’’دماغ کام نہیں کر رہا‘‘

سمت سے محروم معاشرے کی کہانی، جس میں لوگ محض پریشان ہونے کو مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں

آج کل ہر طرف ایک بات تواتر سے سُنائی دے رہی ہے… یہ کہ ’’کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، دماغ کام نہیں کررہا‘‘۔ کیا واقعی؟ جی ہاں، سُنائی دینے کی حد تک تو حقیقت یہی ہے۔ لوگ پریشان ہیں کیونکہ ذہن ڈھنگ سے کام نہیں کررہا۔ جو کچھ دکھائی اور سُنائی دے رہا ہے وہ حواس پر شدید نوعیت کے حملے کررہا ہے۔ یہ حملے سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پر بُری طرح اثرانداز ہورہے ہیں۔ نتیجہ؟ ایسے میں نتیجہ اس کے سوا بھلا کیا برآمد ہوسکتا ہے کہ ذہن ڈھنگ سے کام ہی نہیں کررہا۔

سندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا ہے کہ مہنگائی کے باعث ذہنی مریضوں کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مینٹل ہیلتھ پروجیکٹ شروع کیا جارہا ہے۔ ذہنی مریضوں کے لیے علاج کی بہتر سہولتیں ممکن بنانے پر کام ہورہا ہے، نرسوں کی خصوصی تربیت کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے، نفسی امور کے ماہرین سے بھی مدد لی جائے گی۔

ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض کیوں پروان چڑھتے ہیں؟ یا یوں کہیے کہ ذہنوں میں پیچیدگی پیدا ہی کیوں ہوتی ہے؟ فی زمانہ مکمل ذہنی توازن اور کامل صحتِ ذہن کے ساتھ جینا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو ہم سے قدم قدم پر بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یوں تو خیر ہر دور ہی ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔ نئے مسائل ذہنوں پر اثرانداز ہوتے ہی ہیں۔ مگر ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ کچھ زیادہ انوکھا ہے۔ ڈھائی تین ہزار برس میں جتنی بھی پیش رفت ہوئی ہے اور جتنی بھی پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہی ہیں وہ سب جمع ہوکر ہمارے سامنے ہیں۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر ذہن کو الجھانے والے معاملات کا سامنا ہے۔ آج ہم کسی بھی ذہنی پیچیدگی کے لیے کسی ایک عامل کو موردِ الزام نہیں ٹھیرا سکتے۔

یہ نکتہ کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ کبھی کبھی ہم نتیجے کو سبب قرار دے بیٹھتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے اور ہمارے سامنے ہورہا ہے وہ لازمی طور پر نتیجہ بھی نہیں اور سبب بھی نہیں۔ سوچے سمجھے بغیر کسی بھی معاملے کو نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے نہ سبب۔

اب مہنگائی ہی کو لیجیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عام پاکستانی کی قوتِ خرید گھٹتی جارہی ہے۔ جو کچھ وہ عمومی سطح پر کما رہا ہے وہ ڈھنگ سے جینے کے لیے ناکافی ہے۔ تنخواہ یا اجرت کا عمومی معیار عام پاکستانی کو بہت سے معاملات میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار کرتا ہے۔ منافع خوری کسی زمانے میں قبیح افعال میں شمار ہوتی تھی اور لوگ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرماتے اور ہچکچاتے تھے۔ اب منافع خوری ہمارے چلن کا حصہ ہے۔ اس پر کوئی بھی شرمندہ نہیں۔ مہنگائی کے باعث بہت سوں کو مجبور ہوکر اپنی تنخواہ یا اجرت میں اضافہ یقینی بنانا ہوتا ہے۔ بعض چھوٹے دکان دار بھی مجبور ہوتے ہیں کہ تھوڑا زیادہ منافع لیں تاکہ میدان میں رہ سکیں، بقاء کا سامان کرسکیں۔ لیکن جن کی مالی حیثیت غیر معمولی طور پر مستحکم ہے اور روزافزوں مہنگائی سے جنہیں کچھ خاص فرق نہیں پڑتا وہ کیوں کسی کو لُوٹتے ہیں؟ کاروباری سوچ کا پایا جانا بُری بات نہیں، مگر اِس معاملے میں تھوڑی بہت شرم اور غیرت ہونی چاہیے۔ مہنگائی سے بہت سے طبقے متاثر ہوتے ہیں، مگر یہ تو حقیقت ہے نا، کہ تمام طبقے متاثر نہیں ہوتے۔ یومیہ ہزار بارہ سو روپے کمانے والا اگر بدحواس ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ جو سوا لاکھ، ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کما رہا ہے وہ بھی اگر مزدور کی سطح پر جاکر پریشانی کا اظہار کرے تو یہ نظارہ دیکھ کر شرم سی محسوس ہوتی ہے۔

سندھ کی وزیر صحت فرماتی ہیں کہ مہنگائی نے ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی امراض میں مہنگائی سے اضافہ نہیں ہورہا بلکہ ذہنی پیچیدگیوں نے مہنگائی اور دیگر قباحتوں کو جنم دیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ کسی بھی دور میں منظم اور منضبط نہیں رہا۔ لوگوں نے کبھی نظم و ضبط کے ساتھ جینے کو ترجیح نہیں دی۔ سوال صرف عوام کا نہیں، خواص کا بھی ہے۔ ہر سطح اور ہر طبقے کے لوگ جیسے تیسے جینے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ اُنہیں بہ ظاہر اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے منظم سوچ اپنائی جائے، منصوبہ سازی کا رجحان پروان چڑھایا جائے۔ بعض اداروں کو دیکھ کر عام آدمی اُن کے عمومی کلچر اور چلن سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ پولیس اور اِسی قبیل کے دیگر اداروں میں نظم و ضبط کا معیار عمومی سطح سے خاصا بلند ہے۔ اِس سے اوپر دیکھیں تو رینجرز وغیرہ ہیں اور اُن کے بعد فوج ہے۔ ہم فوج میں نظم و ضبط کا اعلیٰ معیار ٹی وی کے بہت سے ڈراموں اور سیریلز کے ذریعے دیکھ چکے ہیں۔ کوئی حاضر سروس فوجی نظم و ضبط کا کس حد تک عادی ہوگا اِس کا اندازہ ریٹائرڈ فوجیوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو اپنے معمولات میں فوجی انداز ترک نہیں کرتے۔ نظم و ضبط کا یہ بلند معیار عام شہری کسی طور نہیں اپنا سکتا، مگر اس معیار کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھ تو سکتا ہے، اپنی تھوڑی بہت اصلاح پر مائل تو ہوسکتا ہے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں ہورہا۔

کم و بیش تین عشروں کے دوران پاکستانی معاشرہ بہت تیزی سے گراوٹ کی طرف گیا ہے۔ میڈیا بوم نے معاملات کو الجھانے اور عام پاکستانی کو تباہی کی طرف دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کم و بیش دو عشروں کے دوران جو میڈیا بُوم پایا گیا اُسے دیکھ کر، اُس کا تجزیہ کرکے کوئی بھی یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو کچھ بھی عام پاکستانی کے سامنے رکھا گیا وہ صرف اور صرف خرابی کے لیے تھا۔ بیرونی قوتوں نے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے پاکستان میں میڈیا بُوم پیدا کیا اور عام پاکستانی کو نشانے پر رکھا۔ نیوز چینلز ہوں یا انٹرٹینمنٹ چینلز… بیشتر کا ایجنڈا یہ تھا کہ عام پاکستانی کو سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہ چھوڑا جائے۔ سب کچھ طے شدہ تھا۔ جن معاملات سے زندگی کا توازن بگڑتا ہے اُنہیں بڑھاوا دیا گیا۔ ہر اُس چیز کو عام کیا گیا جو ہمیں مقصد کے ساتھ جینے کی ڈگر سے دور لے جاتی ہے۔ لوگوں کو غیر حقیقی معیارِ زندگی کے ساتھ جینے کی طرف دھکیلا گیا۔ چینلز کے ذریعے عام پاکستانی کو کنزیومر اِزم کی طرف دھکیلا گیا۔ یہ دھکم پیل اس لیے تھی کہ لوگ اپنی آمدنی اور لیاقت کی حدود میں رہتے ہوئے جینے کی روش ترک کریں، خیالوں میں پائی جانے والی دنیا ہی کو حقیقی دنیا تصور کریں اور اُسی کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے جئیں۔ یعنی حقیقی یا زمینی حقیقت والی دنیا کو نظرانداز کرنے کا چلن پروان چڑھایا گیا۔ تین عشروں کے دوران ادھار کا چلن تیزی سے عام کیا گیا ہے۔ عام آدمی کو ترغیب دی گئی ہے، اُکسایا گیا ہے کہ وہ کسی جواز کے بغیر زیادہ سے زیادہ خرچ کرے، جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ سب پانے کی آرزو کرے اور معاملات کو محض آرزو کی منزل میں نہ رہنے دے بلکہ اُنہیں حقیقت کا روپ دینے کی کوشش بھی کرے۔

ذہنوں کو الجھانے والی سب سے بڑی چیز ہے غیر حقیقت پسندانہ طرزِ زندگی۔ عام پاکستانی کو ہر طرح اور ہر سطح کے میڈیا کے ذریعے دو ڈھائی عشروں تک یہی بات سکھائی گئی ہے کہ اپنی لیاقت اور آمدنی کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ خرچ کی طرف جانا چاہیے تاکہ بھرپور زندگی بسر کی جاسکے۔ لوگوں کو اشیاء و خدمات استعمال کرنے کے نام پر اُن کا غلام بنایا گیا ہے۔ کم و بیش دو نسلوں کو یہ سبق تواتر سے دیا گیا ہے کہ اپنے وسائل کی حدود سے باہر نکل کر جینے میں بھی کچھ خاص حرج نہیں!

کم و بیش تین عشروں کے دوران عام پاکستانی نے جو طرزِ فکر اپنائی ہے اور جس طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیر حقیقی زندگی کی طرف دھکیلا ہے اُس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ تین عشروں کے دوران جو کچھ جمع ہوا وہ پوٹلا اب کھل رہا ہے۔ جتنا بھی بگاڑ پنپتا رہا ہے وہ اچانک سامنے آگیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ چند ایک شعبے کرپٹ تھے۔ اعلیٰ سطح کے افسران میں کرپشن پائی جاتی تھی۔ لوگ غلط کام بھی کرتے تھے تو دیکھ بھال کر، اور بدنامی سے ڈرتے تھے۔ اب ایسا کچھ نہیں رہا۔ کرپشن ہر طرف ہے، ہر طبقے میں اور ہر سطح پر ہے۔ سرکاری مشینری پوری کی پوری کرپٹ ہوچکی ہے۔ اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر تشویش ناک بات یہ ہے کہ نجی شعبے میں بھی کرپشن غیر معمولی حد تک ہے۔ بات یوں ہے کہ کام کو ٹالنے، اپنی اجرت کے مطابق کام کرنے سے گریز اور تمام اخلاقی حدود کو عبور کرتے ہوئے آمدنی کو حرام کے درجے میں رکھنے کی روش عام ہوچکی ہے۔ مہنگائی نے ہمیں بدحواس نہیں کیا، ہماری بدحواسی نے مہنگائی کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ہم نے غیر حقیقی طرز زندگی اپناکر اپنے معاملات کو اِتنا بگاڑا ہے کہ اب کچھ بھی درست کرنے کی راہ سُجھائی نہیں دے رہی۔

آج کا پاکستانی معاشرہ بیشتر معاملات میں شدید خرابی کی طرف جاچکا ہے۔ جو کچھ ڈھائی تین عشروں کے دوران یہاں ہوتا رہا ہے اُس کا فطری نتیجہ یہی ہونا تھا۔ یہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ اگر کوئی حیران ہو رہا ہے تو اِسے محض سادہ لوحی کہا جائے گا۔ ہاں، یہ سب کچھ تشویش ناک ضرور ہے۔

جب بھی کوئی معاشرہ اپنی خرابیوں کو دور کرنے کے معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے تب وہ سمت سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ سمت سے محرومی معاشرے کو اُس کشتی جیسا بنادیتی ہے جو ہواؤں کے رحم و کرم پر ہو، یعنی جدھر ہوائیں لے جائیں، چلی جاتی ہے۔ اگر ہوائیں زیادہ زور لگائیں تو ڈوب بھی جاتی ہے۔ آج ہم ایسے ہی ماحول میں جی رہے ہیں۔ کوئی ایک معاملہ بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی تو محض ایک ظاہری علامت ہے۔ ہم نے اپنے اندر جتنی خرابیوں کو پروان چڑھایا ہے اُن کی ایک علامت اور نتیجے کے طور پر مہنگائی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ مہنگائی پوری دنیا کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک ملک بھی اِس کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے معاشرے مہنگائی کو بھی جھیل رہے ہیں اور اپنا حقیقی استحکام بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگر معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو تو مہنگائی کا عذاب بھی سُکون سے جھیلا جاسکتا ہے اور تھوڑی سی توجہ اور تربیت کی مدد سے مہنگائی سے گلوخلاصی بھی ممکن ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مہنگائی سے نپٹنے کا معقول ترین طریقہ یہ نہیں ہے کہ اِس کا گراف بلند سے بلند تر کیا جاتا رہے۔ مہنگائی کبھی مہنگائی کو ختم نہیں کرسکتی۔ اور مہنگائی سے نپٹنے کے لیے ’’سستائی‘‘ بھی کوئی معقول طریقہ نہیں۔ لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ عارضی نوعیت کا حل بعد میں زیادہ سنگین مسائل پیدا کرتا ہے۔

آج پاکستانی معاشرے میں جو کچھ بھی پایا جارہا ہے وہ مزید خرابیوں کو جنم دے رہا ہے۔ ایسے میں علم و عمل کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی کا مقابلہ تربیت سے کیا جاسکتا ہے۔ نئی نسل کو بہت کچھ سکھانے کی ضرورت ہے۔ بڑوں کو بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ معاشرہ سمت سے محروم ہے۔ یہ کیفیت ہر معاملے کو بگاڑ رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی سمت درست نہ کی تو مہنگائی بڑھتی رہے گی۔ اگر کہیں سے بہت زیادہ دولت بھی ہاتھ آجائے اور عام پاکستانی کی جیب بھر بھی جائے تو مہنگائی کا عِفریت قابو میں نہیں آسکے گا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ تربیت یافتہ نہ ہوں، نظم و ضبط کے پابند نہ ہوں تو بگاڑ نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

مہنگائی سمیت کسی بھی پریشانی کا بنیادی کام ہے ذہن کو ماؤف کردینا۔ آج عام پاکستانی یہ شکایت کرتا پھر رہا ہے کہ دماغ کام نہیں کررہا۔ بالکل ٹھیک۔ جب خرابیاں بڑھیں گی تو دماغ کہاں سے کام کرے گا! مگر کیا محض شکایت کرنے سے دماغ کام کرنے لگے گا؟ یقیناً نہیں۔ اس کے لیے تو تیار ہونا پڑے گا۔ ذہن اُسی وقت کام کرسکتا ہے جب اُسے محض پریشان ہونے کی کیفیت سے نکال کر سوچنے اور سمجھنے پر مائل کیا جائے اور گِلے شِکوے کرنے کے بجائے حل تلاش کرنے کی ذہنیت پروان چڑھائی جائے۔ یہ کام آسان نہیں۔ اس کے لیے بزرگوں سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا، بہت کچھ پڑھنا پڑے گا، بڑے ذہنوں کی دانش سے مستفید ہونا پڑے گا۔ معاشرے میں جو شعبے اب تک برقرار ہیں یعنی ڈھنگ سے کام کررہے ہیں اُن سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ عام آدمی فوجیوں جیسا نظم و ضبط تو اپنی زندگی میں نہیں لاسکتا مگر اُس کلچر سے بہت کچھ سیکھ کر اپنی زندگی کا معیار تو بلند کر ہی سکتا ہے۔

عام پاکستانی کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ذہن اس لیے کام نہیں کررہا کہ اُسے الجھنے دیا جارہا ہے۔ ذہن کو بے لگام چھوڑا جائے تو معاشرہ اُسے دبوچ ہی لیتا ہے۔ اس حالت سے بچنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ذہن کو سلجھا ہوا رکھنے کے طریقوں پر توجہ دی جائے۔ جو لوگ معیاری انداز سے جی رہے ہیں اُن سے کچھ سیکھا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر معاملے میں معقولیت کا دامن تھامنے پر توجہ دی جائے۔ محض پریشان و بدحواس ہونے، مغلظات بکنے اور لوگوں کے آگے رونا روتے رہنے سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو اگر درست سمت چاہیے تو معاملہ انفرادی سطح پر شروع ہونا چاہیے۔ ہر پاکستانی کو اپنی ذاتی روش کا جائزہ لے کر خرابیوں کو دور کرنا چاہیے۔ دوسروں کی طرف دیکھنے اور اُن سے اصلاحِ احوال کی توقع وابستہ کرنے کے بجائے اپنی اصلاحِ احوال پر متوجہ رہنا چاہیے۔