بے سمت سیاست، بے سمت حکمرانی پاکستان کا کیا ہوگا؟

عوام اس کا براہِ راست ذمہ دار جہاں سیاست دانوں اور حکومت کو قرار دے رہے ہیں، وہیں اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزامات لگا رہے ہیں

ملکی سیاست عملی طور پر بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ فیصلہ ساز چاہے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ، بظاہر معاملات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر عوام میں مایوسی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ہماری قیادت کے سامنے ریاستی و عوامی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات اہم ہوگئے ہیں۔ اس وقت ملک بڑے بحران سے گزر رہا ہے، اور بحران کی نوعیت بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ ملک عملاً غیر معمولی حالات کا شکار ہے، ایسے میں بحران سے نکلنے کا راستہ بھی غیر معمولی اقدامات سے ہی جڑا ہوا ہے، لیکن ہم آج بھی وہی روایتی محاذ آرائی اور ٹکرائو میں الجھے ہوئے ہیں، ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ ہماری سیاسی یا ریاستی سمت درست ہے؟ لیکن سوال وہی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے ہم کیسے باہر نکل سکتے ہیں اور ایسا کون سا روڈمیپ اختیار کرسکتے ہیں جو ہمیں قومی سلامتی یا معاشی ترقی کے عمل میں شریک کرسکے؟ یہ مایوسی محض اہلِ سیاست تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ان سب کا ہی بیانیہ غیر یقینی صورتِ حال کے تناظر میں مایوسی پیدا کرتا ہے۔

سیاسی اور جمہوری حکمرانی کا نظام مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جبکہ ہمارا نظام حل پیش کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اِس وقت معاشرے میں پھیلی ہوئی خوفناک سیاسی وسماجی تقسیم ہے۔ لوگ اس حد تک تقسیم ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے مخالف یا مخالف نقطہ نظر کو کسی بھی طور سننے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں کیسے آگے بڑھا جائے یہی بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ ریاست، سیاست، معیشت اور اداروں کی سطح پر جو گراوٹ ہے اس کے مقابلے میں ہم ذاتی مفاد پر مبنی سیاست کررہے ہیں۔ ان برے حالات میں ہمارا قومی مسئلہ مخالفین کے خلاف سیاسی انتقام بن چکا ہے۔ شہبازگل، اعظم سواتی اور اب فواد چودھری، شیخ رشید، شاندانہ گلزار، صحافی عمران ریاض اور چودھری برادران سمیت سب کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی بارات لگی ہوئی ہے۔ سب پر ہی بغاوت کے مقدمات بن رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بغاوت کی کوئی لہر چل رہی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو بغاوت کے مقدمات بنارہے ہیں، اور یہ کون نامعلوم افراد ہیں جو ایک صوبے سے نکل دوسرے صوبے میں سیاسی مخالفین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنا رہے ہیں؟

سانحہ پشاورپر بھی ہماری بے حسی عروج پر ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف ایک طرف تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری طرف اپیکس کمیٹی میں سارا غصہ عمران خان پر نکالا جاتا ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اور دوسری طرف عمران خان کو انتخابات کی سوجھی ہوئی ہے۔ جبکہ جواب میں پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کے واقعات ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم شہبازشریف پی ٹی آئی پر فنڈز کی خوردبرد کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تنائو اور ٹکرائو کے اس ماحول میں پی ٹی آئی نے اپیکس کمیٹی سمیت کشمیر کے حوالے سے ہونے والی قومی سیاسی کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کردیا ہے۔

دہشت گردی کے تناظر میں بڑا سوال ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ اس وقت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت افغانستان اور افغان طالبان کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرنے میں ناکام ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو پوری دنیا کا چکر لگاچکے ہیں مگر وہ کابل نہیں گئے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے بغیر ہم ٹی ٹی پی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ٹی ٹی پی کا معاملہ کسی بھی طور سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہوسکے گا، اس کے لیے افغان حکومت سے تعلقات بہتر بنانا اور مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنا ہوگی کہ ٹی ٹی پی سے کیسے نمٹا جائے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ محض جذباتی نعروں یا بڑے بڑے دعووں سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان، پیغامِ پاکستان، دخترانِ پاکستان اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کیونکر ناکام ہورہی ہے اوراس کی کیا وجوہات ہیں، اس کا بھی گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب حکومت کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بار پھر قومی جماعتوں پر مشتمل قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کانفرنس پہلی بار ہورہی ہے؟ اور اگر نہیں، تو ہم کانفرنس در کانفرنس کے باوجود دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے اہداف کے حصول میں کیوں ناکام ہورہے ہیں؟ تجزیہ اس بات کا بھی کیا جائے کہ ہم بطور ریاست ایسا کیا کچھ کررہے ہیں جو ہمیں ناکامی سے دوچار کررہا ہے؟

دوسری جانب وفاقی حکومت انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے۔ حال ہی میں گورنر خیبر پختون خوا اور گورنرپنجاب نے الیکشن کمیشن کے خط پر انتخابی تاریخ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اُن کے بقول ملک کی موجودہ معاشی اور سیکورٹی کی بدترین صورتِ حال کے تناظر میں الیکشن کمیشن پہلے سیاسی جماعتوں سے مشاور ت کرے اور پھر انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ وفاقی حکومت کا یہ طرزِعمل ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت کسی بھی طور وفاقی حکومت کو انتخابات قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی حالات، سیکورٹی، دہشت گردی اور مردم شماری کو بنیاد بناکر انتخابی عمل میں تاخیری حربے اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب اگر وفاقی حکومت واقعی انتخابات سے فرار چاہتی ہے تو اس کے لیے پہلے اُسے عدالتوں کی حمایت درکار ہے، کیونکہ انتخابات اگر ملتوی ہوتے ہیں اورکوئی بھی جواز بنایا جاتا ہے تو اس کا راستہ روکنے کے لیے پی ٹی آئی اعلیٰ عدالتوں کی طرف جائے گی۔ اب اگر عدالتیں بھی سیاسی فیصلے کریں گی تو اس کا ردعمل سامنے آئے گا، اور بلاوجہ ہم عدالتوں کو بھی سیاسی معاملات میں الجھانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ مسئلہ محض معاشی حالات یا دہشت گردی کا نہیں، بلکہ سیاسی حالات ایسے ہیں جنہوں نے حکومت کو شدید مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال انتہائی سنگین ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا ایک بڑا طوفان اور اس کے نتیجے میں جو معاشی بدحالی آنے والی ہے وہ حکومت کی ساکھ کو بہت زیادہ خراب کرے گی۔ ایسے میں حکومت کیسے ضمنی انتخابات یا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا راستہ اختیار کرے گی؟ وفاقی حکومت نے معاشی بدحالی کی ساری ذمہ داری براہِ راست پی ٹی آئی کی حکومت پر ڈال دی ہے۔ جو کچھ پی ٹی آئی نے کیا وہ سب کو معلوم ہے، اور وہ کون سا شاہانہ دور تھا؟ مگر جو بڑے بڑے سیاسی و معاشی دعوے موجودہ حکومت نے کیے تھے اُن کا کیا بنا؟ عوام میں زیادہ غصہ اسی بات پر ہے کہ ان تجربہ کاروں نے ملک کی سیاست اور معیشت کا کیا حال کردیا ہے! لیکن ابھی بھی حکومت ہو یا حزبِ اختلاف… دونوں کا مجموعی مزاج محض الزام تراشی پر ہی مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی وجہ سے جہاں سیاست خراب ہورہی ہے وہیں ہمیں بدترین معاشی صورتِ حال کا بھی سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست تو جذباتیت پر مبنی ہے جس پر تنقید کی جاسکتی ہے، لیکن ہمارے جو پرانے اور تجربہ کار سیاست دان ہیں، وہ کیوں انتقام کی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں! اگرچہ عوام اس کا براہِ راست ذمہ دار جہاں سیاست دانوں اور حکومت کو قرار دے رہے ہیں، وہیں اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزامات لگا رہے ہیں۔

جو کچھ اس وقت پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے اس پر حکومتی خاموشی بے حسی کے زمرے میں آتی ہے۔ حکومت عملی طور پر دبے لفظوں میں اس سیاسی انتقام کی ذمہ داری خود لینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہی ہے جس سے ایک نئے سیاسی انتشار اور ٹکرائو کی سیاست جنم لے گی۔ بدقسمتی سے سیاسی فریقین سیاسی فیصلے پارلیمنٹ یا سیاسی فورم پر کرنے کے لیے تیار نہیں، اور سارے فیصلوں کا بوجھ عملی طور پر اعلیٰ عدالتوں پر ڈالا جارہا ہے جس سے سیاسی فریقین اورعدلیہ میں محاذ آرائی یا تنائو پیدا ہوگا۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا شدید طوفان آنے والا ہے۔ وزیراعظم پہلے ہی اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اورآئی ایم ایف کے پروگرام اور اُس کی سخت شرائط پر عمل درآمد کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ آئی ایم ایف نے پہلی بار بہت زیادہ گفتگو شفافیت اور جواب دہی کے نظام پر رکھی ہے اور اسی کو بنیاد بناکر گریڈ 17سے 21 کے سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ پہلی بار ہمیں اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب سے بھی یہ سننے کو مل رہا ہے کہ پہلے آپ اصلاحات کریں پھر فنڈز دیے جائیں گے۔ بنیادی طور پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے فوری طور پر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ریلیف مل جائے، مگر اس کے مقابلے میں ہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کے لیے تیار نہیں، بس وقت گزاری کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی منظوری کے بعد ملک میں مہنگائی کا جو نیا طوفان آئے گا اُس کے سامنے بند کیسے باندھا جاسکے گا؟ اسی نکتے کو بنیاد بناکر حکمران اتحاد انتخابات سے بھی دور بھاگنا چاہتا ہے اور انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات اُن کے لیے سیاسی خودکشی ثابت ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال کے بعد ہم کیا کریں اور کیسے اس بحران سے باہر نکلیں؟ ایک جواب تو سادہ سا ہے کہ ہمیں مکمل طور پر آئین اور قانون کے مطابق خود بھی چلنا ہے اورملک کو بھی چلانا ہے۔ بلاوجہ آئین اور قانون سے چھیڑ چھاڑ درست نتائج نہیں دے سکے گی، اور اس سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری سیاست اور فیصلہ سازی سے جڑے افراد کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں، ایسے میں غیر معمولی اقدامات ہی ہمیں کوئی محفوظ راستہ دے سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی ذاتی، خاندانی اور جماعتی سیاست سے باہر نکل کر ایک بڑے ریاستی و معاشرتی فریم ورک میں حالات کا جائزہ لینا ہوگا، اور کچھ عملی اقدامات کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہم انتشار پر مبنی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کا کو ئی راستہ نظر نہیں آتا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست، جمہوریت اوراسٹیبلشمنٹ سمیت فیصلہ سازوں نے قوم کو نہ صرف مایوسی یا غیر یقینی کی کیفیت دی ہے بلکہ اسے مختلف مسائل پر تقسیم بھی کردیا ہے۔ انتخابات سے فرار کا راستہ قومی مسائل کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔