انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیزپشاور کے زیر اہتمام مباحثے کاانعقاد
انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام ’’اسلام میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا تصور‘‘ کے موضوع پر تعلیمی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ پروگرام کے مہمانِ خصوصی پشاور میں متعین امارتِ اسلامیہ افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ تھے، جب کہ اس سیمینار کی صدارت پشاور کی معروف دینی درس گاہ جامعہ عثمانیہ پشاورکے بانی اور مہتمم اعلیٰ مفتی غلام الرحمٰن کررہے تھے۔ سیمینار کے دیگر مہمان مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم (سابق صدر تنظیم اساتذہ پاکستان)،پروفیسر ڈاکٹر ناہید علی صاحبہ (جامعہ پشاور)، اور چیئرمین آئی آر ایس ڈاکٹر محمداقبال خلیل شامل تھے۔
سیمینارکاآغاز قاری محمد کمال کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹر اقبال خلیل چیئرمین آئی آر ایس پشاور نے اپنی افتتاحی گفتگو میں مہمان مقررین اور شرکاء کو خوش آمدید کہنے کے علاوہ سیمینار کے موضوع کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا تصور آج کا ایک اہم موضوع ہے۔ یہ موضوع بین الاقوامی میڈیا میں برننگ ایشو ہے اور مغربی میڈیا اسے امارتِ اسلامی افغانستان کی جانب سے ملک میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پر حال ہی میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے تناظر میں بہت نمایاں اہمیت دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا اس خالص تکنیکی مسئلے کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے جس پر آئی آر ایس جیسے اداروں کا علمی اور تحقیقی انداز میں اسلام کا حقیقی تصور دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے، اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے آج کا یہ سیمینار منعقد کیا گیا ہے جس میں طالبان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ جید علمائے کرام اور جدید تعلیمی اداروں کے مسلم مرد وخواتین اسکالرز کو تبادلۂ خیال کی دعوت دی گئی ہے۔
ڈاکٹر اقبال خلیل نے کہاکہ طالبان کا افغانستان میں برسراقتدار آنا اس صدی کا ایک بڑا معجزہ ہے۔ 22 سال کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں طالبان حکومت میں آئے تو عام مسلمانوں کو اس سے نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ اس فتح کو اسلام کی سربلندی اور امن کے لیے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گوکہ طالبان اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اور دنیا کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کی مدد کے بجائے انہیں ڈکٹیٹ کرے کہ انہیں نظام مملکت کیسے چلانا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم آج کے سیمینار کے ذریعے یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں کہ امارتِ اسلامی افغانستان کا خواتین کی تعلیم پر پابندی کا حالیہ فیصلہ شریعت کے احکامات کے تحت کیاگیا ہے، بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ فیصلہ عارضی اور انتظامی نوعیت کا ہے، اور توقع ہے کہ حالات سازگار ہوتے ہی وہ اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیں گے۔ انہوں نے کہاکہ معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی مشہور کتاب ’بہشتی زیور‘ میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت پربہت زور دیا ہے، اور اس میں خواتین سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ گزشتہ دنوں جرمنی اور برطانیہ کے سفیروں نے آئی آر ایس کا دورہ کیا اور اُن کا دیگر موضوعات کے علاوہ زیادہ تر فوکس افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی پر رہا۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، ہمیں ان پر کوئی بات انفورس نہیں کرنی چاہیے، لیکن چونکہ وہ ہمارے بھائی ہیں، اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے ہم نے اپنا اخلاقی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس اہم موضوع پر آج کا یہ سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے دلیل دی کہ خواتین کی تعلیم مردوں کی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ خواتین کو اپنے بچوں، خاندان اور عام طور پر معاشرے کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر پیشہ ور بننے اور خواتین کی تعلیم کے فروغ اور خواتین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ناہید علی، شعبہ زولوجی جامعہ پشاور نے کہاکہ اسلامی نظریۂ حیات میں مرد عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ روزِ قیامت تمام انسانوں سے بلاتفریقِ جنس ان کے اعمال کی بازپرس ہوگی۔ نیکی اور بدی کے معیار اور تصور کے لیے مرد و زن میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ سورہ التوبہ میں منافق مرد و خواتین کو یکساں طور پر اُن کے اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے مورد الزام ٹھیرایا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں نیکی کا حکم دیتے ہیں، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ ان پردنیا اور آخرت میں رحم فرمائے گا‘‘۔ تہذیبوںاور تمدن کی ترقی میں مرد و خواتین کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ’’جس نے اپنی دو بچیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی وہ روزِ قیامت میرے ساتھ کھڑا ہوگا‘‘۔ بچیوں اور خواتین کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ پروفیسرڈاکٹر ناہید علی نے خواتین کی حیثیت، ان کے حقوق، خواتین کی تعلیم کی اہمیت اور سماجی ترقی میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ انسان بندروں کی نسل سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ انبیائے کرام کی اولاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ علم کی وجہ سے بہترین مخلوق ہیں اور علم کے بغیر انسانوں کی صلاحیتوں کی تکمیل ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ پرائمری سے اعلیٰ سطح تک تعلیم تک رسائی ہر فرد کا بنیادی حق ہے، خواتین کو پہلے اسلامی تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ ان کے استحصال کو روکا جاسکے۔اسلامی تعلیمات سے بالعموم دینی تعلیم اخذکی جاتی ہے حالانکہ اسلام کا تصورِ تعلیم علوم کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زمین کو اپنی مسجد سے تعبیر کیا ہو اُس امت نے تعلیم کو مخصوص چوکھٹوں تک محدود کردیا ہے۔دنیا کا نظام چلانے کے لیے مرد و عورت دونوں کا کردار اہم ہے، دونوں کو معاشرے کی ترقی کا یکساں ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ایک صحت مند قوم کی تعمیرکے لیے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں بچیوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔عورت کا اصل محاذ اس کا گھر اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہے۔اسی طرح خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق گھر سے باہر بھی اپنی صلاحیت منوانے کا حق حاصل ہے۔اگر وہ چاہیں توزراعت، طب،تعلیم اور کسی بھی پیشے میں خواتین کی حدود کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ بعض اوقات حالات خواتین کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں، اس کے لیے خواتین کو اُن کی استعداد کے مطابق تعلیم و تربیت کا اہتمام معاشرے کا فرض ہے۔حالیہ پولیس لائن دھماکے میں یتیم ہونے والے سینکڑوںبچوں کی کفالت کی ذمہ داری بیوائوں کے کندھوں پر آگئی ہے، اگر وہ تعلیم یا فتہ ہوں گی تو اپنے بچوں کی کفالت کا حق ادا کر سکیں گی، بصورتِ دیگر ان کے بچوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ بعض جاہلانہ رسومات اور عقائدکی وجہ سے بھی مغرب اسلام پر حملہ آور ہے اور وہ ان رسومات اور عقائد کو اسلام کا جامہ پہناکر اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مولانا مودودیؒ کا ’’تحریک اور کارکن‘‘ میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح نقطہ نظر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔
پروفیسرڈاکٹر میاں محمد اکرم سابق صدر تنظیم اساتذہ پاکستان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک میں 80 بار علم کا تذکرہ آیا ہے، جبکہ اس سے متعلقہ موضوعات پر سینکڑوں دفعہ ذکر موجود ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا حکم تھاکہ جو کاروبار کرنا چاہتا ہے اسے اس کا علم حاصل کرکے مارکیٹ میں آنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف مردوں بلکہ صحابیات کو بھی دینی تعلیم دیتے تھے۔ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے شکوہ کیا کہ مرد علم و تربیت میں ہم پر فوقیت لے گئے ہیں، ہمیں بھی موقع فراہم کیا جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لیے الگ دن مقرر کرکے ان کی الگ طور پر تعلیم کا بندوبست کیا۔ جمہور امت کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم بھی ضروری اور اہمیت کی حامل ہے۔ ایک پڑھی لکھی خاتون ایک اچھے خاندان کی پرورش کرے گی۔ خواتین کا گھروں کی دیکھ بھال اور نسلوں کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ہے۔ فقہ کی کتابوں میں مرد و خواتین کی تعلیم میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا، دونوں جنسوں میں تعلیم کی اہمیت کا یکساںحکم موجود ہے۔ علم حاصل کرنا مرد و خواتین دونوں پر فرض قرار دیا گیا ہے، اس حکم میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ایک متوازن معاشرے کی تشکیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کے ایک معروف فتوے میں واضح الفاظ میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اسلام کی نظر میں حلال و حرام کو جاننے اور ایک متوازی زندگی کے لیے خواتین اور مردوں کی تعلیم یکساں طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں کا حکم اسلام میں موجود ہے۔ اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ خواتین کو جداگانہ بہترین تعلیمی ماحول کی فراہمی ضروری ہے۔ بچیوں کے لیے الگ ماحول میں تعلیم مقاصدِ شریعت میں شامل ہے۔ بالغ بچوں اور بچیوں کی مخلوط تعلیم اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ پردے کے پیچھے یا الگ کلاس رومز کا بندوبست ہونا چاہیے۔ موبائل کی وجہ سے مخلوط تعلیم اور بھی خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ مردو خواتین کا اخلاط جہاں بھی ہوگا اُس کا معاشرے پر منفی اثر ظاہر ہوکر رہے گا۔ معاشرتی زوال کا آغاز مخلوط ماحول سے ہوتا ہے۔ مردوخواتین کے لیے الگ الگ اداروں کے ساتھ ساتھ ان کے نصاب کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔
امارتِ اسلامیہ افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنگ زدہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اسے ملتوی کردیا گیا ہے، اور التوا کا مقصد تعلیمی نظام اور نصاب میں اصلاحات لانا ہے۔ حافظ محب اللہ نے کہا کہ تعلیم علم حاصل کرنے کا عمل ہے اور اس کی اہمیت سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا، تاہم افغانستان کی صورتِ حال کا دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام نے پہلے سابق سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (یو ایس ایس آر) کے ساتھ اور پھر امریکہ کے ہاتھوں کئی دہائیوں تک طویل جنگ کا سامنا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف کسی چیز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات سب پر یکساں طور پر قابلِ عمل ہیں۔ افغان سفارت کار کا کہنا تھا کہ امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی انتظامیہ کے دور میں تعلیمی نصاب بھی آلودہ ہوا اور نصاب سے اسلامی تعلیمات سے متعلق اسباق کو نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصاب میں بھی اصلاحات کی جا رہی ہیں، اور جب یہ عمل مکمل ہوگیا اور حالات سازگار ہوگئے تو ہر سطح پر خواتین کی تعلیم کو دوبارہ شروع کردیا جائے گا، تاہم مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امارتِ اسلامیہ کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی وزارتیں ہیں اور وہ اپنے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے پُرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا موازنہ اشرف غنی انتظامیہ سے نہیں کیا جا سکتا جو صرف ایک تہائی افغانستان پر حکومت کررہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف طالبان افغانستان کے ہر گاؤں، قصبے، شہر، ضلع اور صوبے پر حکومت کررہے ہیں، لہٰذا دنیاکے ہراصول کے مطابق ان کی حکومت کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ حافظ محب اللہ نے کہا کہ علم زندگی ہے اور یہ جہالت کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1919ء میں سوویت انقلاب کے بعد سوویت یونین کے ہاتھوں افغانوں کو نظریاتی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ سوویت اداروں نے افغانستان میں غازی امان اللہ خان کے دور میں قائم ہونا شروع کیا۔ افغانوں کے ذہنوں اور نظریات میں کئی دہائیوں تک تبدیلی کے بعد سوویت افواج نے 1979ء میں افغانستان پر عملاًچڑھائی کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں نے سوویت افواج کو اللہ کے فضل، ہجرت اور دس سال کی مزاحمت کے بعد پڑوسیوں کی حمایت سے شکست دی۔ اس کے بعد امریکی حملہ آور آئے جنہوں نے 2001ء میں افغان طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر قبضہ کرلیا۔ امریکی حملے کی بھی مؤثر مزاحمت کی گئی اور انہیں 20 سال کی کامیاب مزاحمت کے بعد ملک سے باہر پھینک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے 20 سال کے قبضے کے دوران امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کی ترقی کے لیے طب، تجارت یا کسی بھی دوسرے شعبے میں کوئی بنیادی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے شعبے ہیں جن میں خواتین کی شراکت ضروری ہے۔ موجودہ معاشی صورتِ حال کے پیش نظر خواتین کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام سے پہلے کے ادوار کو دورِ جہالت اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ معاشرہ علم کے نور سے دور تھا۔ علم کی مثال زندگی کی طرح ہے۔ علم حیاتِ جاوداں ہے، علم روشنی ہے، علم راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ افغانستان میں اسلامی معاشرے کے خلاف منظم یلغار کا آغاز 1919ء میں امیر امان اللہ خان کے دور سے روسی نظریات کے پھیلائوسے ہوا۔ افغانستان میں باقاعدہ تحریک کے انداز میں کمیونزم کا زہر گھولا گیا۔ افغانستان سے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو روس بھیجا گیا، وہاں سے یہ لوگ روسی رنگ میں رنگ کر واپس آئے۔ افغانستان کو دیگر ممالک پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، دنیا کو ان کے زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ امریکہ نے ہمارے نوجوانوں کو مغرب تعلیم کے نام پر بھیجا لیکن اُس کا اصل مطمح نظر ہماری نوجوان نسل کو دین سے دور اور دین بیزار کرنا تھا۔ افغانستان میں کسی نعمت کی کمی نہیں ہے۔ معدنیات، باغات، پانی جیسی نعمتوں کی ترقی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔امریکہ نے اپنے دور میں یہاںشراب نوشی، بدکاری کے اڈے سینما خانے قائم کیے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ تعلیم کی اہمیت کا نہ تو انکار ہے اور نہ ہی ہم اس کی مخالفت کاسوچ سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر تعلیم کی اہمیت بیان کی گئی ہے جس کا انکار کفر ہے۔ ہم وہاں پر پڑے ہوئے گند کو صاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔کسی بھی حکومتی اہلکار نے تعلیم کی مکمل بندش کا اعلان نہیں کیا بلکہ یہ ایک وقتی اور عارضی فیصلہ ہے۔ حالات کی بہتری کے ساتھ ہی خواتین کے تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے۔ پاکستان میں افغانوں کو جو آزادی حاصل ہے اس کی مثال دنیا کا کوئی اور ملک پیش نہیں کرسکتا۔ سابق نصاب میں زہر گھولاگیا ہے۔ ہم مخلوط تعلیم کا راستہ روکیں گے جس کے لیے وقت چاہیے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے، ہمیں عوام نے تسلیم کیا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت افغانستان کے محض چند شہروں تک محدود تھی لیکن اس کو پوری دنیا نے تسلیم کر رکھا تھا، جبکہ ہم سارے افغانستان پر قابض ہیں، ایک گائوں بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہماری عمل داری نہ ہو، تو پھر ہمیں کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے؟ مغرب ہمیں اپنے آگے جھکانا چاہتا ہے جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔
سیمینار کا اختتام ممتاز عالم دین مفتی غلام الرحمٰن کی دعا سے ہوا۔