جنگ ِآزادی (انگریزوں کی زبان میں غدر) شروع ہونے سے پہلے بھی بہادر شاہ ظفر کے ساتھ انگریزوں کا جو تحقیر آمیز سلوک تھا اُس سے پوری رعایا بالعموم اور مسلمان بالخصوص نالاں تھے۔ بادشاہ سے انگریزوں کے ناروا سلوک کو ’’دی ٹائمز‘‘ لندن کے 20اگست 1858ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک وقائع نگار مسٹر رسل(Mr.Russell)کے مضمون میں تسلیم کیا گیا ہے:
(ترجمہ) ’’مسٹر رسل نے جو ایسٹ اِنڈیا کمپنی کے ملازم نہ تھے، اگرچہ انفرادی طور پر کسی ایک شخص پر الزام لگانے سے گریز کیا ہے لیکن بغاوت سے پہلے بادشاہ کے ساتھ جس کمینگی اور ناانصافی کا سلوک کیا گیا، اُس کا ذکر کرتے ہوئے رسل نے کہا ہے: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی غیر متعصب شخص اگر ہندوستان میں انگریزی حکومت کے عروج کی تاریخ پر نظر ڈالے گا تو وہ حال میں (غدر کے بعد سے) دہلی کے بادشاہ پر لگائے گئے الزامات کا بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جائزہ لینے پر مجبور ہوگا، اور وہ بادشاہ (جس نے کبھی بھی ہندوستان کی شہنشاہیت سے دست برداری کا اعلان نہیں کا اور جو جائز طور پر ہندوستان کی سب حکومتوں کو جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت بھی شامل ہے، اپنا مُطیع سمجھتا تھا) کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکے گا۔ شروع شروع میں کمپنی کے عیار سوداگروں نے اُس کے باپ دادا کی خوشامد اور چاپلوسی کرکے ایک دو کوٹھیاں بنانے کی اجازت حاصل کرلی۔ اُس کے بعد اُنہوں نے اِسی طریقے سے اپنی فیکٹریوں کا دفاع کرنے اور مرہٹوں سے‘ جنہوں نے لوٹ مار کرکے مغل سلطنت کے امن و امان میں خلل ڈالا ہوا تھا، اپنی اشیاء کو محفوظ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ ایک معمولی حیثیت کے تاجروں کا گروہ، جن کی بہت ہی معمولی حیثیت کا اندازہ اُن شکایات کے کاغذات سے لگایا جاسکتا ہے، جو لیڈن ہال اسٹریٹ، لندن (Leidenhall Street,London) کے مرکزی دفتر میں محفوظ ہیں، اتنی ہمت کرے کہ کسی غیر ملکی طاقت کو، خواہ وہ زمین کے لگان کا سلسلہ ہی کیوں نہ ہو، لالچ دینے کا خیال بھی کرسکے، بعید از قیاس ہے۔‘‘
برطانیہ میں ایسے خطوط اور مضامین کی اشاعت کو جواز بناکر ایک طرف تو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اقدام کی راہیں ہموار کی گئیں اور دوسری طرف اخبارات کے ذریعے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں راجا، مہاراجاؤں اور نوابین سے تحقیر آمیز سلوک، عوام سے کی گئی زیادتیوں اور سقوطِ دہلی کے بعد بہادر شاہ ظفر سے انسانیت سوز سلوک کی ذمہ داری ایسٹ انڈیا کمپنی پر تھی اور برطانوی عوام اور تاج ِ برطانیہ کو جوں ہی علم ہوا، ایک [پارلیمانی قانون]Act of Parliament کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کردیا گیا اور ہندوستان تاجِ برطانیہ کی پناہ میں لے لیا گیا۔ کاش کوئی ان سے پوچھتا کہ بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ تو اِیسٹ انڈیا کمپنی نے چلایا تھا لیکن جب اُس کا فیصلہ ہوا تو اُس وقت تو لارڈ کیننگ(Lord Canning) پہلے گورنر جنرل، پھر تاجِ برطانیہ کا وائس رائے تھا، تو پھر اُس نے برطانیہ کے انسان دوست عوام اور حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے بادشاہ کے ساتھ وہ سلوک کیوں نہ کیا جو بین الاقوامی قانون کے تحت ہونا چاہیے تھا؟
یہ تو تھی زبانِ خنجر اور سایہ خنجر کی باتیں، لیکن جب آستین کا لہو پکارا تو کئی رسل پیدا ہوگئے اور ایف۔ڈبلیو بکلر(F.W.Buckler)نے تو [بغاوتِ ہندوستان کا سیاسی نظریہ] (The Political Theory of Indian Mutiny) میں یہاں تک کہہ دیا کہ:
’’ہندوستان میں باغی، ہندوستانی نہیں تھے، بلکہ انگریز باغی تھے، جنہوں نے ہندوستان کی قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ ابتداً تو انگریزوں نے خانہ پُری کے طور پر ہندوستان حکومت کو رکھا لیکن 1848ء کے بعد سے آداب ِ شاہی اور دربار کے اصولوں کی خلاف ورزی شروع کردی، یہاں تک کہ 1857ء کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بادشاہ کو گرفتار کیا، اُسے جلا وطن کیا اور بُری طرح ذلیل کرکے ہندوستانیوں پر سے شاہی اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔‘‘
( 1857ء غد اروں کے خطوط۔ مرتبہ: سیّد عاشور کاظمی/انتخاب: م۔ص۔ف۔رفعت)
مجلس اقبال
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یہ شعر کل کی طرح آج بھی اہلِ مغرب کی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی بیان کرتا ہے کہ ان کی حکومتیں علم و حکمت اور فلسفہ کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، جس طرح برصغیر میں برطانوی راج میں ہورہا تھا کہ اصل میں تو وحشی اور ظالم مگر زبان پر حقوق، محبت، انسانیت اور مساوات جیسے دعوے ہوتے تھے۔ آج کے حالات میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ مسلمان ممالک میں مغربی وحشت و دہشت اور درندگی کا منظر دیکھیں اور ان کی زبانوں پر امن و حقوقِ انسانی جیسے دعوے، تو ان کی منافقانہ روش سامنے آجاتی ہے۔ کس قدر غضب کا مقام ہے کہ پورے عالمِ اسلام پر ننگی جارحیت کے ارتکاب اور آگ و بارود کی موسلادھار بارش کے باوجود عالمی سلامتی کونسل کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔ یوں ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘۔ حقیقت میں علامہ کے الفاظ میں گویا مستقبل کی پالیسی ہے۔