ڈاکٹر یونس حسنی(پ: 3 ستمبر 1937ء) اردو زبان و ادب کے ایک ممتاز محقق اور نامور استاد ہیں۔ ڈاکٹر حسنی نے راجپوتانہ کی واحد مسلم ریاست ٹونک کے ایک علمی، ادبی اور مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سید احمد شہید، ڈاکٹر صاحب کے جدِّ امجد ہیں۔ حسنی صاحب نے دربار ہائی اسکول ٹونک اور حمیدیہ کالج بھوپال سے تعلیم حاصل کی اور اپنے وقت کے ممتاز اساتذہ ڈاکٹر ابو محمد سحر اور گیان چندجین سے کسبِ فیض کیا۔
ڈاکٹرحسنی کا شمار اُن علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں ایسا تہذیبی رچائو اور وضع داری ہےجو ایک ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ کئی پشتوں سے آپ کے خاندان میں چلا آرہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور کراچی کے ممتاز تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے صدر، انجمن ترقی اردو پاکستان کے مشیر علمی و ادبی، اور اردو لغت بورڈ کراچی کے مدیر اعلیٰ بھی رہے۔ فی الوقت آپ بحیثیت مہمان استاد، شعبہ اردو وفاقی جامعہ اردو (کراچی) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ سے کسبِ فیض کرنے والے بے شمار طلبہ اس وقت مختلف کالجوں اور جامعات میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹریونیس حسنی تقریباً دو درجن کتابوں کے مصنّف، مولف اور مترجم ہیں۔ پاک و ہند کے موقر علمی و ادبی جرائد میں چالیس سے زائد مقالات شائع ہوکر صاحبانِ علم و فضل سے تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب معلم، محقق، نقاد، مترجم، صحافی اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ خاکہ نگار بھی ہیں۔ پیش نظر کتاب ”گہر ہائے شب چراغ“ درجِ ذیل شخصیات پر آپ کے تحریر کردہ خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان شخصیات میں مولانا سید محمد یعقوب، ڈاکٹر ابو محمد سحر، احمد الدین شیخ، ڈاکٹر سید اسلم، محمود احمد برکاتی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹر سید ابوالخیرکشفی، مسلم صاحب(روزنامہ دعوت)، صلاح الدین(ہفت روزہ تکبیر)، نواب سعادت علی خاں، مفتی عبدالرحیم، مولوی عابد حسین، احتشام صاحب، پروفیسر شمیم احمد، رفیق نقش شامل ہیں۔ مذکورہ شخصیات کے ان خاکوں میں مشرقی تہذیب و شائستگی کی خوب صورت جھلکیاں ملتی ہیں۔ سادہ و شگفتہ اندازِ بیان قارئین کو متوجہ رکھتا ہے۔ شخصیات کی تصویرکشی ایسے عمدہ اسلوب میں کی ہے کہ چند ہی جملوں میں شخصیت کے مخفی پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ مشتے از خروارے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
ڈاکٹر سید اسلم: ”ایک بار مجھ سے کہنے لگے: میں نے درجنوں لوگوں کو ٹوپی اوڑھنے کا عادی بنادیا ہے، بات یہ ہے کہ دل کے مریضوں کے لیے ننگے سر رہنا مضر ہے خصوصاً اُن لوگوں کے لیے جن کے سر پر بال نہ ہوں، اس لیے کہ گرمیوں میں ننگے سر رہنے سے کھوپڑی سے بخارات بنتے ہیں جس کے نتیجے میں خون گاڑھا ہوجاتا ہے۔ سردیوں میں یہی عمل ٹھنڈک سے ہوتا ہے کہ سردی کے باعث خون جمنے لگتا ہے، دونوں صورتیں دل کے مریضوں کے لیے مضر ہیں۔ اب اتنی باریکی سے دل کے مریضوں پر توجہ کون دیتا ہوگا!“ (ص69)
محمود احمد برکاتی مرحوم: ”محمود میاں کی نظر بڑی کافر ہے۔ مروت کی اور بات ہے ورنہ وہ انسانوں کا مطالعہ بڑی ژرف نگاہی سے کرتے ہیں۔ اپنے احباب، اعزہ و اقارب، ملنے جلنے والوں اور دوست آشنائوں کی کم زوریوں اور خامیوں سے وہ پوری طرح واقف رہتے ہیں۔ بعض کم زوریوں کو بادل نخواستہ اور بعض کو اپنی فطری مروت کی وجہ سے برداشت کرتے رہتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس سے ناواقف ہیں۔ ان کے حلقۂ احباب میں، مَیں ایک سے زیادہ ایسے افراد سے واقف ہوں جو کتاب چور ہیں۔ بعض حضرات تو اس میدان کے ڈاکو ہوتے ہیں۔ محمود میاں چرکے پر چرکے کھاتے جاتے ہیں مگر ان کو کتاب دینے سے باز نہیں آتے۔ کبھی کبھی بڑی پست آواز میں اس حرکت پر ہلکا سا احتجاج بھی کرلیتے ہیں مگر انھیں انسانوں کی کم زوریوں کے ساتھ نبھانا خوب آتا ہے۔ وہ کسی شخص کی خامیاں بیان کریں تو دوسرے موقع پر اُس کی چار خوبیاں بیان کرکے حساب برابر کردیتے ہیں۔ پھر بھی وہ نمود و نمائش کرنے والوں اور منافقوں کو برداشت نہیں کرپاتے۔ اس طرح کے لوگ انھیں طبعاً پسند نہیں، اور شاید ان کے ساتھ وہ بہت زیادہ نباہ نہیں کرسکتے“۔ (ص80)
ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی: ”وہ بہت تہ دار شخصیت کے مالک ہیں۔ بعض اوقات ان تہوں کے نیچے سے بڑا مغز برآمد ہوتا ہے اور کبھی کچھ نہیں۔ انھیں مجموعۂ اضداد کہنا چاہیے۔ اگر ان کی خوبیوں اور خامیوں کی جمع تفریق کی جائے تو بعض مرتبہ نتیجہ صفر بھی نکل آتا ہے۔ ان میں جو خوبیاں ہیں وہ انتہا درجے کی ہیں۔ جو خامیاں ہیں بڑی شدید ہیں۔ ان سے مل کر کبھی آدمی ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے تو کبھی انتہائی متوحش“۔ (90)
پروفیسر شمیم احمد: ”ذاتی طور پر وہ کانوں کے کچے، اصولوں کے پکے، زود رنج اور انا کا شکار تھے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے۔ وضع داری انھیں خوب آتی۔ میل ملاپ ذاتی سطح پر برتتے تھے۔ جن سے تعلقات ہوتے ان کے اہلِ خانہ اور متعلقین کو بھی برتتے تھے، اس معاملے میں وہ پرانی وضع داریوں کی آخری نشانی تھے۔ اب اس طرح اور ایسی محبت کرنے والے کاہے کو میسر آئیں گے! کھانے پینے کے شوقین تھے، سیر ہوکر کھاتے اور اس سے زیادہ سیر ہوکر کھلاتے۔ کھلاتے اور خوش ہوتے جاتے۔ زندگی کے کچھ اصول انھوں نے وضع کرلیے تھے، ان پر شدت سے قائم رہے، کوئی ابتلا اور کوئی آزمائش انھیں ان کے اصولوں سے نہ ہٹاسکی۔ کسی حادثے سے ”سبق“ نہ لے سکے، پوری زندگی ایمان داری سے کمایا اور ایمان داری سے خرچ کیا، اسی کی سزا بھی بھگتی.. وہی سزا جو ہر ایمان دار آدمی کو بے ایمان معاشرہ دیتا ہے“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”گہر ہائے شب چراغ“ خاکہ نگاری میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔