان میں کوئی کردار بھی نہیں تھا۔ جرنیلوں نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو دو ٹکڑے بھی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بھارت سے کشمیر بھی چھین کر نہیں دکھایا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے ہیں اور اب ان کی کوشش ہے کہ کوئی انہیں ان کا ماضی اور حال یاد نہ دلائے، اب کوئی ان کے شرمناک فکر و عمل پر تنقید نہ کرے، اب کوئی ان کے خلاف آواز بلند نہ کرے۔ اسلامی تاریخ تو بڑی چیز ہے، جدید مغرب کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں مغرب کا کوئی صدر، کوئی وزیراعظم، کوئی جرنیل، کوئی جج تنقید سے بالاتر نہیں، لیکن ہمارے جرنیل نہ اسلامی تاریخ کو سند مانتے ہیں، نہ مغرب کے ایجنٹ ہونے کے باوجود مغرب کی تنقیدی روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جرنیلوں کا اسلام بھی جعلی ہے اور ان کی مغرب پرستی بھی جعلی ہے۔

ہماری تاریخ کے طویل سفر میں جرنیلوں نے اتنے بڑے بڑے جرائم کیے ہیں کہ ان پر بات نہ کرنا اسلامی جمہوریہ پاکستان، فکرِ اقبالؒ اور فکرِ قائد اعظمؒ کی توہین ہے۔ جرنیلوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے نظریے سے غداری کی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جنرل ایوب نے پاکستان پر ڈنڈے کے ذریعے سیکولرازم مسلط کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوایا اور ملک پر وہ عائلی قوانین مسلط کیے جو اسلام سے متصادم تھے۔ جنرل یحییٰ کا تین سالہ دور جنرل ایوب کے گیارہ سالہ دور کا تسلسل تھا۔ جنرل پرویزمشرف سیکولر بھی تھے اور لبرل بھی، چنانچہ انہوں نے ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔ ان کے دور میں سامنے آنے والے آزاد ٹیلی وژن چینلز نے پاکستان کو عریانی و فحاشی کے سیلاب میں غرق کردیا۔ جنرل پرویز کو نماز، روزے کا کوئی شوق نہیں تھا البتہ وہ ہندوئوں اور سکھوں کے تہوار بسنت پر جان چھڑکتے تھے، چونکہ وہ نائن الیون کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش کے نام کی مناسبت سے مغرب میں ’’بشرف‘‘ کہلانے لگے تھے، اس لیے ہم نے بھی ان کا نام ’’بشرف سنگھ بسنتی‘‘ رکھ دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق ضرور ایک جرنیل تھے جو اسلام سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے، مگر بدقسمتی سے انہوں نے اسلام کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ بھی پاکستان کے نظریے سے انحراف ہی کی ایک صورت تھی۔ اب ہمارے جرنیل چاہتے ہیں کہ جرنیلوں کی نظریاتی غداری پر کوئی بات نہ کرے۔ ایسا ہوا تو یہ نظریۂ پاکستان، فکرِ اقبال، فکرِ قائداعظم، پاکستان اور اہلِ پاکستان سے ایک اور غداری ہوگی۔ جرنیلوں نے ملک کے نظریے سے بے وفائی کی ہے تو اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے چاہے اس کی سزا موت ہی کیوں نہ ہو۔

ترکی ہو یا پاکستان، جرنیلوں کی حکومت کا کوئی جواز ہی نہیں۔ مگر ترکی کے جرنیلوں نے تو ملک کی آزادی کی جنگ لڑی تھی، بدقسمتی سے پاکستانی جرنیلوں نے ایسی کوئی جنگ نہیں لڑی، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جرنیل پاکستان کے مائی باپ بنے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، لیکن جمہوریت میں سیاسی عدم استحکام ایک عام بات ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جاپان اور اٹلی میں ڈیڑھ دو سال کے بعد حکومت ختم ہوجاتی تھی اور عام انتخابات کا اعلان ہوجاتا تھا، مگر جاپان اور اٹلی میں جرنیلوں نے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ خود بھارت میں سیاست دانوں کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، مگر بھارت کی فوج کو کبھی مارشل لا لگانے کا خیال نہیں آیا۔ بھارت میں جرنیلوں نے سویلینز کی سیاسی بالادستی کو دل و جان سے قبول کیا۔ مگر پاکستانی جرنیلوں کے ڈی این اے میں کوئی ایسا نقص ہے کہ وہ ہر آٹھ دس سال بعد اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر مارشل لا لگایا تھا مگر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے اُس وقت پہلے سے بھی زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا، مگر اس کے باوجود جنرل ایوب نے اقتدار سویلینز کے حوالے کرنے کے بجائے ایک اور جرنیل یحییٰ خان کو ملک و قوم پر مسلط کردیا۔ جنرل یحییٰ کا اقتدار آدھا پاکستان لے ڈوبا۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے خانہ جنگی کے خطرے کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کو برطرف کرکے خود کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنا لیا۔ ظاہر ہے کہ جب تک پاکستان قائم ہے اُس وقت تک جرنیلوں کی اس تاریخ پر بات ہوتی رہے گی۔ کیا جرنیل اس تاریخ پر گفتگو کرنے والوں کو بھی پانچ سال کے لیے جیل میں ڈالیں گے اور ان پر دس لاکھ روپے جرمانہ کریں گے؟

یہ بات ہر سچے مسلمان کے ڈی این اے میں ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے سوا کسی کا غلام نہیں ہوسکتا۔ وقت کی کسی سپر پاور کا بھی نہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے جرنیلوں نے 1958ء سے آج تک پاکستان کی سیاست، دفاع اور معیشت کو ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centric بنایا ہوا ہے۔ امریکہ جب چاہتا ہے ملک میں مارشل لا آجاتا ہے، جب امریکہ چاہتا ہے ملک میں جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ نوازشریف ملک سے فرار ہوکر سعودی عرب یا برطانیہ بھاگتے ہیں تو امریکہ کی مداخلت پر… جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او ہوتا ہے تو امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس کی نگرانی میں۔ ہمارے دفاع کا یہ حال ہے کہ ہماری ہر چیز امریکہ سے آئی ہے۔ یہ صرف چند برس پرانی بات ہے کہ ہم نے اپنے دفاع کے سلسلے میں چین کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے۔ ہماری معیشت کا حال دفاع سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ ہماری معیشت پر مکمل طور پر آئی ایم ایف کی گرفت ہے، اور آئی ایم ایف امریکی ادارہ ہے۔ ہمیں بیل آئوٹ پیکیج ملتا ہے تو آئی ایم ایف کی طرف سے… ہمارا بجٹ بنتا ہے تو آئی ایم ایف کی ہدایت کی روشنی میں… یہاں تک کہ اب آئی ایم ایف بجلی، پیٹرول اور گیس کے نرخوں کا بھی تعین کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جرنیل امریکہ کی اس غلامی کے ذکر کو بھی جرم بنادیں گے اور اس جرم کے مرتکب کو پانچ سال کے لیے جیل میں ٹھونس کر اس پر دس لاکھ کا جرمانہ کردیں گے؟

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سب سے زیادہ ذمہ دار جرنیل ہیں۔ یہ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کا 14 سالہ دور تھا جس میں سب سے زیادہ بنگالیوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے مگر 1962ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا، سول سروس میں بھی بنگالیوں کی موجودگی دو سے پانچ فیصد تھی حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے بنگالیوں کی اکثریت کو صفر کرنے کے لیے ملک میں ون یونٹ مسلط کیا۔ یہ جنرل نیازی تھے جنہوں نے 1971ء کے بحران میں فرمایا تھا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ جنرل یحییٰ تھے جنہوں نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا، یہ جنرل یحییٰ تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے سیاسی مسائل کو فوجی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش یا سازش کی۔ تو کیا اب جرنیل سانحۂ مشرقی پاکستان پر گفتگو کو بھی جرم بنا دیں گے اور جو شخص اس موضوع پر کلام کرے گا اسے پانچ سال کے لیے جیل میں ٹھونس کر اس پر دس لاکھ روپے جرمانہ کردیا جائے گا؟

پاکستان جب قائم ہوا تھا تو وہ ایک نظریہ تھا، ایک عظیم آدرش تھا۔ اس عظیم آدرش کا تعین فکرِ اقبال کررہی تھی۔ اقبال چاہتے تھے کہ مسلم معاشرے مردِ مومن پیدا کریں۔ اقبال اپنی شاعری میں مردِ مومن کی شان اور اوصاف بیان کرتے ہوئے فرما رہے تھے:

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
٭
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
٭
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائے وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اقبال نے اپنی شاعری میں مسلم نوجوانوں کو شاہین صفت بنانے کا بھی درس دیا ہے۔ اقبال کی شاعری شاہین کو ایک بڑے کردار کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
٭
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
٭
تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
٭
پُر دَم ہے اگر تو نہیں خطرۂ افتاد
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
٭
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

بدقسمتی سے جرنیلوں نے جو معاشرہ تخلیق کیا ہے اس میں نہ کوئی مردِ مومن بن سکتا ہے، نہ اقبال کا شاہین بن سکتا ہے۔ جرنیلوں کے قائم کردہ معاشرے میں ’’صاحب ِ عزت‘‘ تین لوگ ہیں: طاقت پرست اور دولت مرکز زندگی بسر کرنے والے، یا پھر جرنیلوں کے جوتے چاٹنے والے۔ جرنیلوں کا تصورِ انسان یہ ہے کہ پاکستانیوں کو ’’دیو قامت‘‘ نہیں ’’بونا‘‘ بلکہ ’’بالشتیہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ایسے ہی لوگوں کو بڑے مناصب ملتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے، ایسے ہی لوگ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی جرنیل چاہتے ہیں کہ ان کی عزت کی جائے، اور جو شخص ان پر تنقید کرے اسے پانچ سال کے لیے جیل میں سڑا دیا جائے اور اس پر دس لاکھ روپے جرمانے کا پہاڑ گرا دیا جائے۔

اسلامی معاشرے میں عدل اتنا اہم ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر ناانصافی کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں نے کبھی انصاف کا بول بالا نہیں کیا۔ ہمارے یہاں ماتحت عدالتوں کی یہ حالت ہے کہ لوگ کہتے ہیں آپ کا مقدمہ ماتحت عدالت میں ہے تو وکیل نہ کریں جج کرلیں۔ اعلیٰ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ فوجی آمروں کی آلۂ کار کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف کے مارشل لائوں کو عدالتیں نظریۂ ضرورت کے تحت جواز مہیا نہ کریں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ 1990ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی حکومتیں ایک جیسے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر سپریم کورٹ نے اُن کی حکومت کو بحال کرنے سے انکار کردیا۔ میاں نوازشریف کی حکومت برطرف ہوئی تو میاں صاحب بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی حکومت بحال کردی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے ڈومیسائل میں فرق تھا۔ بے نظیر بھٹو کا ڈومیسائل سندھ کا تھا اور میاں نوازشریف پنجاب کا ڈومیسائل رکھتے تھے۔ تو کیا عدالتوں کی اس تاریخ کے باوجود اب ججوں کے فکر و عمل اور ان کے فیصلوں پر تنقید اتنا بڑا جرم ہوگی کہ تنقید کرنے والے کو پانچ سال تک جیل میں سڑا دیا جائے اور اس پر دس لاکھ روپے کا جرمانہ لاد دیا جائے؟ کیا جرنیل خدا اور تاریخ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے یکسر بیگانہ ہوچکے ہیں؟