دہشت گردی کی نئی لہر

کابل حکومت سے الجھائو ہرگز سودمند نہیں ہے

پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے مسئلے پر بعض سیاست دانوں، لکھاریوں اور دانش وروں کی تحریروں، گفتگوئوں اور تقاریر سے معاملے کے حل کی راہیں سُجھانے، تجاویز اور رائے دینے کے بجائے مسئلے کو مزید گمبھیر بنانے کا تاثر ملتا ہے۔ یاد رہے کہ دہشت گردی کے عفریت سے نجات کا مؤثر اور آخری راستہ بات چیت ہے۔ کوئی اگر اس رائے کا اظہار کرے کہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں اور اساتذہ کے قاتلوں اور ایسے دوسرے دلخراش دہشت گردانہ حملوں اور کارروائیوں میں ملوث گروہوں سے مذاکرات اور بات چیت نہ کی جائے تو کیا یہ حضرات چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی اے پی ایس جیسے دلدوز واقعات رونما ہوتے رہیں، اور قوم کے بچے مرتے رہیں؟ بعض حضرات افغانستان اور پاکستان کے درمیان بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو یقیناً دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر واحد حل فوجی آپریشن ہوتا تو آپریشن ضربِ عضب کے بعد ان جتھوں کا خاتمہ اور دہشت گرد حملوں کا سدباب ہوجانا چاہیے تھا۔ قبائلی علاقے مکمل طور پر پاکستان کی عمل داری میں آچکے ہیں مگر اس کے باوجود30جنوری 2023ء کو پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے کا خونیں واقعہ رونما ہوا۔ اس سے قبل بھی خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں اور فاٹا میں فورسز نشانہ بن چکی ہیں، جبکہ پشاور کے اس سانحے کے بعد ریاست کی پوری توجہ مرتکب گروہ اور نیٹ ورک پر مرکوز تھی کہ ایک خودکش حملہ آور کوئٹہ پہنچ گیا۔5فروری2023ء کوعین اُس وقت جب کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کے اندر اکبر بگٹی کرکٹ گرائونڈ میں کوئٹہ گلیڈیٹرز اور پشاور زلمی کے درمیان پی ایس ایل کا نمائشی میچ ہورہا تھا ، حملہ آور نے گلستان روڈ پر کوئٹہ چھائونی کے داخلی گیٹ موسیٰ چیک پوسٹ پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جانی نقصان زیادہ نہ ہوا۔ ایک سپاہی جاں بحق ہوا اور چند دوسرے زخمی ہوگئے۔ خدانخواستہ اگر اُس کا انتخاب ایوب اسٹیڈیم کا داخلی گیٹ ہوتا تو کوئٹہ معصوم شہریوں اور فورسز کے جوانوں کے خون سے رنگین ہوجاتا۔ اسی روز شام کو کوئٹہ کے منو جان روڈ پر ایک گھر پر دو دستی بم پھینکے گئے۔ ایک دن قبل بولان میں فورسز کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح کے کئی واقعات حالیہ دنوں میں رونما ہوچکے ہیں۔ گلستان روڈ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی قبول کرچکی ہے۔

بعض لوگ ان حالات کو روس کے خلاف افغانوں کی جنگ قرار دیتے ہیں، لیکن 1970ء کی دہائی میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں تخریب کاری، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں اور واقعات کے وقت تو افغان جہاد نہیں تھا جہاں علیحدگی کی تحریکوں کے تانے بانے جوڑے گئے تھے… بھارت،کابل اور ماسکو سے کڑیاں ملائی گئی تھیں۔ دراصل خرابیوں کی خشت ہی ان بزعمِ خیش روشن خیالوں اور ترقی پسندوں نے رکھی ہے جنہیں ماسکو کے زیراثر افغان حکومتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ افغان صدر سردار دائود کے قتل اور اقتدار پر روس نواز افغان کمیونسٹوں کے قبضے کے بعد قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا، جبکہ افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلے کے بعد حالات مزید خطرناک مراحل میں داخل ہوگئے۔ اس قتل و غارت اور انتقام کی سیاست و نظام کی یہ روشن خیال سیاست دان اور دانش ور ہر سطح پر حمایت کرتے۔ پاکستان کے کئی سیاسی بڑے، کابل میں جلا وطن تھے، وہ وہیں سے علیحدگی کی تحاریک کی قیادت کرتے۔ روسی افواج کے جنیوا معاہدے کے تحت نکلنے کے بعد اسلام آباد کی ناعاقبت اندیشی کی بنا پر افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا، مگر اس کے باوجود پاکستان کو اندرونی خطرات درپیش نہ تھے۔ 1990ء کی دہائی میں افغانستان پر طالبان قابض ہوئے تو پاکستان کو مغربی سرحدات کے حوالے سے پوری طرح اطمینان حاصل ہوا۔ نیویارک کی جڑواں عمارتوں کے انہدام کے بعد جب جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کو افغانستان پر حملوں کے لیے اڈے دیے تو پاکستان کے اندر امن اور سلامتی دائو پر لگ گئی۔ پرویزمشرف کی اس افغان کُش پالیسی کو پاکستان کی بائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتوں، لکھاریوں اور دانش وروں کی حمایت حاصل تھی، بالخصوص پشتون، بلوچ سیاسی جماعتیں پھولے نہیں سما رہی تھیں، اور انہوں نے ہر طرح سے پرویزمشرف اور واشنگٹن کا ساتھ دیا۔ چناں چہ اس گٹھ جوڑ کی کوکھ سے تحریک طالبان پاکستان نمودار ہوئی۔ ابتدائی سالوں میں مذاکرات اور مفاہمت کے مواقع ہاتھ سے جانے دیے گئے۔ نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ ہوا تو وہ ڈرون حملے میں مار دیے گئے۔ بلاشبہ اس عفریت نے سب سے زیادہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو لپیٹ میں لیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ان گروہوں نے زد میں لیا۔ چناں چہ وہ دن ہے اور آج کا دن… مسلح گروہ اپنی جگہ قائم ہیں اور وجود رکھتے ہیں۔ جبکہ ریاست پاکستان اُن سے برسرِ پیکار ہے۔ لہٰذا اس میں سب ہی مورد الزام ٹھیرتے ہیں۔ خصوصاً بنیاد کابل پر کمیونسٹوں کو مسلط کرکے رکھ دی گئی تھی۔ بلوچستان میں مسلح کارروائیاں بھی افغانستان پر امریکی قبضے اور پرویزمشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، اور ان حالات سے خلاصی کا مؤثر اور آخری راستہ بات چیت اور مذاکرات ہے، بھلے اس کے لیے کچھ گنوانا ہی پڑے۔ وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی امور کے کوآرڈی نیٹر’’جان کربی‘‘ نے ٹی ٹی پی کے خلاف اسلام آباد کی مدد کا کہا ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ واشنگٹن داعش کے خلاف افغان حکومت کی بھی مدد کرے۔ افغانستان میں داعشی گروہ کا خاتمہ افغانستان سمیت پاکستان میں بھی امن پر منتج ہوگا۔ کابل حکومت سے الجھائو ہرگز سودمند نہیں ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ اب بھی پشت پناہ رکھتے ہیں۔