بھارت کے صوبہ بہار کی راجدھانی پٹنہ سے پینسٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر دیسنہ سے ایک درسی سوال آیا ہے اور غالباً کسی مُدَرِّسہ کی طرف سے آیا ہے (خاتون نے خط تو لکھا، نام نہیں لکھا)۔ فرماتی ہیں:
’’آپ کے کالم بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ ابونثر صاحب! ذرا کالم نگاری کی تعریف تو بیان کردیجیے‘‘۔
بی بی! بھارت میں ہو تو ہو، پاکستان میں کالم نگاری قابلِ تعریف نہیں رہی۔ وہی گفتار بے ڈھنگی جو ٹیلی وژن چینلوں پر نظر آتی ہے، اب کالموں میں بھی در آئی ہے۔ خوش گفتاری کی جگہ گالی گفتار نے لے لی ہے۔ مگر کالم نگاری کی تعریف بیان کرنے سے پہلے ذرا اپنی تعریف بیان کردی جائے۔ قصہ دلچسپ ہے۔ چوں کہ اس قصے میں خوش اتفاقی سے آپ کے اِس مسخرے کالم نگار کی تعریف کا پہلو بھی نکل آیا ہے، چناں چہ اس پہلو کو یہ [کانگڑی] پہلوان فخر سے بیان کرتا ہے اورآپ کو تو معلوم ہی ہے کہ … اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں ’کسے‘۔
اس حال میں کہ 26دسمبر 2022ء کو اسلام آباد میں چھوٹی بیٹی کی شادی تھی، برادرم اشفاق احمد خان نے 11دسمبر 2022ء کو لاہور میں دائرہ علم و ادب پاکستان کا ایک پروگرام رکھ لیا۔ اہلیہ مرحومہ نے پیشانی پرشکن لائے بغیر سامانِ سفر تازہ کیا اور یہ عاجز لاہور روانہ ہوگیا۔ تحریکِ ادبِ اسلامی کے ممتاز محرک، مشہور دانشور، صحافی اور مصنف محمود احمد فاروقی مرحوم کے کالموں کی نومطبوعہ کتب کی تقریبِِ پزیرائی تھی۔ صدارت کررہے تھے پاکستان کے بزرگ صحافی، مدیر، کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار جنابِ مجیب الرحمٰن شامی۔ مقررین میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، حافظ محمد ادریس، وقاص انجم جعفری، انور گوندل اور ضیغم مغیرہ جیسے اکابر شامل تھے۔ محمود فاروقی مرحوم کے صاحب زادے مسعود احمد فاروقی اس تقریب میں شرکت کے لیے شکاگو سے تشریف لائے تھے۔
کالم نگاری کی اصناف اور اوصاف پر بات کرتے کرتے جانے کیا جی میں آئی کہ اس منہ پھٹ مقرر نے اپنے چھوٹے منہ سے ایک بڑی بات کہہ ڈالی: ’’کوئی اچھا وکیلِ استغاثہ مل جائے تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی سربراہی میں ایک ادبی عدالت قائم کرکے جنابِ مجیب الرحمٰن شامی پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔ استغاثہ یہ ہوگا کہ صحافی اورکالم نگار مجیب الرحمٰن شامی نے ادیب اور انشا پرداز مجیب الرحمٰن شامی کا گلا گھونٹ کر اُس شریف النفس کو مار ڈالا ہے‘‘۔
شامی صاحب مسکرائے اور جب خطبۂ صدارت دینے آئے تو اپنی صفائی میں سب کچھ فرمانے کے بعد یہ بھی فرمادیاکہ
’’بھائی! ہم تو سبزی فروش ہیں۔ ابونثرؔ ڈرائی فروٹ بیچتے ہیں‘‘۔
کالموں میں سبزی فروشی کا کاروبار تو اب شروع ہوا ہے۔ پہلے میوہ جات ہی بیچے جاتے تھے۔ ابتدا میں کالم نگاری کا مطلب شگفتہ نگاری لیا جاتا تھا۔ فکاہیہ اور مزاحیہ کالم لکھے جاتے تھے۔ ان کالموں میں ادبی چاشنی ہوتی تھی۔ بذلہ سنجی ہوتی تھی۔ چٹکیاں لی جاتی تھیں۔ کہا جاتا تھاکہ ’کالم‘ اخبار کا غیر سرکاری اداریہ ہوتا ہے۔ جو بات اداریے کے سنجیدہ اُسلوب میں نہیں کہی جاسکتی وہ ’کالم‘ کے فکاہیہ اُسلوب میں کہہ دی جاتی تھی۔ روزنامہ امروزکا ’’حرف و حکایت‘‘، روزنامہ نوائے وقت کا ’’سرِ راہے‘‘، روزنامہ حریت کا ’’آداب عرض‘‘، روزنامہ جنگ کے ’’وغیرہ وغیرہ‘‘، ’’تلخ و شیریں‘‘ اور ’’دخل در معقولات‘‘ جیسے کالموں کے علاوہ روزنامہ جسارت کے ’’اندیشۂ شہر‘‘ اور ’’سخن در سخن‘‘ جیسے کالم اپنے وقت کے مقبول ترین پُر مزاح سلسلے تھے۔ پاکستانی صحافت کے ابتدائی کالم نگاروں پر نظر ڈالیے تو ان میں شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، ابن انشا، مشفق خواجہ (جو غریبِ شہراور خامہ بگوش کے قلمی ناموں سے لکھتے رہے)، انعام دُرّانی اور نصراللہ خان جیسے دوسرے بڑے ادیبوں کے نام نظر آئیں گے۔ اب آپ کو سیاست ہی میں مسکراہٹ ملے گی نہ صحافت میں۔ جہاں دیکھیے صاحبِ عالم کی:
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں
آج کل ہر قسم کی مضمون نگاری ’کالم نگاری‘ کہی جانے لگی ہے۔ پہلے سنجیدہ مضامین کو ’خبروں کا تجزیہ، خبروں کا پس منظر، معاشی صورتِ حال یا معاشرتی مسائل‘ وغیرہ کا عنوان دیا جاتا تھا۔ اب ذاتی خیالات و خرافات کے اظہار کو بھی ’کالم‘ کہا جاتا ہے۔ جمیل الدین عالیؔ اپنے مشہور ادبی وسماجی و معاشی کالم ’’تماشا مرے آگے‘‘ کو کالم نہیں ’اظہاریہ‘ کہا کرتے تھے۔ اس عاجز کی رائے میں جدید طرز کے کالموں، بلاگ اور وی لاگ وغیرہ کے لیے ’اظہاریہ‘ نہایت موزوں اصطلاح ہے۔ سوائے اظہار کے ان میں ہوتا ہی کیا ہے!
’کالم‘ (Colunm)کے معنی سب جانتے ہیں کہ ’ستون‘ کے ہوتے ہیں۔ ’ستون‘ کے معنی ممکن ہے سب نہ جانتے ہوں Pillar کوکہتے ہیں۔ اخباری صفحات کی چوڑائی میں مسلسل ایک سطر میں متن تحریر کرنے کے بجائے، صفحے کی لمبائی میں دو، دو انچ چوڑی آٹھ نالیاں کھینچ لی جاتی ہیں۔ اِن ستون نما نالیوں کو صحافتی اصطلاح میںکالم کہتے ہیں۔ ایک صفحے پر بالعموم آٹھ ہی کالم ہوتے ہیں، لیکن بعض اخبارات نے کالموں کی چوڑائی میں کچھ کمی کرکے صفحے پر ایک کالم کا اضافہ بھی کرلیا تھا۔ ابتدا میں ادارتی صفحے کے کالم نمبر ایک اور کالم نمبر دوکی مسلسل سطر میں اوپر سے نیچے تک اداریہ ہوتا تھا۔ اداریے کے پہلو، یعنی کالم نمبرتین میں، ادارتی صفحے کی پوری لمبائی کا احاطہ کرتے ہوئے وہ مشہور فکاہیہ کالم شائع ہوتے تھے جن کا اوپر ذکرآیا ہے۔ پورے کالم پر محیط ہونے کی وجہ سے یہ تحریریں بھی ’کالم‘ کہی جانے لگیں۔ بعد کو ادارتی صفحے کی تزئین وآرائش میں تنوع پیدا کیا گیا۔ اداریے سمیت ہر تحریر کے لیے الگ الگ صندوق اور صندوقچے (Boxes) بنائے جانے لگے۔ پہلے پہل کالم صرف ادارتی صفحات پر شائع ہوتے تھے، مگر کالم نگاروں کی بھرمار ہوئی تو اُن کی مار دوسرے صفحات پر بھی ہونے لگی۔
’اظہاریہ‘ ظاہر ہے کہ لفظ ’اظہار‘ سے بنا ہے۔ ’اظہار‘ کا مطلب ہے عیاں کرنا، آشکار کرنا، نمایاں کرنا، ظاہر کرنا۔ یہ اخفا یا چھپانے کی ضد ہے۔گفتگو یا تحریر بھی انسان کے اندر چھپی ہوئی چیز کا ’اظہار‘ ہوتی ہے۔ شیخ سعدیؒ کا ایک شعر ہے، جو ضرب المثل بن چکا ہے:
تا مردے سخن نہ گُفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
جب تک کوئی شخص بات چیت نہ کرے، اُس کے عیب و ہنر مخفی رہتے ہیں۔گفتگو یا تحریر سے ظاہر ہوجاتاہے کہ کسی شخص کے اندر علم کا ذخیرہ ہے یا جہل کا دور دورہ۔ طبیعت میں لطافت ہے یا کثافت۔ اسی لیے گفتگو یا تحریرکو ’اظہار‘ کہتے ہیں۔ ایسی تحریر کو ’اظہاریہ‘ ہی کہنا چاہیے۔ جو شخص اپنی تقریر یا تحریر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر فرد یا معاشرے کے صرف گھناؤنے واقعات بیان کرتا ہو، کھوج لگا لگا کربرائیوں، خرابیوں اور خباثتوں کا تذکرہ کرتا ہو تو آپ یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ اس شخص کے باطن میں خباثت بھری ہوئی ہے۔ اگر کوئی شخص فرد یا معاشرے میں صرف حسن و خوبی تلاش کرتا ہو، لوگوں کا ذکر عزت و احترام سے کرتا ہو، اُن کی غلطیوں، کوتاہیوں اور خامیوں سے صرفِ نظر کرتا ہو، تو ایسے شخص کی گفتگو یا تحریر سے اُس کی طبعی کیفیت کا اظہار ہوجاتا ہے کہ صاحبِ تقریر یا تحریر کی طبیعت اور مزاج میں پاکیزگی ہے، نفاست ہے، شرافت ہے، نجابت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں ضروری ہو وہاں بھی بُرائیوں اور خرابیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے یا اُن کی نشان دہی نہ کی جائے، یہاں اشارہ صرف مجموعی شخصی مزاج کی طرف ہے۔
شگفتہ کالم نگاری کا احیا ہونا چاہیے۔کوئی آپ کو کو مسکراکر دیکھے تو آپ خود بھی مسکرا دیتے ہیں۔ مسکراہٹ سے مسکراہٹ پھیلتی ہے۔ ذہنی تناؤ، بے چینی اوراضطراب میں کمی آتی ہے۔ کیا ہی مزہ ہو کہ کالم نگارخود مسکرا کر سیاست کا ر سے کہے کہ ’’آپ بھی مسکرائیے‘‘۔ گنجائش ہوتی تو فکاہیہ کالم نگاری کی کچھ مثالیں بھی پیش کر دی جاتیں کہ
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ ’پاک‘
اس کو کہتے ہیں ’کالم‘ آرائی