ترکیہ اور شام ایک زلزلہ زدہ علاقے میں واقع ہیں اور اپنی پوری تاریخ میں متعدد زلزلوں کا تجربہ کرچکے ہیں۔ ان زلزلوں نے خطے میں نمایاں تباہی اور جانی نقصان پہنچایا ہے۔ ترکیہ کے جنوب اور شمالی شام میں 7.8شدت کے حالیہ شدید زلزلے نے بھی قیامت صغریٰ پیدا کردی ہے، ہر طرف موت کا منظر، چیخنے چلاّنے کی آوازیں اورخوف،بے بسی، سسکیاں اور آہیں تھیں۔
ٹیکنالوجی اور ترقی کے اس جدید دور میں لمحوں میں بلند و بالا عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں، اور دیکھنے والی آنکھوں کی پلکیں بھی نہیں جھپکی تھیں کہ سب کچھ میدان میں تبدیل ہوگیا۔ یہ کیسے ہوا، کیوں ہوا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اب تک کی خبر کے مطابق 17 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، 63ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 6400 سے زائد عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔، جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ موجود ہے۔
زلزلے کے جھٹکے صبح 4 بج کر 17 منٹ پر محسوس ہوئے اور یہ مرکز سے کئی سو میل تک محسوس کیے جاتے رہے۔ لوگوں نے بتایا کہ کیسے وہ نیند سے جاگے اور بھاگ کر اپنی گاڑی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ ایردیم نام کے ایک شہری نے کہا کہ ”اپنی 40 سالہ زندگی میں مَیں نے کبھی ایسے محسوس نہیں کیا۔ ہم تین مرتبہ بہت بری طرح جھنجھوڑے گئے، جیسے کسی بچے کو جھولے میں ہلایا جاتا ہے“۔ جھولتی عمارتوں کے دل دہلا دینے والے مناظر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ترکیہ کے جنوبی علاقے دیارباقر میں زخمی ہونے والی خاتون نے ایمبولینس میں منتقلی کے دوران بتایا کہ ”ہم جھولے کی طرح جھول گئے تھے اور اس وقت گھر میں ہم 9 افراد موجود تھے، میرے دو بیٹے تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور مجھے ان کا انتظار ہے“۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق خاتون کا خاندان دیارباقر میں واقع 7 منزلہ عمارت میں رہائش پذیر تھا، یہ عمارت بری طرح متاثر ہوئی ہے، خاتون کا بازو ٹوٹ گیا اور چہرے پر بھی زخم آئے ہیں۔ عثمانیہ کے گورنر کے مطابق صوبے میں 34 عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ ترکی سے آن لائن ایسی متعدد ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں رہائشی عمارتیں گرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ امدادی کارکنان ملبے تلے دبے افراد کی تلاش میں ہیں۔ شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک رہائشی ثمر نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ”گھر کی دیواروں سے پینٹنگز گر پڑیں۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اب ہم سب کپڑے تبدیل کرکے دروازے پر کھڑے ہیں“۔ غزہ کی پٹی میں بی بی سی کے پروڈیوسر رشدی ابوالعوف کہتے ہیں کہ جس گھر میں وہ رہ رہے تھے وہ 45 سیکنڈ تک ہلتا رہا۔
یونیورسٹی کالج لندن کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے ”رِسک این ڈیزاسٹر ریڈکشن“ سے منسلک پروفیسر جوئنا فار واکر کے مطابق ”پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گزشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت حالیہ زلزلے کے برابر تھی، اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے“۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی۔ یہ زلزلہ صبح سویرے اُس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔
اس سے قبل ترکیہ میں کئی بار زلزلے آچکے ہیں، جن میں سے ایک 13 اگست 1821ء کو اس علاقے میں 7.4 کی شدت کا آیا تھا، تاہم اس کی شدت موجودہ سے خاصی کم تھی، اس کے باوجود اس زلزلے کے نتیجے میں یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور صرف حلب کے شہر میں 7 ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ 19ویں صدی کے اس بڑے زلزلے کے ایک برس بعد تک اس علاقے میں آفٹر شاکس آتے رہے۔
پھر اس کے بعد 1939ء میں زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.7 تھی۔ اس زلزلے نے حلب اور دمشق کے شہروں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی خاصی تباہی مچائی تھی۔ 1942ء میں اس علاقے میں ایک اور بڑا زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.9 ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے نے حلب اور دمشق سمیت خطے کے دیگر علاقوں میں بھی بہت تباہی مچائی تھی۔1948ء میں اس علاقے میں ایک بڑا اور طاقتور زلزلہ آیا، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.4ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے نے حلب اور دمشق کے شہروں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی خاصی تباہی مچائی۔ 1999ء میں اس علاقے میں ایک طاقتور زلزلہ آیا اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.3 ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے نے استنبول اور ازمیت کے شہروں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی بہت تباہی مچائی اور 17 ہزار سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، اس کے بعد موجودہ زلزلے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جب دنیا 21ویں صدی میں داخل ہوئی تو اس خطے کو مزید کئی بڑے زلزلوں کے تجربے سے گزرنا پڑا، جن میں 2003ء کا زلزلہ بھی شامل ہے جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.3تھی۔ اس زلزلے نے استنبول اور ازمیت کے شہروں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی خاصی تباہی مچائی تھی۔ اسی طرح2011ء میں اس علاقے میں ایک طاقتور زلزلہ آیا تھا اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے نے حلب اور دمشق کے ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی خاصی تباہی مچائی۔ اس کے بعد 2017ء میںاس علاقے میں ایک اوربڑا زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.7 ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے میں بھی استنبول اور ازمیت کے شہروں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی کافی تباہی ہوئی تھی۔
ہولناک زلزلے کے بعد دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات اور اظہارِ یکجہتی کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے بھی ٹوئٹر پر اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ ”ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقوں کو متاثر کرنے والے اس شدید زلزلے کی اطلاع نے ہمیں سخت دھچکہ لگایا ہے۔ جانی و مالی نقصان کی بنا پر میں برادرم صدر رجب طیب اردوان اور برادر ترک عوام سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔“ انہوں نے یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ ہر مشکل گھڑی میں ترکیہ نے ہمیشہ پاکستان کی جانب اپنا امدادی ہاتھ بڑھایا ہے، پاکستان بھی اس مشکل وقت میں ہر ممکنہ امداد فراہم کرے گا۔ اس سلسلے میں متاثرہ افراد کی امداد کے لیے حکومتِ پاکستان کی ہدایات پر 51 رکنی ریسکیو ٹیم لاہور سے استنبول کے لیے روانہ ہوچکی ہے۔ قازقستان کے صدر قاسم جومرت توکایف نے بھی صدر اردوان کو زلزلے میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کے لیے تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔ روسی صدارتی محل کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ وہ زلزلے کے باعث ترکیہ کو امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں امدادی کارروائیوں کو منظم کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی ریسکیو ٹیموں کے پاس کچھ ایسے نظام موجود ہیں جو خاص طور پر زلزلے کے بعد عمارتوں کی پائیداری کا پتا لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”اسٹرونا“ نامی ایک نظام موجود ہے جس سے صورتِ حال سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ امریکہ ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے حوالے سے تمام ضروری مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ، ہنگری کے صدر کاتالین نوواک، کرغیزستان کے صدر جاپاروف، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، بیلارس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو، گیمبیا کے صدر آداما بارو، ایتھوپیا کی وزارت خارجہ، صومالیہ کے وزیر دفاع عبدالقادر محمد نور، کونسل آف یورپ کی سیکرٹری جنرل ماریجا پیکی نووک بورک، سویڈش وزیر خارجہ توبیاس بلسٹروم، لٹویا کے وزیر خارجہ ایڈگرس رنکیوکس، فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا، اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی، اطالوی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ انتونیو تاجانی، ڈچ وزیر خارجہ مارک روٹ، اور جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک، سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ، لیبیا کے وزیراعظم عبدالحمید دبیبہ، لیبیا کے وزیر خارجہ نیکلا مینگوش، عمان کے سلطان ہیثم بن طارق، اردنی وزارتِ خارجہ، اور ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کیانی نے بھی سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات جاری کیے ہیں، جن میں زلزلے میں جانیں گنوانے والوں کے اہلِ خانہ اور ان کے عزیز و اقارب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے، زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے اور ترکیہ کی مدد کے لیے تیار ہونے کا کہا گیا ہے۔
انسان بہت سے کاموں کی طرح زلزلے کے معاملے میں بھی بے بس ہے۔ یہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنتا ہے لیکن اسے روکنے کے لیے انسان کے بس میں کچھ نہیں، اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس کو روکا جاسکے۔ بس اس ضمن نقصان، چوٹ، اموات کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ زلزلوں اور ان سے منسلک خطرات سے بچنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ بڑے پیمانے کی تباہی کی بڑی وجہ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر، کان کنی، اور تیل اور گیس کی تلاش سبھی زلزلوں کا سبب بن سکتے ہیں۔