توہین قرآن کے ملزم کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت

سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کے حوالے سے عالم گیر شہرت کے حامل پنجاب کے ضلع ننکانہ کے قصبہ واربرٹن میں ایک مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کر کے قرآن پاک کی بے حرمتی کے ایک ملزم کو پولیس کی تحویل سے چھڑوا کر بے تحاشا تشدد کا نشانہ بنایا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ملزم محمد وارث نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور مبینہ طور پر کسی پیر کی ہدایت پر جادو ٹونہ کے حربے آزما رہا تھا، پیر نے اسے حکم دیا تھا کہ اپنی سابقہ اہلیہ اور اس کے ایک رشتہ دار کی تصاویر اور چھریاں قرآن پاک کے ساتھ رکھ کر قصبہ کے مختلف حصوں میں پھینکے تو اس کی مراد بر آئے گی چنانچہ وہ صبح سویرے قرآن پاک کے نسخے، چھریوں اور تصاویر کے ساتھ جگہ جگہ پھینکنے میں مصروف تھا کہ لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس اثناء میں بڑی تعداد میں شہری تھانے کے باہر جمع ہو گئے اور تھانے کا آہنی دروازہ پھلانگ کر اندر سے اسے کھول دیا اور ہجوم نے اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ شروع کر دی، تھانیدار سمیت پولیس اہلکاروں نے بھاگ کر جان بچانے میں عافیت جانی…!

پولیس حکام کے مطابق ملزم کو 2019ء میں بھی اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا مگرو ہ جون 2022ء میں بری ہو گیا تھا۔ تازہ واقعہ تھانے میں پولیس کی نفری کم ہونے کے سبب پیش آیا تاہم آئی جی نے فوری کاروائی کرتے ہوئے ڈی ایس پی ننکانہ اور واربرٹن کے تھانیدار کو معطل کر دیا ہے جب کہ دوًسری جانب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جب کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور تین رکنی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔

اللہ کرے وطن عزیز میں اس نوعیت کا یہ آخری واقعہ ہو مگر پہلا واقعہ ہر گز ہرگز نہیں،ماضی میں ایسی لاقانونیت کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، ابھی دسمبر 2021ء کا وہ واقعہ ذہنوں میں تازہ ہے جس میں سیالکوٹ میں دوست ہمسایہ ملک کے ایک شہری کو بے رحم سفاک ہجوم نے رحمۃ اللعالمین، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیؐ کی ناموس کا نام لے کر بے رحمانہ تشدد کر کے قتل کر دیا تھا، اس سے قبل سیالکوٹ ہی میں چند برس پہلے دو حافظ قرآن بھائیوں سے ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کی خاطر ’’ڈاکو… ڈاکو‘‘ کا شور مچا کر ہجوم جمع کیا گیا اور اس وقت بے رحمی سے موت کی نیند سلا دیا گیا جب وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نائٹ کرکٹ کھیل کر گھر واپس جا رہے تھے، اسی طرح گوجرانوالہ میں ایک شخص پر قرآن حکیم کو نذر آتش کرنے کا الزام عائد کر کے مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا، دو تین برس قبل خوشاب میں ایک بنک گارڈ نے ملازمت سے فارغ کرنے پر مینیجر پر نماز سے روکنے کا الزام عائد کر کے ہجوم جمع کیا جس نے بنک کو نذر آتش کیا اور مینیجر کو بھی موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیئے جا سکتے ہیں اسی طرح یوحنا آباد لاہور میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد دو مسلمان نوجوانوں کو مشکوک قرار دے کر مسیحی ہجوم نے تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ ماضی میں ایسی کئی مزید مثالیں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں جن میں لوگوں کو پر تشدد رویوں کے باعث جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایسے تمام واقعات کے بعد حکام کا کم و بیش یکساں رویہ دیکھنے میں آتا ہے، حکمران کوئی بھی ہو، اس کی جانب سے ایک لگا بندھا روایتی بیان جاری کر دیا جاتا ہے اور تحقیقاتی کمیٹی بنا کر معاملہ کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ماضی میں اگر ان واقعات کو سنجیدگی سے لیا جاتا اور مستقبل میں ان کے اعادہ سے بچنے کی خاطر حکومتی اور معاشرتی سطح پر ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جاتے تو ہمیں بار بار اس ناپسندیدہ اور قبیح صورت حال کا سامنا کرنا نہ پڑتا۔

آج بھی اگر ہم سنجیدہ ہوں کہ آئندہ ایسے سانحات کے سامنے بند باندھا جا سکے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ مبذول کرنا ہو گی خصوصاً اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ ایسے تمام مواقع پر ہماری پولیس اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکام کیوں رہتی ہے؟ اس کے اہلکار خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے کیوں پائے جاتے ہیں؟ ہجوم کو روکنے کے لیے اپنی جان لڑانے کی بجائے دم دبا کر بھاگنے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ مقامی پولیس اہلکاروں کے اس طرز عمل کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ کے حکام کی کارکردگی بھی ایسے مواقع پر بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے کہ یہ ’’اعلیٰ‘‘ لوگ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت صورت حال کی نزاکت کا احساس اور ادراک کیوں نہیں کر پاتے اور بگاڑ کو خرابی کی انتہا تک پہنچنے سے پہلے روکنے کے لیے موثر تدابیر کیوں روبہ عمل نہیں لائی جاتیں…؟

سرکاری سطح پر معاشرے میں مثبت سوچ و فکر اور اقدار کے فروغ اور منفی طرز فکر کی بیخ کنی کا اہتمام لازم ہے، عوام خصوصاً نوجوانوں کی ذہنی تربیت اور شعور کی بیداری کے لیے محراب و منبر کے وارث علماء کرام، تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے تعاون اور نصاب تعلیم کو بامقصد بنا کر اس جانب خصوصی پیش رفت ممکن ہے، اس ضمن میں سب سے بھاری ذمہ داری برقی، ورقی اور معاشرتی ذرائع ابلاغ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں فحاشی، عریانی، بے حیائی اور بے راہ روی عام کرنے پر اپنا سارا زور صرف کرنے کی بجائے ملک و قوم کی جانب سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا بھی احساس کریں ۔ نئی نسل کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے اور اسے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کے لیے بھی موثر پروگرام ترتیب دیں اور عوام کو جذباتیت سے نکال کر دین کے حقیقی تصور سے روشناس کرائیں…!

عدلیہ پر بھی اس ضمن میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر لوگوں کو ان اداروں پر اعتماد اور عدل ملنے کا یقین ہو تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے ہمارے معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں قانون کی طاقت کی بجائے طاقت ور کا قانون چلتا ہے لاٹھی جس کے ہاتھ ہو بھینس اسی کو ملتی ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ہماری عدالتیں، رسول اکرمؐ، قرآن حکیم اور دینی اقدار و روایات کی توہین کے کسی ایک بھی مجرم کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام رہی ہیں اور ایسے کم و بیش تمام مقدمات کے ملزمان آج ہیرو بن کر مغربی ملکوں میں عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں…!!! (حامد ریاض ڈوگر)