ہندوستان دریائی پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے
3 فروری 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر کالم نگار بشو بلوچ نے زیرنظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آیا، لیکن ہندوستان کے ابتدائی رہنمائوں کا خیال یہ تھا کہ اس نئی مملکت کے شروعاتی مسائل کو طول دینے سے یہ قائم نہیں رہ پائے گی۔ اور پھر تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ایسے مسائل کو طوالت دینے کی سعی بھی کی گئی۔ ابتداً پاکستان کا فوجی سازوسامان اور اس کے حصے کی رقم روکی گئی۔ ایسے مسائل میں سے ایک مسئلہ دریائی پانی کا بند کیا جانا بھی تھا۔ 1948ء میں ایک مختصر جنگ کے دوران ہندوستان سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کے پانی کو روکا گیا۔ جب دونوں ممالک مسئلے کو کسی طور بھی باہم سلجھا نہ سکے تو انہوں نے ورلڈ بینک کی ثالثی کو قبول کرلیا، جس کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب دیے گئے، اور دریائے بیاس اور ستلج ہندوستان کے حوالے کردیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت ہندوستان پاکستان کو دیے گئے تینوں دریائوں کے پانی کو روک کر کوئی بڑا آبی منصوبہ تعمیر نہیں کرسکتا، البتہ وہ پانی کا کچھ محدود حصہ استعمال کرسکتا ہے جس سے نہ تو پانی کی مقدار میں کوئی بڑی کمی رونما ہوپائے گی اور نہ ہی پانی سے کوئی ایسا معاملہ کیا جائے گا جس سے پاکستان میں فصل کی کاشت کے موسم میں پانی کی قلت واقع ہوسکے۔ ان شرائط کے برعکس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پرچھوٹے بڑے آبی منصوبوں کا جال بچھانا شروع کردیا۔ ہندوستان ایسے ڈیموں اور بجلی گھروں کے فنی خدوخال کے بارے میں پاکستان کو بتانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ چند برس سے پاکستان اس تگ و دو میں لگا رہا کہ بھارت کشن گنگا اور راٹل بجلی گھر کے فنی خدوخال کے بارے میں پاکستان کو بتائے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کہیں سندھ طاس معاہدے کی شرائط سے روگردانی تو نہیں ہورہی ہے۔ اس طرح سے عرصۂ پانچ برس گزرنے کے بعد جب دونوں منصوبوں کی مکمل تفصیلات نہیں دی گئیں بلکہ دی گئی محدود تفصیلات سے یہ علم ہوا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو پاکستان نے مجبور ہوکر ورلڈ بینک سے رجوع کیا۔ اس طرح ورلڈ بینک کی ثالثی کے تحت اس وقت نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں ایک ثالثی عدالت اس معاملے کی سماعت کررہی ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ثالثی عدالت شاید پاکستان کے مؤقف کی تائید اور حمایت کرے گی ہندوستان نے چند دن پیشتر نئی دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کو بذریعہ ایک خط یہ آگہی دی کہ دونوں ممالک سرکاری سطح پر بات چیت کے ذریعے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کریں۔ اس خط میں پاکستان سے 90 دن کے اندر جواب طلب کیا گیا ہے۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ہندوستان آخر اس مرحلے پر اس قسم کا خیال یا تجویز کیوں آگے لے کر آیا ہے؟ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اُس کی اِس نوع کی پیشکش کا ایک مقصد جاری ثالثی عدالت کے دھیان اور توجہ کو سماعت سے ہٹانا ہوسکتا ہے، یا پھر عدالت کے سامنے یہ کہا جائے گا کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنے کے لیے پیشکش کی گئی ہے، اس لیے جب تک اس پیشکش کا نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اُس وقت تک عدالتی کارروائی کو معطل رکھا جائے۔ دیکھا جائے تو پاکستان نے پہلے بھی اس طرح کی متعدد کوششیں کی تھیں لیکن جب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تو پھر وہ یہ معاملہ ثالثی عدالت میں لے کر گیا۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ شاید ہندوستان معاہدے کی بنیادی شقوں میں کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ نریندر مودی سندھ طاس معاہدے سے یک طرفہ طور پر دست بردار ہونے کے لیے بہانہ تلاش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدے کے اندر ایسی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے کہ ایک ملک یک طرفہ طور پر معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرسکے۔ ماہرِ قانون احمد بلال صوفی کے مطابق معاہدے کے آرٹیکل 12 کے تحت دونوں فریق باہمی طور پر معاہدے کے اندر اتفاقِ رائے سے کوئی تبدیلی کرسکتے ہیں لیکن کسی بھی فریق کے معاہدے سے یک طرفہ طور پر جدا ہونے کے لیے معاہدے کے اندر کوئی بھی قانونی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہندوستان کی جانب سے امکانی یک طرفہ طور پر فیصلہ کرنے کی صورت میں پاکستان کے پاس کوئی بھی پُرامن طریقہ نہیں رہے گا جس کے توسط سے ہندوستان کو آمادہ کیا جاسکے، البتہ ایسے فیصلے کے نتیجے میں ہندوستان کو بین الاقوامی طور پر ضرور ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض ماہرین کی رائے میں نریندر مودی اپنی گھریلو پاپولرسیاست کو چمکانے کی خاطر اس قسم کا ڈراما رچا سکتے ہیں، لیکن سندھ طاس معاہدے کے اندر یک طرفہ طور پر فیصلہ کرکے نکلنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک مشترکہ کنونشن کے مطابق دریائوں اور بہائو کے اوپری دریا (Upper Riparian) میں آباد ممالک زیریں دریا (Lower Riparain) کے علاقے میں آباد ممالک کی مرضی کے خلاف ان کے پانی پر کوئی بھی بڑا منصوبہ تشکیل نہیں دے سکتے جس سے ان کی طرف پانی کا بہائو کسی بھی طرح سے متاثر ہوسکے۔ یہ کنونشن اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک پر عائد ہوتا ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی ایسا فیصلہ جس سے پاکستان کی طرف آنے والے دریائی بہائو اور پانی کی آمد متاثر ہو اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
ہندوستان شاید دریائی پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان میں پانی کی قلت پیدا کرکے زراعت کی سرگرمیوں کو متاثر کرسکے اور پاکستانی معیشت کو خراب کرے۔ نیز وہ پاکستان کے اندر پانی کی قلت کے توسط سے پاکستان میں صوبوں کے مابین انتشار و افتراق اور کشیدگی کو بھی جنم دینا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ قبل ازیں ہندوستان نے افغانستان میں صدر اشرف غنی کے دورِ حکومت میں دریائے کابل پر ایک ڈیم بناکر اپنے عزائم کی تکمیل کی سعی کی تھی۔ دریائے کابل پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا کے شہر نوشہرہ کے قریب دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ ڈیم بننے کی صورت میں دریائے کابل کے پانی اور بہائو کی مقدار جو دریائے سندھ میں گرتی اور اختتام پذیر ہوتی ہے، وہ بھی گھٹ جائے گی اور اس میں بھی کمی رونما ہوجائے گی۔ عام طور پر کسی بھی ملک کو اس کے منصوبوں میں آبی امداد کرنے سے قبل یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس سے کہیں تیسرے ملک کے آبی مفادات کو تو زک نہیں پہنچے گی؟ لیکن ہندوستان نے اس امر کی کوئی پروا کیے بغیر ہی دریائے کابل پر ڈیم بنانے کا کام شروع کر دیا تھا۔
اگر ہندوستان قانونی حدود کو پھلانگ کر اور ان کی خلاف ورزی کرکے یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے سے خود کو الگ کرتا ہے تو یہ اس کا انتہائی خطرناک عمل گردانا جائے گا، ایسے یک طرفہ فیصلے کو قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا جو اس خطے میں ایک بے حد خطرناک مثال کو جنم دے گی۔ اس طرح کی قائم کردہ مثال پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگر چین نے ہندوستان کی طرف بہنے والے دریائے برہم پترا کے بہائو میں رخنہ ڈالا یا اس خطے کا دوسرا کوئی ملک اس نوع کی کوئی ملتی جلتی حرکت کرتا ہے تو پھر خطے کے اندر حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔
دریائوں کے پانی سے اقوام کے نہ صرف معاشی حالات جڑے ہوتے ہیں بلکہ تہذیب اور تمدن کا عروج و زوال بھی دریائوں ہی سے وابستہ ہے۔ اس لیے اس خطے کے اندر سیاست کو دریائوں کے پانی اور اس کی روانی اور بہائو سے الگ ہونا چاہیے۔‘‘