مابعد از تصور: ما بعد جدیدیت اور جدید پیش رو

تعارف(تیسرا آخری حصہ)

(تعارفی نوٹ: رچرڈ کیئرنی آئرش فلسفی اور دانشور ہیں۔ اُن کی زیر نظر کتاب THE WAKE OF IMAGINATIONمغربی فکر کی تاریخ میں فلسفہ ’’تصور‘‘ کے سفرکابیان ہے۔ مقدمہ اس کتاب کا یہ ہے کہ آدمی کا ’’تصور‘‘ آغاز میں آفاقی تھا، جو بتدریج کائناتی وسعتوں سے سمٹ کرٹی وی اور موبائل اسکرینز کی تصویروں میں ڈھل گیا ہے۔ یہ مغربی انسان کے تصور کے انحطاط کی تاریخ ہے جسے مصنف نے عصرِحاضرکی مابعد جدید صورتِ حال میں انتہائی باریک بینی اورتحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس تصنیف کا مقصد مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ کس طرح آدمی کے تصوراور کائناتی اقدار کی اہمیت اور ضرورت ازسرِ نو زندہ کی جائے، اور جدیدیت کے بعد کی صورتِ حال (مابعد جدیدیت) سے انسانوں کونجات دلائی جائے۔ مترجم)
……٭٭٭……
آغاز ہی سے یہ بات توجہ میں رہے کہ مابعد جدیدیت کے مرکزی رجحانات میں سے ایک تاریخی وقائع نگاری پرشک کرنا ہے۔ مابعد جدید مبصرین میں تاریخ کا ادوار میں تقسیم سے انکار قوی ہے، یہ اسے جدیدیت کی خام خیالی کہتے ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے یقین کا Universal Progressپروگرام سمجھتے ہیں۔ فکر کی وہ میراث جو جدید جمالیات کی نمائندگی Briefly New کی اصطلاح میں کرتی ہے، یہ نظریہ کہ ہر جدید فنی تحریک لازماً انسانیت کی خاطر ایک بڑی چھلانگ ہے۔ ایک پیش رو جدت جو ہر مقدم شے مٹاکر نئی اشیا کی رہنما بنتی ہے اور یوٹوپیائی نمونے تشکیل دیتی ہے، قلب ماہیت کرتی ہے، مابعد جدیدیت یہ نمونے مسترد کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت نے جب سے بطور ادبی کلیہ اور فلسفہ فن تعمیر میں تنقیدی اصطلاح کا اپنا اطلاق کیا ہے، تاریخ کی تفسیر مختلف ’منتخب روایتی کلام‘ کے طور پر ہے۔ تاریخ نویسی کو ایک ایسے آرٹ کا تسلسل قرار دیا ہے جو مختلف بیانیوں کو خوشنما بناکر ترتیب دے دیا جائے۔ مابعد جدید ماہرین فن تعمیر کے رویّے اور کام میں یہ اسلوب اور فکر نمایاں ملتی ہے۔
فرانسیسی فلسفی فرانسواں لیوٹارڈ Note on the Meaning of post میں لکھتا ہے کہ مابعد جدیدیت کا ’مابعد‘ کسی تحریک کے احیا یا ردعمل کا بیان نہیں بلکہ یہ تکرار ہے یادِ ماضی کی، خلافِ معمول رجحان کی، متصوفانہ طرزِ زندگی کی، کہ یہ سب جدیدیت کی یادیں فراموش کرنے کی ابتدائی سی کوشش ہے۔
مابعد جدیدیت ’’تخلیقی جوہریت‘‘ کے جدید مسلک کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ تخلیقی صلاحیت کی پیش رفت پر سوالیہ نشان لگادیتی ہے۔ مابعد جدید ذہن تفتیش کرتا ہے، اور اس کا تجزیہ بیان ماضی سمجھ کر معکوس طرز پر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدیدیت نے معاشرے میں غربت، جہالت اور استبدادی حکومت سے نجات کے خواب دیکھے اور دکھائے، مگر ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ ترقی ان میں سے کسی بھی خواب کی تعبیرکے بغیر پیش رفت کررہی ہے۔ مابعد جدیدیت نے جدیدیت (روشن خیالی، رومان پسند تحریک، اورجدیدیت) کی میراث ترک کردی، اور نقد کیا کہ جدید پیش روؤں کا عہد ختم ہوا۔
ارتقا سے انحطاط
مرکزی دھارے کے آرٹ کی پیش رفت پر جدیدیت پرست کے یقین کا دولخت ہونا، اور اسی سے جڑی سماجی ترقی کئی پریشان کردینے والے سوال اٹھاتی ہے۔ اگرتخلیقی تصور کا کوئی کردار مابعد جدید عہد میں بظاہرہے بھی تو یہ نجات دہندہ کا نہیں ہے۔ اس کا واحد کوئی مستقبل، اگر ہم پلٹ کر دیکھیں، ہم آنے والے دنوں میں کیا دیکھ سکتے ہیں؟ کیا اب فن کار یا ہنرمند اور دانش ور کا معاشرہ سازی میں کوئی مثبت کردار باقی ہے؟ تاریخ کے لیے آگے کوئی موڑ ہے یا نہیں؟ یا پھر یہ صرف اپنے ہی دائرے میں گردش کرتی رہے گی؟ کیا آرٹ کا اپنی ہی نقل در نقل کے سوا بھی کوئی کردار ہے؟ اور یہ ساری صورتِ حال تصورِ ’’تصور‘‘ کی کیا حیثیت اور قدر معین کرتی ہے؟
جدید آرٹسٹ، زولا اور ہوگو سے سارتر تک، اس یقین پرکاربند تھے کہ عوامی ایکشن کو پروگرام کیا جائے۔ جب کہ مابعد جدید آرٹسٹ کا رجحان اس یقین کی جانب ہے کہ وہ اب کسی مؤثر مداخلت یا اثر پذیری کے قابل نہیں رہا ہے۔ یہ بے یقینی کے احساس سے بھرپور ہے، کسی کائناتی معنویت کے امکان سے خالی ہے، یہ فقط کسی سیاسی پروجیکٹ یا انسانی شناخت کی موضوعیت کا نتیجہ ہے، مابعد جدیدیت آدمی کے ارتقائی نمونے کا انحطاطی مظہر ہے۔ مابعد جدید تہذیب اس طرح ایک ایسی شے بن جاتی ہے جو بغیر باور کیے جانتی ہے کہ وہ کیا ہے۔ اس کا انعکاسی تجزیہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا حال جو ماضی کی جانب پیش رفت کررہا ہے، اور جیسے سب کچھ رک چکا ہے، اور مستقبل آگے کہیں نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آدمی سے خالی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں تاریخی پیش رفت پر معتبر بیانیے مشتبہ بنتے جارہے ہیں۔ اور یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ دانش ور مابعد جدیدیت کو ماورائے جدیدیت قدم سمجھنے سے زیادہ، اسے جدیدیت ہی کا کوئی لاشعوری بحران سمجھتے ہیں، وہ اسے جدیدیت کا تنقیدی جائزۂ نو سمجھتے ہیں۔
انسان پرستی کا تنازع
ہم مابعد جدیدیت کے اس ایقان پرابتدائی نظرکررہے ہیں، کہ ’’تخلیقی تصور‘‘ مغرب کی انسان پرست تہذیب کا محض فریبِ نظر ہے۔ بعد ازاں ہائیڈیگر اس نظریے کی باقاعدہ پیش بینی بھی کرتا ہے کہ جب وہ Letter on Humanism تحریر کرتا ہے۔ یہ 1946ء کی بات ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’انسان پرستی‘ کا نظریہ جدید دنیا میں موضوع انسان کے بحران کی مخفی جہات سمجھنے سے قاصررہا ہے۔ ہائیڈیگر واضح طور پرتخلیقی تصور کے ’انسان پرست‘ عقیدے پر سوال اٹھاتا ہے۔ ’’یہ سوال تو بنتا ہے‘‘ وہ کہتا ہے،’ ’کہ شاعری کی فطرت درستی سے ’قوت تصور‘ کی اصطلاح میں متخیل کی جاسکتی ہے؟‘‘ اور وہ اپنے اس مطلب کی وضاحت میں کہتا ہے کہ’ ’جدید موضوعیت براہِ راست تخلیق کی غلط تشریح کرتی ہے، کہ یہ ایک موضوعی ذہانت کی من مانی کارکردگی ہے۔‘‘
ساختیت کی تنقید میں تصور کا ساختیاتی تجزیہ آج کے انسان کی عدم موجودگی کا اعلانِ عام ہے۔ اس پرآگے مفصل بات کریں گے۔ یہاں یہ کہنا کافی ہوگا کہ انسان پرستی کی بحث میں، کہ جس نے معاصر مفکرین کے ذہن جکڑ رکھے ہیں، مشل فوکو کی جانب سے ’موضوع کی حاکمیت، انسان پرستی اورعلم نوع انسان کی جڑواں حکمرانی‘ کی ملامت کتاب Archaeology of Knowledge (1969) میں ابتدائی طور پر براہِ راست بشر مرکز فلسفوں کے خلاف ہے، کہ جوانیسویں اوربیسویں صدی کی ابتدا میں سامنے آئے تھے، اور اس خیال کی تشہیر کررہے تھے کہ ’’انسانی شعور تاریخ کی پیش رفت اورعمل میں اصل فاعل ہے‘‘۔ فوکو اس انسانی قیاس آرائی کوچیلنج کرتا ہے، وہ اس کا رد زبان کے سوچے سمجھے لاشعوری مثبت کردار میں نمایاں کرتا ہے، کہ جو انسانی تصور کی تاریخی صنعت ہے۔ لیوٹارڈ نے بھی خود کو اسی طرز پرانسان پرستی کا مخالف بناکر پیش کیا ہے، کہ جب وہ مابعد جدید ثقافت کی یہ کہہ کر توثیق کرتا ہے کہ یہ مابعد جدیدیت لوگوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ چیزوں کو اُس سیاق و سباق میں سمجھ سکیں جس سیاق و سباق میں دیکھنے کی عادت عرصہ سےhuman sciences یا لبرل آرٹس میں پائی جاتی ہے۔ درید اور بارتھس سمیت دیگر مابعد جدید مفکرین بھی اس معاملے میں اتفاق کا رجحان رکھتے ہیں۔ یہ لوگ انسان پرستی کی درجہ بندی جدیدیت کے اس نظریے کے طور پر کرتے ہیں جو انسان پرستی کو تاریخ میں مرکزیت عطا کرتا ہے، اور اسے معنی کی راہِ راست قرار دیتا ہے۔ مابعد جدید مفکر یہ دعویٰ مسترد کرتا ہے، کہ جو نشاۃ ثانیہ سے روشن خیالی، اور یہاں سے رومانوی مثالیت پسندی اور وجودیت کی جدید تحریکوں تک یوں ہی چلا آتا ہے، کہ انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں۔
دریدا اس تنقید کی پیمائش میں یہ کہہ کراضافہ کرتا ہے کہ یہ جو ’آدمی‘ کی ’تخلیق‘ بطور’اصل سرچشمہ‘ کی اصطلاح میں فلسفیانہ طرز پر واضح کی جاتی ہے، یہ اٹھارہویں، انیسویں صدی سے بھی بہت پرانی بات ہے۔ درحقیقت اس رجحان کے آثار مغربی مابعد الطبیعات میں ملتے ہیں۔ ہائیڈیگرکے انداز میں، دریدا اس رجحان کو وجودی الٰہیات روایت سے ملاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خیال کہ ’آدمی‘ مغربی مابعدالطبیعاتی ہستی کا جزو لاینفک ہے، ایک آسمانی وجود ہے۔ اس طرح دریدا کے نزدیک ’آدمی‘ کی موت خدا کی موت ہے، کہ جسے مطلق سرچشمہ یا مطلق آخرسمجھا گیا ہے۔
آدمی اور خدا کے اشتراک سے جدلیاتی ’’ہم‘‘ وجود میں آیا، جسے ہیگل اور جدید مثالیت پسندی نے بطور تاریخی اہداف مستحکم کیا۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی مابعدالطبیعاتی تاریخوں کے مابین تنقیدی تجزیہ ہماری اپنی داستان ’’تصور‘‘ پر روشنی ڈالتا ہے۔ تصور تخلیق کی وہ قوت جوہماری انجیلی روایات میں حضرت آدم علیہ السلام سے ملتی ہے، اور وہ یونانی تہذیب کہ جس میں پرومیتھیس صنمیات یا تخلیقی آدمی میں پائی جاتی ہے، حتمی طور پر انسان پرستی کے اُس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ جو وجودی آدمی کی شناخت ہے۔ اور اس سے منطقی دلیل یہ برآمد ہوتی ہے کہ آدمی کی موت پر ہی تخلیقی تصورکی موت واقع ہوگی۔
بظاہر لگتا یوں ہے کہ ’’تصور‘‘ کے طرز فکرکی بقا مابعد جدید عہد کی تنقید میں ممکن نہ ہوگی۔ یہ دھیر ے دھیرے مٹ رہی ہے، کہ جیسے فوکو سمندر کنارے ریت پر بنی کسی شبیہ کی مثال دیتا ہے۔
مگر کیا یہ بات خطرناک نہیں ہے کہ انسان کے تخلیقی تخیل کی موت ایسا بھونچال لے آئے کہ انسانیت تیزی سے فنا کی جانب چلی جائے؟ اور فلسفہ خود بھی ایسی صورت حال سے دوچار ہوجائے کہ اشیا کی ماہیت جاننے کی تحقیق خطرے میں پڑجائے۔ مابعد جدیدیت کا خطرہ دبے پاؤں ہمیں فنا کی بھول بھلیوں میں لے جارہا ہے۔ ایک ویران مقبرہ۔ ایک مفلوج کردینے والا خوف کہ مابعد جدیدیت کے بعد کچھ نہیں۔ معاصر مفکرین اس مشکل سے بے خبر نہیں رہے ہیں۔ ایک ٹیکنالوجی زدہ ثقافت میں کہ جہاں بقول بوڈیلارڈ، انسان ’سارے ترغیبی نیٹ ورکس کی ایک اسکرین تک سکڑ گیا ہے‘، اشتہاری تصویروں کا دکھلاوے والا کھیل بن چکا ہے، ایک مجبور محض تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔ کیا اس طرح مابعد جدیدیت کہ جو’نظام کے تقدس‘ سے نبرد آزما رہی ہے، خود ایسے ہی نظام کا شکار نہیں بن چکی ہے؟ کیا یہ تصدیق نہیں کرے گی کہ جس فن لطیفہ کا مضحکہ اڑاتی ہے خود اس کی تضحیک کا نشانہ بن جاتی ہے؟
ایسی کئی تنقیدیں سامنے آچکی ہیں جو یہ معما حل کرنے کی سعی کررہی ہیں، اور ایک شاعرانہ اخلاقیاتی قوت تخیل کے ساتھ مابعد جدید عہد کی لاینحل صورت حال پر ردعمل دے رہی ہیں۔
ما بعد جدیدیت میں ’تصورات‘ کی توثیق کے لیے روایت اور جدیدیت دونوں کی انتہاؤں سے گریز کرنا ہوگا۔ مابعد جدیدیت کھیل تماشے کی بھول بھلیوں میں گُم ہوکر یقین کی میراث گنوا چکی ہے۔ لہٰذا، ان بھول بھلیوں کے عین قلب میں وہ امکانات تلاش کرنے ہوں گے جو راہِ نجات سُجھا سکیں، اس کے لیے ہمیں لازماً بعد از ’تصورات‘ صورتِ حال کے تعاقب میں نکلنا ہوگا۔