پاکستان اورارتقا سے محروم قومی زندگی

فوجی اور سول آمریت سیاسی ،نظریاتی اور نفسیاتی اعتبار سے بدترین چیز مگر دنیا میں بادشاہوں اور آمروں نے قوموں کے معاشی ارتقا کو ممکن بنایا ہے۔

زندگی فرد کی ہو یا خاندان کی، قوم کی ہو یا تہذیب کی… اس کی معنویت اور اس کے جلال و جمال کا انحصار اس کے ارتقا پر ہوتا ہے۔ پودا ارتقا پاکر درخت بنتا ہے تو برگ و بار لاتا ہے، سایہ دار بنتا ہے۔ انسان بچپن اور لڑکپن سے گزر کر جوان اور بوڑھا ہوتا ہے۔ ہمارا نفسِ امارہ ترقی پاکر نفسِ لوامہ بنتا ہے۔ نفسِ لوامہ ترقی پاکر نفسِ مطمئنہ میں ڈھلتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ نفسِ ملہمہ میں ڈھل کر مزید ارتقا پاتا ہے۔ نفسِ ملہمہ نفسِ راضیہ اور نفسِ مرضیہ میں منقلب ہوتا ہے، اور نفسِ مرضیہ نفسِ مطلقہ کا روپ اختیار کرکے روحانی ارتقا کی آخری منزل سر کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے 1958ء سے اب تک قوم کو ایسے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے کہ ہماری قومی زندگی کا ارتقا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ہماری زندگی کو کولہو کے بیل کی زندگی بنا کر رکھ دیا ہے۔ کولہو کا بیل صبح سے شام تک چلتا رہتا ہے مگر کہیں نہیں پہنچ پاتا، وہ صرف ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 1958ء سے اب تک پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے بہت کچھ کیا ہے مگر دراصل انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ 1958ء سے 2023ء تک پاکستانی حکمرانوں کی مصروفیت دیکھ کر سلیم احمد کا شعر یاد آجاتا ہے۔ سلیم احمد نے کہا ہے:

اس کاروبارِ شوق کا انجام کچھ نہیں
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں

حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے مصروفیت بہت دکھائی ہے مگر ’’کام‘‘ ایک بھی نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ افراد اور قوموں کی زندگی میں معنویت اور جلال و جمال کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے: نظریے کا عشق یا عشق کا نظریہ۔ یعنی جب افراد یا قوموں کو کسی نظریے سے عشق ہوجاتا ہے یا وہ عشق کو نظریے کے طور پر قبول کرلیتی ہیں تو پھر ان کا ارتقا ممکن ہو پاتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں روحانی ارتقا کا سب سے بڑا مظہر عہدِ رسالتؐ ہے۔ اسلام لانے سے قبل اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب جانے سے قبل ابوبکرؓ صرف ابوبکر تھے، مگر اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق نے ابوبکرؓ کو ’’صدیق اکبرؓ‘‘ بنادیا۔ حضرت عمرؓ کسی زمانے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے مگر اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق نے انہیں ’’عمر فاروقؓ‘‘ میں ڈھال دیا۔ اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق نے عثمانؓ کو ’’عثمان غنیؓ‘‘ بناکر کھڑا کردیا، اور علیؓ اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے ’’علی مرتضیٰؓ‘‘ میں منقلب ہوگئے۔ نظریے کے عشق اور عشق کے نظریے کی وجہ سے مسلمانوں نے سب سے بڑا علمِ تفسیر خلق کیا، علمِ حدیث کا ایسا دریا خلق کیا جس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے فقہ کی ایسی روایت پیدا کی کہ دنیا اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ نظریے کے عشق اور عشق کے نظریے کے باعث مسلمانوں نے فارسی اور اردو میں عظیم شاعری کی مثال قائم کی۔ مسلمانوں نے علوم و فنون کے دائرے میں پانچ سو سال تک پوری دنیا کی امامت کی اور آج مغرب کے دانش ور بھی تسلیم کررہے ہیں کہ ان کے پاس جو علوم ہیں وہ مسلمانوں کی عطا ہیں۔ مسلمانوں نے نظریے کے عشق اور عشق کے نظریے کے تحت کہیں ہزار سال تک حکومت کی، کہیں چھ سو سال تک حکومت کا پرچم لہرایا۔ خود برصغیر میں نظریے کے عشق اور عشق کے نظریے کے معجزات ہمارے سامنے ہیں۔ اقبالؒ ایک زمانے تک ایک قوم پرست شاعر تھے۔ ان کی قوم پرستی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فرمایا:

پتھر کی مورتوں میں سمجھتا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہّ دیوتا ہے

ایسا شعر کوئی مسلمان کہہ ہی نہیں سکتا، ایسا شعر صرف ہندو ہی کہہ سکتا ہے۔ لیکن پھر اسلام کے نظریے نے اقبالؒ کی قلبِ ماہیت کر دی اور ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ گانے والا ’’مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ گاتا ہوا نظر آیا۔ اقبالؒ نے وطنیت کے بت کو پاش پاش کر دیا اور فرمایا:

بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے

اقبالؒ کی طرح محمد علی جناحؒ بھی قوم پرست سیاست دان تھے، انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا، مگر اسلام سے برآمد ہونے والے دو قومی نظریے نے محمد علی جناح کو ’’قائد اعظم‘‘ بنا کر کھڑا کر دیا۔ وہ جو صرف افراد کے وکیل تھے، انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ پاکستان کے نظریے نے برصغیر میں موجود مسلمانوں کی بھیڑ کو قوم میں ڈھال دیا اور پاکستان کو عدم سے وجود میں لا کر دکھا دیا۔

اردو کے عظیم شاعر میر تقی میرؔ نے محبت اور عشق کی معجزاتی قوت کو پوری قوت اور شدت سے بیان کیا ہے۔ ذرا دیکھیے تو میرؔ کیا کہہ رہے ہیں:

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭
محبت مسّبب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں جرأت آزما ہے عشق
٭
خوش ہیں دیوانگیِ میر سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
٭
جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے
دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا
٭
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
٭
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
٭
اے آہوانِ کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
کھائو کسی کا تیر کسی کا شکار ہو
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
٭
آنکھ ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

اقبال میر اور غالب کے بعد اردو کے تیسرے عظیم شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری میں عشق کے معجزات، اس کی فتوحات اور اس کی عظمت کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے ان کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ کو اردو شاعری کا تاج محل کہا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ہیں:

ہے مگر اُس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خوو اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات، عشق ہے نارِ حیات

اوراقبال کے الفاظ میں
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

اسلام کے دائرے میں علم کا مقام بہت بلند ہے، فرشتوں پر انسان کی فضیلت علم کی وجہ سے ہے، لیکن اقبالؒ نے اپنی معرکہ آرا نظم ’علم و عشق‘ میں عشق کو علم پر فضیلت دی ہے۔ ذرا قبال کی نظم تو دیکھیے:

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
عش کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتحِ باب
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام

علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے اُم الکتاب
بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے نہ پاکستان میں نظریے کے عشق کو قوت بنایا، نہ معاشرے میں عشق کے نظریے کی آبیاری کی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کے نظریے سے غداری کی۔ جنرل ایوب نے ملک پر سیکولرازم مسلط کیا، جنرل یحییٰ نے اپنے کردار و عمل سے ’’شراب اور شباب‘‘ کے نظریے کو پروان چڑھایا، بھٹو نے ایک جانب اسلامی سوشلزم ایجاد کیا دوسری جانب انہوں نے لبرل ازم کو معاشرے پر مسلط کیا۔ بے نظیر مغرب سے متاثر تھیں اور انہوں نے بھی کبھی اسلام کو نظریے کی حیثیت سے Own نہیں کیا۔ میاں نوازشریف بھی تین بار اقتدار میں آئے مگر وہ ہر بار امریکہ اور بھارت کا طواف کرتے پائے گئے۔ جنرل پرویز دوسرے جنرل یحییٰ تھے، وہ شراب اور شباب کے رسیا تھے اور لبرل ازم کو معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ عمران خان کی شخصیت چوں چوں کا مربہ ہے۔ وہ ایک جانب ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری جانب اُن کی رال چین کے نظام پر ٹپکتی ہے، تیسری جانب وہ اسکینڈے نیویا کے ملکوں کو پاکستان کے لیے رول ماڈل بناکر پیش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستانی قوم کا روحانی، اخلاقی، تہذیبی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی ارتقا ممکن نہیں ہوسکا۔ درمیان میں جنرل ضیا الحق ضرور ایسے حکمران بن کر سامنے آئے تھے جن کو اسلام سے دل چسپی تھی، مگر انہوں نے اسلام کو صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے پاکستان کے نظریے نے برصغیر میں مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھال دیا تھا، مگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کسی حکمران نے بھی پاکستانی قوم کو قوم بنانے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پنجابیوں، مہاجروں، سندھیوں، پشتونوں اور بلوچوں کی فراوانی ہے اور پاکستان میں ’’پاکستانی‘‘ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلزپارٹی وفاق کی علامت تھی مگر اب وہ عرصے سے ایک ’’سندھی پارٹی‘‘ ہے۔ نواز لیگ کہنے کو پورے پاکستان کی بات کرتی ہے مگر وہ صرف وسطی پنجاب کی ’’پنجابی پارٹی‘‘ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگانے والے نوازشریف نے نواز لیگ کو کبھی پورے پاکستان کی پارٹی بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اُن کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ایک سطح پر یہ صورتِ حال ہے، دوسری سطح پر ہم ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ تیسری سطح پر ہم دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث ہیں۔ چوتھی سطح پر ہم ’’سول‘‘ اور ’’فوجی‘‘ ہیں۔ چنانچہ قوم کے نظریاتی تشخص اور حقیقی قومی تشخص کا ارتقا ممکن ہی نہیں ہوسکا ہے۔

جنرل ایوب نے 1958ء میں جب ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کیا تھا تو عام خیال یہ تھا کہ یہ جرنیلوںکی پہلی اور آخری غلطی ہے۔ مگر بدقسمتی سے جرنیلوں نے مارشل لا کو ایک ’’عادت‘‘ بنالیا۔ چنانچہ جنرل ایوب گئے تو اُن کی جگہ جنرل یحییٰ آگئے، 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرلیا، 1999ء میں جنرل پرویزمشرف نوازشریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں جمہوریت کا ارتقا ممکن ہی نہیں ہوسکا۔ رہی سہی کسر سیاسی رہنمائوں کی جمہوریت دشمنی نے پوری کردی۔ پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے 50 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر اس میں آج تک انتخابات نہیں ہوئے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی میں موروثیت کا یہ عالم ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو گئے تو اُن کی جگہ بے نظیر بھٹو نے لے لی۔ بے نظیر قتل ہوئیں تو اُن کے شوہر آصف زرداری پارٹی کے قائد بن گئے۔ بلاول بڑے ہوئے تو انہوں نے آصف زرداری کی جگہ لے لی۔ نواز لیگ کو بھی قائم ہوئے 30 سال سے زیاد ہ ہوگئے ہیں مگر اس میں بھی آج تک انتخابات نہیں ہوئے۔ جب تک میاں نوازشریف قوی تھے وہ وزیراعظم رہے، وہ منظر سے ہٹے تو شہبازشریف ملک کے وزیراعظم ہوگئے۔ پنجاب میں وزارتِ علیا کا منصب خالی ہوا تو حمزہ شہباز اس پر قابض ہوگئے۔ اب مریم نواز کو پارٹی کی چیف آرگنائزر اور نائب صدر بنادیا گیا ہے۔ جمہوری اعتبار سے یہ ایک شرم ناک صورتِ حال ہے مگر مریم نواز کی ’’سیاسی بے حیائی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میرے حوالے سے موروثیت کا بہت ذکر ہورہا ہے حالانکہ عوام کی محبت موروثیت نہیں جمہوریت کہلاتی ہے۔ دنیا کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آمروں نے ہمیشہ خود کو مقبولِ عوام ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن مقبولِِ عوام اور جمہوری ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ مولانا مودودیؒ مجددِ وقت اور پوری اُمت کے امام تھے مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ داخلی انتخابی عمل سے گزرتے رہے اور انہوں نے کبھی اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو جماعت اسلامی پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بہرحال اس صورتِ حال کی وجہ سے قوم کا جمہوری ارتقا ممکن نہیں ہوسکا۔

فوجی اور سول آمریت سیاسی، نظریاتی اور نفسیاتی اعتبار سے بدترین چیز ہے مگر دنیا میں بادشاہوں اور آمروں نے قوموں کے معاشی ارتقا کو ممکن بنایا ہے۔ انگریزوں کی آمد سے قبل برصغیر مسلم بادشاہوں کے ماتحت تھا مگر معروف مغربی مؤرخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی کتاب ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ جس وقت انگریز برصغیر پر قابض ہوئے برصغیر عالمی جی ڈی پی یا کُل عالمی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کررہا تھا، اور جب ’’جمہوری انگریز‘‘ برصغیر سے رخصت ہوئے تو برصغیر عالمی پیداوار کا صرف 4 فیصد پیدا کررہا تھا۔ جدید تاریخ میں چین، ملائشیا اور سنگاپور کے حکمرانوں نے آمریت کے زیرِ سایہ بے مثال معاشی ترقی کی مثال قائم کی ہے۔ چین نے گزشتہ چالیس سال کے دوران اتنی معاشی ترقی کی کہ وہ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ چین کے پاس ساڑھے تین ہزار ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ چین نے گزشتہ چالیس برسوں میں 20 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ ملائشیا میں مہاتیر محمد کی آمریت نے ملائشیا کو ایک بڑی معاشی قوت میں ڈھالا ہے۔ سنگاپور میں لی کوان یو کی آمریت نے سنگاپور جیسے معمولی ملک کو چالیس سال میں ترقی یافتہ ملک بنا کر رکھ دیا ہے۔ معاشی ترقی کے سلسلے میں بھارت کا معاشی ارتقا بھی حیرت انگیز ہے۔ 1999ء میں بھارت کی قومی پیداوار 450 ارب ڈالر اور پاکستان کی 63 ارب ڈالر تھی۔ 1999ء میں کینیڈا کی قومی پیداوار 678 ارب ڈالر، برطانیہ کی 1690 ارب ڈالر، فرانس کی 1490 ارب ڈالر تھی، مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار صرف 350 ارب ڈالر ہے جب کہ بھارت کی مجموعی قومی پیداوار 3 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں بھارت نے برطانیہ اور کینیڈا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امکان ہے کہ اگر بھارت موجودہ رفتار سے ترقی کرتا رہا تو 2030ء میں اس کی مجموعی قومی پیداوار 7 ہزار ارب ڈالر سے بڑھ جائے گی۔ بلاشبہ بھارت نے بھی 1957ء سے 1993ء تک آئی ایم ایف سے 7 بار قرض لیا ہے، مگر 1993ء سے اب تک اُس نے آئی ایم ایف سے کوئی قرض نہیں لیا۔ اس کے برعکس ہم 1950ء سے اب تک آئی ایم ایف سے 22 مرتبہ قرض لے چکے ہیں اور اب 23 ویں مرتبہ قرض لینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے حکمرانوں نے قرض کو ’’تزویراتی‘‘ یا Strategic سمجھا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے فوجی اور سول حکمران 1950ء سے اب تک قرضوں کے نشے میں مبتلا ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک 120 ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے اور ہم پرانا قرض بھی نئے قرض سے ادا کررہے ہیں۔ اس صورتِ حال نے ہمیں آئی ایم ایف، عالمی بینک یا امریکہ کا غلام بنادیا ہے اور ہماری سیاسی اور معاشی آزادی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ نوازشریف اینڈ کمپنی کہا کرتی تھی کہ عمران خان کو معیشت چلانی نہیں آتی۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے بھی آتے ہیں اور وہ ڈالر اور مہنگائی کو بھی کنٹرول کریں گے۔ مگر اب شہبازشریف اور اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے جوتے چاٹ رہے ہیں اور اسحاق ڈار مہنگائی کو کم کر پا رہے ہیں نہ ڈالر کو کنٹرول کر پا رہے ہیں۔ عمران خان جب رخصت ہوئے تھے تو ملک میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد تھی، اب شریف بدمعاشوں کے دور میں مہنگائی کی سطح 27 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔