مجھے یہ تصویریں بہت پیاری لگتی ہیں… مجھے ان سے بہت محبت ہے۔ میری آرزو اور خواہش ہے کہ آپ کو بھی اسی طرح ان سے محبت ہوجائے… بلکہ میری محبت سے زیادہ… اور ہمیشہ رہے۔ محبت ہی زمان و مکاں کے فاصلے مٹاکر محبوب سے قریب کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ جو مجسم محبت و رحمت تھے اور جن کی چند تصاویر آج میں آپ کی نذر کرنے چلا ہوں، انہوں نے خود ہی یہ خوش خبری دی ہے۔
ان کے ایک ساتھی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بتاتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ دل میں ایک خلش تھی، وہ بیان کی۔ یہ خلش ہم سب کے دل میں ہے۔ اب پوچھنے کا موقع تو نہیں، لیکن اس شخص نے ہم سب کی طرف سے پوچھ لیا ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جس نے لوگوں سے محبت کی لیکن ان تک نہ پہنچ سکا؟‘‘ نہ صحبت ملی، نہ ملاقات ہوئی، نہ عمل میں ان کے قریب پہنچے۔ فاصلے زماں کے بھی رہے، مکاں کے بھی، اور علم و عمل کے بھی… آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’آدمی اس کے پاس ہے جس سے اس نے محبت کی‘‘۔ (بخاری، مسلم)
یہ ساتھ اور قرب اس دنیا میں تو ہے ہی… اور آپ کو شبہ ہو تو محبت کرکے دکھ لیجیے کہ زمانے اور فاصلے کا بُعد کس طرح مٹ جاتا ہے، لیکن اس دنیا، آنے والی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ کے ایک اور ساتھی حضرت انسؓ نے بتایا ہے کہ ایک اور شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا کہ پوچھ تو رہے ہو، لیکن اس کے لیے تیاری کی ہے؟ بولا:
’’تیاری تو میں نے کچھ نہیں کی… لیکن بس اتنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں‘‘۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:’’تُو اُس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
بتایئے! اس سے زیادہ خوشی و شادمانی کا سامان اور کس بات میں ہوسکتا ہے! خود اُس زمانے میں جب اللہ کے رسولؐ موجود تھے، ’’لوگوں نے یہ خوش خبری سنی تو ایسے خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے بعد کسی بات سے نہ ہوئے تھے‘‘۔ یہ حضرت انسؓکا بیان ہے۔ اب ہمارے زمانے میں تو ہم جیسے درماندہ و عاجز، ناقص و ناکارہ انسانوں کے لیے، جو آخرت کی تیاری میں بالکل ہی پیچھے رہ گئے ہیں، تسلی و اطمینان اور مسرت و خوشی کا سامان واقعی اس بات سے بڑھ کر اور کس بات میں ہوسکتا ہے۔ پس محبت کریں تو اللہ کا بھی ساتھ ملے گا، اس کے پیارے رسولؐ کا بھی، اور ان دونوں کے سارے چاہنے والوں کا بھی۔
آج اللہ کے رسولؐ کی ذات تو ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن آپؐ کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ہمارے پاس ہے۔ پوری زندگی کی تصویر۔ اس لیے کہ آپؐ کا اسوہ ہمارے پاس ہے۔ اگر ہم اس اسوہ کی ایک ایک ادا اور اس کے ایک ایک نقش سے محبت کرنے لگیں اور اس پر اپنی نگاہیں جمالیں، اسے اپنے دل میں بٹھالیں، اوراس جیسا بننے کی کوشش میں بھی لگ جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس خوش خبری کے مستحق نہ قرار پائیں۔ اگرچہ آج ہم آپؐ کے قدموں میں نہیں بیٹھ سکتے، لیکن آپؐ کے ہر قدم کی چاپ سن سکیں گے اور آخرت میں تو ضرور آپؐ کو ان آنکھوں سے دیکھیں گے اور آپؐ کی صحبت کی سعادت سے سرفراز ہوں گے (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
ایک بات ضرور ہے۔ جو تصویریں میں آپ کو دکھانے چلا ہوں، ان کے ساتھ صرف لطف و لذت نہیں، درد و غم کی چند لہریں بھی ہیں۔ یہ لہریں میرے دل کے اندر اٹھتی ہیں اور ان کی کسک شاید آپ بھی محسوس کریں۔ مگر یہ درد اور کسک کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ جب میں ایک طرف ان تصویروں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہوں، اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ان دونوں میں اتنا نمایاں تفاوت، بلکہ تضاد محسوس ہوتا ہے کہ بے اختیار میرا دل غم و اندوہ کا شکار ہوجاتا ہے۔ شکار اس غم کا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا دل محبت سے خالی ہو، جب ہی میں ان تصویروں کے حسن و جمال سے آنکھیں بند کرکے نہ معلوم کن راہوں پر دوڑتا چلا جارہا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس انسان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قرب سے محروم ہوجائوں، دور کردیا جائوں… کہ جس سے محبت کا مجھے دعویٰ ہے اور جس کے پیچھے چلنے کی آرزو میرے دل میں ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ان تصویروں کے ساتھ یہ درد و غم بھی آپ کی نذر کردوں۔ آپ تصویریں لے کر جائیں۔ آپ شاید کہیں کہ درد و غم تو کوئی تحفہ نہ ہوا، تحفہ تو وہ ہے کہ جو خوشی اور مسرت کا ساتھ لائے۔ لیکن جس غم کی کسک میں آپ کو دینا چاہتا ہوں اس کے بارے میں اتنی بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج آپ نے اس غم کو پالیا تو آج بھی اور کل بھی ہر اندیشے اور خوف سے، اور ہر حسرت اور غم سے نجات پا جائیں گے۔ لَاخَوفٌ عَلَيهِم وَلَا هُم يَحزَنونکی بشارت آپ کے حق میں پوری ہوگی اور آپ اس مقامِ اعلیٰ پر پہنچ جانے کے مستحق بن جائیں گے۔
چنانچہ ان تصویروں کو اس طرح دیکھیں کہ آپ ان کی دل کشی و دل رباعی سے لطف اندوز بھی ہوں، آپ کے دل کے اندر ان سے محبت بھی پیدا ہو۔ ساتھ ہی یہ آپ کے لیے ایک معیار اور کانٹا بھی بن جائیں اور ایک آئینہ بھی کہ جس میں جھانک کر آپ یہ دیکھ سکیں کہ خود آپ کی تصویریں، اس سے کتنی مطابقت رکھتی ہیں۔ (”چند تصویریں سیرت کے البم سے“،خرم مراد)
مجلس اقبال
ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانہ اندازِ کلیسائی کر
علامہ مغرب پرست اور بھٹکے ہوئے مسلمان کو ہدایت کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو فرنگی تہذیب سے آزاد کرکے اسلام کی تہذیب اختیار کر۔ اپنی حقیقت کو پہچان، اور اپنے اصلی مقام کی طرف واپس آجا، یعنی سچا اور مخلص مسلمان بن جا۔ جب تُو مومنِ صادق بنے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ تیرا مقام کتنا بلند ہے۔ میری نظر سے دیکھو تو تمہاری خاک کے ذرّے بھی اتنے بلند مرتبہ ہیں کہ ان سے اللہ کا گھر یعنی حرم تعمیر ہوسکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو عزت والی مخلوق بنایا، مگر غلامی تو انسان کو مقامِ انسانیت سے گرا دیتی ہے۔